اقبال کے فارسی کلام میں عشق کا ولولہ بھی ہے اور اس کے بیان میں حکیمانہ نکات کی کثرت بھی ہے۔ رفتہ رفتہ تمام کائنات پر یہ رنگ چھا گیا ہے۔ اس کے اشعار سے جو تاثر اور اور اس کے ساتھ جو بصیرت پیدا ہوتی ہے،نثر میں اس کے متعلق کچھ لکھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی حکیم نباتی پھول کو توڑ کر اس کے اجزا کا تجزیہ کرے۔ بہرحال ان کے اندر فکر یا نظریہ حیات کا جو پہلو ہے اس کو افہام و تفہیم کی خاطر الگ کرکے دیکھ سکتے ہیں،لیکن ایسی تنقید بھی برگ درخت سبز کے مقابلے میں ایک زرد و خشک خزاں زدہ پتا معلوم ہوتی ہے۔
شعر ایک ذوقی چیز ہے۔ اس میں سے زبان کی صفتوں اور مضمون کو اخذ کرنا وہی شکایت پیدا کرتا ہے جو کسی مدرس کی تنقید پر انوری کی زبان سے نکلی تھی ”کہ شعر مرا بمدرسہ کہ برد“۔
(جاری ہے)
اقبال بھی یہ شکایت کر سکتا ہے کہ ”شعر مرا بفلسفی کہ برد“۔ اس تنقید کا ایک ہی جواز ہو سکتا ہے کہ حضرت نے خود بھی شعر میں حکمت کی آمیزش کی ہے اس لئے اس میں سے حکمت کو الگ کرکے دیکھنا یا دکھانا کوئی ایسا بڑا جرم نہیں ہے۔
ہم کچھ اشعار پیام مشرق میں سے نقل کرتے ہیں۔ حسب ضرورت کسی قدر شرح بھی بیان ہوتی جائے گی۔
لالہ طور کی پہلی رباعی ہی میں اقبال نے تمام ہستی کو خلاق وجود کا عاشق بتایا ہے،اسی لئے ہر ذرہ شہید ناز ہے:
شہید ناز او بزم وجود است
نیاز اندر نہاد ہست و بود است
نمی بینی کہ از مہر فلک تاب
بسیماے سحر داغ سجود است
اس کی تشریح میں غالب کے دو اشعار درج کرنے کے قابل ہیں۔
ایک فارسی کا شعر ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ ہر ذرے کا رخ خدا کی طرف پھرا ہوا ہے۔ اگر کسی کی چشم بصیرت وا ہو تو اسے خدا کی طرف جانے کیلئے کسی خضر راہ کی ضرورت نہیں،صحرا کے ذرے ہی رہنمائی کر سکتے ہیں:
اے تو کہ ہیچ ذرہ را جز برہ تو روے نیست
در طلبت تواں گرفت بادیہ را بہ رہبری
دوسرا شعر اُردو کا ہے:
ذرہ ذرہ ساغر میخانہ نیرنگ ہے
دیدہ مجنوں بہ چشمکہاے لیلیٰ آشنا
پیام مشرق میں دوسرے قطعے میں اقبال کہتا ہے کہ عشق کو جنون سمجھنے والا رمز حیات سے بے گانہ رہتا ہے۔
تیسرے قطعے میں وہی اشراقی اور ارتقائی نظریہ ہے جسے ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ جماد و نبات و حیوان و انسان میں نظم و نسق اور بصیرت اور ترقی عشق کی بدولت پیدا ہوتی ہے۔ عشق ہی پھول کھلاتا اور جماد کو نبات بناتا ہے اور سمندروں کی تہہ میں ظلمتوں کے اندر چشم ماہی میں بینائی اسی ذوق حیات کی بدولت پیدا ہوتی ہے جس کا دوسرا نام عشق ہے:
باغاں باد فروردیں دہد عشق
براغاں غنچہ چوں پرویں دہد عشق
شعاع مہر او قلزم شگاف است
بماہی دیدہ رہ بیں دہد عشق
ارتقا کا ایک مادیاتی اور میکانکی نظریہ وہ ہے جو ڈارون کے نام کے ساتھ وابستہ ہے کہ ہر جاندار زندہ رہنے کی کوشش میں ماحول سے توافق پیدا کرنے کی سعی کرتا ہے اور اتفاق سے بعض جانداروں میں ایسے اعضا پیدا ہو جاتے ہیں جو پیکار حیات میں مفید ثابت ہوتے ہیں اور توارث کے وسیلے سے وہ ایک نوع اصلح میں منتقل ہوتے ہیں۔
کسی جاندار کی زندگی اپنے اندر سے خود کوئی ارتقائی نہیں اٹھاتی۔ بہت سے حکماء اس ارتقا کو صحیح نہیں سمجھتے اور اس کے قائل ہیں کہ افزونی حیات کا ارتقائی جذبہ انواع میں نئے اعضا اور نئے حواس پیدا کرتا ہے۔ اقبال کا بھی یہی عقیدہ ہے جسے اس قطعے میں بیان کیا گیا ہے اور جگہ بھی کئی اشعار میں اقبال نے اس خیال کو دہرایا ہے۔ چکور کو رقاص پاؤں شوخی رفتار کے ذوق نے عطا کئے ہیں اور بلبل میں منقار ذوق نوا نے پیدا کی ہے۔
