Episode 56 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 56 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

نواں باب:
جمہوریت
جمہوریت کی نسبت کلام اقبال میں موافق اور مخالف دونوں قسم کے تصورات ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت بھی ان مبہم تصورات کی طرح ہے جن کے کوئی معنی معین نہیں ہیں۔ اس وقت دنیا میں ہر قوم یا جمہوریت کی خواہاں اور اس کے حصول کیلئے کوشاں ہے یا اس بات کی مدعی ہے کہ صحیح جمہوریت صرف ہمارے پاس ہے،اس کے علاوہ اور اقسام کی جمہوریت کے دعوے سب بے بنیاد اور محض ابلہ فریبی ہیں۔
جمہوریت کا عام ترین مفہوم جس پر سب متفق معلوم ہوتے ہیں،یہ ہے کہ رعایا پر کوئی فرد یا کوئی طبقہ اس کی مرضی کے خلاف حکومت نہ کرے۔ ابراہیم لنکن کے قول کے مطابق حکومت عوام کی ہو اور عوام کیلئے ہو اور رفاہ عامہ اس کا مقصود ہو۔ جمہوریت وہ نظام ہے جس میں اقتدار اعلیٰ نہ سلاطین کو حاصل ہو اور نہ امرا کے طبقے کو۔

(جاری ہے)

حکومت کی باگ نہ جاگیرداروں اور زمینداروں کے ہاتھ میں ہو اور نہ سرمایہ داروں اور کارخانہ داروں کے ہاتھ میں۔

مجلس آئین ساز میں جو نمائندے ہوں وہ آزادی سے عوام کے منتخب کردہ اہل الرائے ہوں۔ اس قسم کی طرز حکومت قدیم دنیا میں بھی کہیں کہیں رہی ہے۔
 یونان کی یک شہری مملکتوں میں اس کے نمونے ملتے ہیں۔ ایتھنز میں ایک عرصے تک اسی انداز کی حکومت رہی۔ لیکن ان مملکتوں میں بھی جمہوریت کے انداز مختلف تھے۔ اسپارٹا جو ایتھنز کا حریف تھا،اس کا تمام نظام عسکری تھا جو جدید زمانے کے فاشسطی نظامات کے مماثل تھا۔
رومتہ الکبریٰ میں ابتدائی دور میں ایک ریپبلک تھی،لیکن رومہ کی معاشرت میں بہت جلد خواص کا طبقہ عوام سے الگ ہو گیا اور سینیٹ میں اونچے خاندانوں ہی کے نمائندے قانون ساز تھے اور وہی حکمرانی کرتے تھے۔ سلطنت کی وسعت اور امرا کی باہمی آویزشوں کی وجہ سے آخرکار یہ جمہوریت شہنشاہی میں تبدیل ہو گئی اور شہنشاہ دیوتا سمجھ کر پوجے جانے لگے۔
ایک زمانہ آیا کہ رومتہ الکبریٰ کے شہری نیرو جیسے دیوانے اور ظالم کے مقابلے میں اپنے آپ کو بے بس پاتے تھے۔ اسلام نے جو نظام قائم کیا وہ بھی ایک خاص انداز کی جمہوریت تھی۔ اس کا دستور عوام کی رائے سے مرتب نہ ہوا تھا بلکہ از روئے وحی آسمانی خدائے علیم و حکیم کا تلقین کردہ تھا یا نبی حکیم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر مبنی تھا۔ سیاست و معیشت کے بنیادی اصول واضح اور معین تھے،لیکن بدلتے ہوئے حالات میں ذیلی اور فروغی آئین مشیران خلافت کی رائے کے مطابق وضع ہوتے تھے۔
امیر خلافت مسلمانوں کی رضا مندی سے منتخب ہوتا تھا۔ انتظام مملکت میں وہ اپنی صوابدید سے عمل کرتا تھا،لیکن اس کے ذاتی اور حکومتی اعمال پر تمام مسلمانوں کی نگرانی تھی۔ وہ شرعی حدود کے باہر قدم نہ رکھ سکتا تھا۔ اسلام نے شاہی اور امرائی حکومت کو منسوخ کر دیا تھا اور یہ اصول مقرر کر دیا تھا کہ حکومت مسلمانوں کے مشورے سے ہونی چاہئے۔ تمام رعایا کے بنیادی حقوق مساوی تھے،اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تمیز نہ تھی،چونکہ حکومت اسلامی تھی اس لئے اتنا امتیاز باقی رکھنا لازمی تھا کہ غیر مسلم امیر المومنین نہیں ہو سکتا۔
باقی سلطنت اور معیشت کے ہر قسم کے کاروبار اور انتظام میں خلیفے کو یہ حق حاصل تھا کہ کام کی نوعیت اور فرد کی استعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی کام یا عہدہ مسلم کے سپرد کرے یا کسی ذمی کے،جس پر امیر کو اعتبار حاصل ہو۔ دین اور ضمیر کے معاملے میں ہر شخص آزاد تھا۔ غیر مسلموں کے قوانین شریعت اور طریق زندگی میں حکومت مزاحم نہ ہو سکتی تھی۔
رعایا کا غریب سے غریب فرد امیر المومنین پر نالش کر سکتا اور عدالت میں اسے جواب وہی پر مجبور کر سکتا تھا۔
افسوس ہے کہ یہ نصب العینی نظام زیادہ دن تک قائم نہ رہ سکا،مملکت کے حدود یک بیک وسیع ہو گئے،عرب کے قبائل کے علاوہ غیر عرب اقوام اسلام کے دائرے میں داخل ہو گئیں۔ افراد کی اقتدار پسندی نے باہمی آویزش پیدا کی جو خانہ جنگی پر منتج ہوئی۔
قائل اور اقوام کے تعصبات جسے اسلام نے دبا دیا تھا،پھر ابھر آئے۔ پرانی خصومتوں نے پھر سر اٹھایا۔ ایسی حالت میں کسی اتفاق رائے سے امیر کا انتخاب دشوار بلکہ محال ہو گیا۔ ہزاروں میلوں میں منتشر مسلمانوں کی رائے کس طرح حاصل ہو سکتی تھی۔ مسلمانوں کا از روئے اسلام عقیدہ یہی تھا کہ امیر المومنین ملت کے مشورے سے منتخب ہو،خواہ وہ عربی ہو یا عجمی،سفید و سرخ رنگ کا ہو یا سیاہ فام حبشی،اس کی اطاعت مسلمانوں پر لازمی تھی،لیکن شوریٰ سے انتخاب کی کوئی عملی صورت نہ رہی۔
امیر معاویہ نے اس صورت حال کو دیکھ کر خلافت کو سلطنت میں بدل دیا اور اپنے بیٹے یزید کو ولی عہد بنا کر عام و خاص سب کو بجبر اس پر راضی کر لیا،سو ان چند نفوس قدسیہ کے جو اسلام حریت کے جوہر کو کسی قیمت پر بیچنے کیلئے تیار نہ تھے اور جنہوں نے اسلامی اصول کی مخالفت میں جان و مال کی قربانی سے درغ نہ کیا۔ خلافت کے سلطنت میں تبدیل ہونے کے ساتھ ہی ملوکیت کے انداز شروع ہو گئے اور سیاسی و اجتماعی زندگی میں اسلام کا لائحہ عمل رفتہ رفتہ کلدستہٴ طاق نسیاں بن گیا۔
اس وقت سے زمانہ حال تک اچھے یا برے مطلق العنان سلاطین ہی نظر آتے ہیں۔ ملوکیت کے دباؤ نے علما کی زبانیں بھی بند کر دیں۔ سلطان فاسق و جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے والا کوئی نہ رہا۔ علما دین کا تمام تر تفقہ افراد کے شخصی معاملات میں محدود ہو کر رہ گیا۔ اس کے باوجود صدیوں تک مسلمانوں میں تہذیب و تمدن اور علوم و فنون میں ترقی ہوتی رہی،لیکن سیاسیات میں عوام تو برطرف خواص کو بھی کوئی دخل نہ رہا اور عوام کیلئے یہی نصیحت رہ گئی کہ اگر بادشاہ دن کو رات کہے تو اس کی تردید نہ کرو بلکہ تائید میں کہو کہ ہاں مجھے بھی ستارے نظر آ رہے ہیں۔
سعدی علیہ الرحمتہ بھی لوگوں کو یہی مصلحت اندیشی سکھاتے ہیں کہ:
خلاف رائے سلطاں رائے جستن
بخون خویش باید دست شستن
بادشاہ کے خلاف رائے کا اظہار کرنا جان سے ہاتھ دھونا ہے۔ حافظ علیہ الرحمتہ بھی یہ کہتے ہیں کہ:
رموز مملکت خویش خسرواں دانند
گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش
بڑے بڑے مقدس ائمہ دین نے بھی یہی کہا کہ سلطانی اگرچہ اسلامی چیز نہیں ہے لیکن بدکردار سلاطین کی بھی اطاعت لازمی ہے کیوں کہ ان کی وجہ سے کچھ نہ کچھ نظم و نسق تو قائم رہتا ہے۔
سلاطین کے اخلاق کی وجہ سے ان کی اطاعت سے روگردانی کی جائے تو مسلسل فتنہ و فساد کا اندیشہ ہے۔ خوشامدی درباریوں اور امرا نے بادشاہ کو ”ظل اللہ“ قرار دے کر دین کے معاملے میں بھی مجتہد اعظم بنا دیا۔
ایسی مطلق العنانی میں مسلمانوں کی حکومتوں میں تو کسی قسم کی جمہوریت کا تقاضا پیدا نہ ہو سکتا تھا،البتہ مغرب میں جب زندگی میں حرکت پیدا ہوئی تو شاہی اور جاگیرداری اقتدار کے خلاف پہلے تاجروں اور سرمایہ داروں نے احتجاج شروع کیا۔
آغاز میں عوام اس تقاضے میں بھی کہیں نہ تھے۔ انگلستان میں جو پارلیمانی حکومت کا آغاز ہوا،وہ بھی جاگیرداروں اور بادشاہ کی کشمکش کا نتیجہ تھا۔ بادشاہی وہاں اس قدر قوی نہ تھی کہ جاگیرداروں کی سرکوبی کر سکے۔ جاگیرداروں نے مل کر بادشاہ کو بے بس کر دیا اور شاہ جون سے حقوق کی وہ دستاویز حاصل کی،جسے میگنا کارٹا کہتے ہیں۔ انگلستان کی پارلیمنٹ یورپ میں قدیم ترین پارلیمنٹ ہے۔
دوسرے ممالک میں ایسے نظام اسی کی تقلید میں ظہور میں آئے۔ س لئے انگریزی پارلیمنٹ کو تمام مجالس متفقہ کے مقابلے میں ام المجالس کہا جاتا ہے۔ مگر ابتدا میں یہ وہ جمہوریت نہ تھی جو دور حاضر میں عام و خاص کا نصب العین ہے۔ یہ جاگیرداروں کی مجلس شوریٰ تھی جو بادشاہ کے مقابلے میں اپنے حقوق کی حفاظت کرتے تھے۔ عوام کے نمائندوں کو اس میں شامل کرنے کا کوئی تصور یا تقاضا صدیوں ظاہر نہ ہوا۔
یورپ میں جاگیرداروں اور بادشاہوں کا زور تاجر اور سرمایہ داروں نے توڑا۔ انگلستان میں بھی یہی کچھ ہوا اور صنعتی انقلاب کے بعد کارخانہ دار بے انتہا امیر ہو گئے تو پارلیمنٹ کا اقتدار بڑھتا گیا۔ بادشاہوں کو پہلے جاگیرداروں نے بے بس کیا تھا،اب تاجروں اور سرمایہ داروں نے جاگیرداروں کو محروم اقتدار کیا۔ انگلستان میں بادشاہ موجود رہا لیکن شاہ شطرنج بن کر اور دار الامرا بھی قائم رہا لیکن رفتہ رفتہ قانون سازی میں وہ بے قوت ہو گیا،یہاں تک کہ جارج پنجم کے زمانے میں دارالعوام اور دارالامرا کی کشمکش کا یہ نتیجہ ہوا کہ قانون سازی کے معاملے میں دارالامرا محض امرا کے اظہار خیال کا ادا رہ گیا۔
 مگر ابھی تک یہ دار العوام نہ تھا۔ لیبر پارٹی کے غلبے سے پیشتر پارلیمنٹ میں جو نمائندے آتے تھے،وہ زیادہ تر بزور زر آتے تھے، میکڈونلڈ اور ایٹلے کی قسم کے مفلس اس میں بصد مشکل داخل ہو سکتے تھے لیکن اقتدار میں شریک نہ تھے۔ یورپ میں اور دیگر ممالک میں جو پارلیمانی حکومتیں قائم ہوئیں،ان کا بھی یہی حال تھا کہ زیادہ تر ان میں سرمایہ داروں کی جنگ زرگری ہوتی تھی۔
امریکہ میں بھی حکومت جمہوری ہے،لیکن پریس اور دیگر اقسام کے پروپیگنڈے کے ذرائع سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہیں۔ کروڑوں روپے کے پارٹی فنڈ ہوتے ہیں۔ امیدواروں کو منتخب کرنے اور ان کو کامیاب بنانے کیلئے ہر قسم کے وسائل جائز شمار ہوتے ہیں۔ لوگوں کے پاس معلومات،پریس اور ریڈیو کے ذریعے پہنچتے ہیں اور ان پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ مغربی جمہوریتوں کا عام طور پر یہی انداز ہے۔
محض علمی استعداد یا اخلاقی بلندی اور حق گوئی کی بنا پر کسی شخص کا پارلیمنٹ میں گھسنا ایک ناممکن سی بات ہے۔ جس پارٹی نے اپنے اغراض کی بنا پر جو پروگرام بنا رکھا ہے اس پر بے چون و چرا دستخط کئے بغیر کوئی منفرد آزاد انسان خواہ وہ امور سلطنت کا کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو،مجالس نواب کا عضو نہیں بن سکتا۔ لطیفہ یہ ہے کہ اس کے باوجود عوام اس سے خوش اور مطمئن ہیں کہ حکومت ہماری ہے اور حکمرانوں کے انتخاب میں ایک خاکروب کا بھی ایک ووٹ ہے اور منتخب ہونے والے صدر جمہوریہ کا بھی ایک ووٹ ہے۔ یہ سطحی مساوات ایسی کامیابی سے فریب دہی کرتی ہے کہ کسی کو اس پر بے حقیقتی کا شبہ نہیں ہوتا۔

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط