Episode 78 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 78 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اس نظم کے علاوہ پیام مشرق میں عشق کے عنوان سے اور بھی چار اشعار ہیں جن کا اندراج اقبال کے نظریہ عشق کی وضاحت کیلئے ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اقبال کے کلام میں عقل کی توہین و تحقیر تو بہت کچھ ملتی ہے لیکن ان اشعار میں اقبال نے ایک بڑے نکتے کی بات کہی ہے جسے اس نے غالباً کسی اور جگہ نہیں دہرایا۔ کہتا ہے: کہ عقل کے بھی کارنامے بہت حیرت انگیز ہیں۔
اس نے بھی حیات و کائنات کے بعض پہلوؤں کو روشن کیا ہے۔ انسانی زندگی میں جو تنویر ہے اس کا حصہ عقل کی پیداوار ہے۔ جس عقل نے نور پیدا کیا ہے اس کو بھی عقل کا تلمند حاصل تھا۔ آخر عقل و حکمت کی جدوجہد،جس کیلئے اعلیٰ درجے کے انسانوں نے زندگیاں وقف کر دیں وہ بھی صداقت کی طلب تھی،اگر حکما میں صداقت کا عشق نہ ہوتا تو ان کیلئے بے غرضانہ زندگی بسر کرنا ممکن نہ ہوتا۔

(جاری ہے)