یہاں علت و معلول کا سلسلہ عام تصور کے برعکس ہے۔ اقبال کے نزدیک حقیقت یہ نہیں ہے کہ اتفاق سے خاص کی ٹانگیں کبک کو مل گئیں جن کی بدولت اس کیلئے ناچنا ممکن ہو گیا یا منقار اور گلے کی خاص ساخت کی وجہ سے بلبل نوا گر ہو گئی:
بلبل از ذوق منقار یافت
کبک، پا از شوخی رفتار یافت
عشق کا یہ تصور تمام کائنات کو ہم رنگ بنا دیتا ہے۔
جو جذبہ گل و لالہ میں ہے وہی جذبہ ترقی یافتہ صورت میں انسان کے اندر ہے۔ وہاں بھی وہ انقلاب اور ارتقا پیدا کرتا ہے اور نفس انسانی میں بھی۔ غرضیکہ خاک و افلاک سب عشق کی زد میں ہیں:
بہ برگ لالہ رنگ آمیزی عشق
بجان ما بلا انگیزی عشق
اگر ایں خاکدان را واشگافی
درونش بنگری خوں ریزی عشق
شاعرانہ تمثیلیں اور تشبیہیں کبھی استدلال کے مقابلے میں زیادہ یقین آفریں اور دل نشیں ہوتی ہیں اور کبھی ثبوت کو کمزور بھی کر دیتی ہیں۔
ابھی اقبال کہہ چکا ہے کہ ذرے کا بھی دل چیریں تو اس کے اندر بھی زندگی کی تڑپ دکھائی دے،جسے وہ خون ریزی عشق کہتا ہے،لیکن اس کے بعد ہی کے قطعے میں محبت کے عالم گیر ہونے پر شک پیدا ہو جاتا ہے:
نہ ہر کس از محبت مایہ دار است
نہ باہر کس محبت ساز گار است
بروید لالہ با داغ جگر تاب
دل لعل بدخشاں بے شرار است
کسی روحانی بصیرت کے بغیر بھی حکیم طبیعی نے دل لعل بدخشاں کے اندر حکمت کی نظر ڈالی تو اسے وہاں نظام شمسی سے زیادہ جذب و اضطراب دکھائی دیا ور وہ اس کا اقرار کرنے لگا کہ اس سخت اور ٹھوس اور جامد نما لعل کے اندر حرکت کا ایسا محشرستان ہے جو ریاضیات اور طبیعیات کے قوانین کی گرفت میں نہیں آ سکتا۔
معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کوئی طبیعیاتی چیز نہیں بلکہ ایک شوق عناں گسیختہ ہے۔ غالب کی بصیرت کو طبیعیات نے بھی برحق ثابت کر دیا:
ذرہ ذرہ ساغر میخانہ نیرنگ ہے
دیدہٴ مجنوں بہ چشمک ہاے لیلیٰ آشنا
ساتویں قطعے میں یہ مضمون ہے کہ عشق کو اس تذبذب سے رابطہ نہیں کہ آرزو بر آئے یا نہ آئے،اس کی فطرت ہی شہید سوز وساز آرزو ہونا ہے۔
یہ وہی بات ہے جو اقبال نے ایک اور جگہ ایک مصرعے میں کہی ہے کہ:
صلہ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ
کیا عجیب الہامی مصرع ہے۔ تاریخ گوئی کے ایک ماہر کو یہ القا ہوا کہ یہ مصرع شہید ملت لیاقت علی خاں کے سال وفات کا مادہ ہے۔
اقبال کے نزدیک میلان بقا و ارتقا کا نام عشق ہے جو ہر لمحہ احوال نو کا شائق ہے۔ اسے ایک حالت پر قائم رہنا پسند نہیں۔
ہر لمحہ جہان نو پیدا کرنا اس کی فطرت میں داخل ہے:
کہن را نو کن و طرح دگر ریز
دل ما بر نتابد دیر و زودش
اقبال کی طبیعت غالب سے زیادہ جدت پسند ہے جو کہتا ہے:
رفتم کہ کہنگی ز تماشا برافگنم
در بزم رنگ وبو نمطے دیگر افگنم
اقبال کے ابتدائی فارسی کلام میں بھی یہ شعر ملتا ہے:
طرح نو افگن کہ ما جدت پسند افتادہ ایم
ایں چہ حیرت خانہ امروز و فردا ساختی
خدا کی صفت ”کل یوم ھو فی شان“ ہے۔
چونکہ آدم کے اندر بھی اس نے اپنی ہی روح پھونکی ہے،یہی صفت آدم کی فطرت میں بھی ہے اور اس جدت آفرینی میں وہ خدا کا شریک کار ہو گیا ہے۔ خدا کی آفرینش کے اندر یہ اپنی صناعی سے کچھ اضافہ کر دیتا ہے:
نواے عشق را ساز است آدم
کشاید راز و خود راز است آدم
جہاں او آفرید، ایں خوب تر ساخت
مگر با ایزد انباز است آدم