رومی میں عشق کی فراوانی سہی لیکن بو علی سینا اور فارابی بھی عشق کے سرور سے خالی نہ تھے۔ عقل کی نار اور اس کا نور بھی عشق ہی کا ایک کرشمہ اور اسی کا ایک جلوہ بیباک ہے:
عقلے کہ جہاں سوزد، یک جلوہ بیباکش
از عشق بیاموزد جہاں تابی
عشق است کہ در جانت ہر کیفیت انگیزد
از تاب و تب رومی تا حیرت فارابی
نقش فرنگ میں اقبال کہتا ہے کہ عقل اپنے وظیفہ حیات میں،جو نہایت اشرف و افضل ہے،تنگی پیدا کرکے انسانوں کو گمراہ،مادہ پرست اور حاضر پرست بنا دیتی ہے۔
اگر عقل کے پر پرواز نوچے اور کترے نہ جائیں تو اس کی پرواز کی بھی کوئی حد نہیں۔ عقل کا کام انفس و آفاق دونوں کے متعلق دانش و بینش پیدا کرنا تھا لیکن اس نے محض جہاں بینی کا شیوہ اختیار کر لیا اور خود بینی میں مہارت پیدا نہ کی۔ اس مادی کائنات کے ضمیر میں بھی عقل غوطہ زنی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن وہ برگ و ثمر کے رنگ و بو کا تجزیہ کرتی رہی اور خمیر گل و نسرین میں غوطہ زن نہ ہوئی۔
زندگی کی گہرائیاں اور اس کی بلندیاں اس کے احاطہ قدرت سے باہر نہ تھیں لیکن اس نے مظاہر کی ریاضیاتی پیمائش تک اپنی نظر کو محدود کر لیا:
عقل خود بیں دگر و عقل جہاں بیں دگر است
عقل اگر نفس انسانی کی گہرائیوں کا جائزہ لیتی تو عرفان نفس کے ساتھ عرفان رب بھی اس کو حاصل ہو سکتا تھا:
دگر است آنکہ زند سیر چمن مثل نسیم
آں کہ در شد بہ ضمیر گل و نسریں دگر است
دگر است آنسوے نہ پردہ کشادن نظرے
ایں سوے پردہ گمان و ظن و تخمیں دگر است
اے خوش آں عقل کہ پہناے دو عالم با اوست
نور افرشتہ و سوز دل آدم با اوست
عقل کی تنگ نظری اور غلط روی یا مسخ جوہر کا ذکر اقبال کے کلام کا ایک کثیر حصہ ہے اور عشق کی زیادہ تر توصیف ہی توصیف اور والہانہ مداحی ہے،لیکن کیا عشق کی صورت کو انسانوں نے مسخ نہیں کیا؟ انسانوں کو جن جذبات نے تباہ کیا ہے ان میں سے ہوس بھی ہے جو عشق کا بھیس اختیار کر لیتی ہے اور اس فریب سے عشق کی تمام قوتیں تعمیر حیات کی بجائے تخریب حیات کا باعث ہوتی ہیں۔
کبھی ذوق اقتدار عشق کا جامہ پہن لیتا ہے اور کبھی ادنیٰ شہوات اپنا نام عشق رکھ لیتی ہیں۔ کبھی جاہلانہ اور وحشیانہ مذہبی تعصب عشق کے رنگ میں جلوہ گر ہوتا ہے جو ظلم کو رحمت اور عدل سمجھ لیتا ہے:
بے جرأت رندانہ ہر عشق ہے روباہی
بازو ہے قوی جس کا وہ عشق ید اللیٰ
نقش فرنگ میں اقبال نے فرنگ ہی کے عشق پر ہوس پیشہ ہونے کا الزام لگایا ہے لیکن عشق کی یہ تخریب تو شرق و غرب مسلم و غیر مسلم سب میں دکھائی دیتی ہے۔
اسی عشق کے متعلق حالی نے کہا ہے کہ:
اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھا کے چھوڑا
جس گھر سے سر اٹھایا اس کو بٹھا کے چھوڑا
اور اسی مخرب حیات عشق کے متعلق حالی کی یہ رباعی ہے:
ہے عشق طبیب دل کے بیماروں کا
یا خود ہے وہ گھر ہزار آزاروں کا
ہم کچھ نہیں جانتے پر اتنی ہے خبر
اک مشغلہ دلچسپ ہے بیکاروں کا
ہوس ہی نے اپنے آپ کو عشق جتا کر فارسی اور اُردو میں شعر و قصائد کا وہ ناپاک دفتر پیدا کیا ہے جس نے فن لطیف کو فن کثیف بنا دیا۔
اس بارے میں مشرق مغرب کے مقابلے میں کچھ کم مجرم نہیں ہے،لیکن اقبال کی زد میں زیادہ تک فرنگ ہی آتا ہے۔ اگر انصاف سے دیکھا جائے تو یہ تمام الزامات مشرقیوں پر کچھ زیادہ ہی چسپاں ہوتے ہیں:
عشق گردید ہوس پیشہ و ہر بند گست
آدم از فتنہ او صورت ماہی در شست
رزم بر بزم پسندید و سپاہے آراست
تیغ او جز بہ سر و سینہ یاراں نہ نشست
رہزنی را کہ بنا کرد، جہاں بانی گفت
ستم خواجگی او کمر بندہ شکست
بے حجابانہ بہ بانگ دف و نے می رقصد
جامے از خون عزیزان تنک مایہ بدست
وقت آنست کہ آئین دگر تازہ کنیم
لوح دل پاک بشوئیم و زسر تازہ کنیم
اس کے ساتھ ہی ملا ہوا جو بند ہے وہ اس امر کا ثبوت ہے کہ استبداد شکنی کا کام زمانہ حال میں مغرب نے مشرق کی نسبت زیادہ کیا ہے۔
محنت کشوں کے حقوق مغرب میں مشرق والوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ استوار ہو گئے ہیں۔ مطلق العنان بادشاہیاں مغرب نے ختم کی ہیں۔ انسانوں کے اندر مواقع حیات اور آئین میں مساوات فرنگ میں مسلمان کہلانے والی ملتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اقبال کو جو یہ نظر آ رہا ہے کہ:
زندگی در پے تعمیر جہان دگر است
اس کے مظاہر مغرب میں مشرق کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہیں کیوں کہ یہ تمام تحریکیں مغرب ہی میں پیدا ہوئیں اور اسی تہذیب و تمدن میں سے ابھریں جو اقبال کے نزیدیک سوز حیات سے خالی اور حیات باختہ ہے:
افسر پادشہی رفت و بہ یغمائی رفت
نے اسکندری و نغمہٴ دارائی رفت
کوہکن تیشہ بدست آمد و پرویزی خواست
عشرت خواجگی و محنت لالائی رفت
یوسفی را ز اسیری بہ عزیزی بردند
ہمہ افسانہ و افسون زلیخائی رفت
راز ہاے کہ نہاں بود بازار افتاد
آں سخن سازی و آں انجمن آرائی رفت
چشم بکشاے اگر چشم تو صاحب نظر است
زندگی در پے تعمیر جہان دگر است

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط