Episode 109 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 109 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

یہ خودی ”غیر خود“ سے وابستہ بھی ہے اور ماوریٰ بھی۔ ذرا اپنے خیال پر ہی غور کر لیجئے۔ دیکھئے سیر اندیشہ میں زمان مکان کہاں ہیں۔ تفکر میں مکانیت نہیں ہے اور زمانیت کا یہ حال ہے کہ ایک لمحے میں خیال افلاک کو عبور کر جاتا ہے۔ جسم کے زنداں میں محبوس ہونے کے باوجود یہ آزادی،خود ہی کمند،خود ہی صید،خود ہی صیاد ہے اور صیادی بھی ایسی جو یزداں گیر کا حوصلہ رکھتی ہے۔
یہی خودی تیرے باطن کا چراغ ہے جس کا تجھے امین بنایا گیا ہے کہ یہ بجھنے نہ پائے۔ بلکہ اس کے نور میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے۔
چھٹا سوال یہ ہے:
چہ جزو است آنکہ او از کل فزون است
طریق جستن آں جزو چون است
یہ سوال بھی خودی کی ماہیت کی بابت ہے۔ پہلے جوابات میں خودی کی حقیقت بہت کچھ بیان ہو چکی ہے،لیکن علامہ اقبال کا یہ خاص مضمون ہے اس لئے ان کو بیان سے سیری نہیں ہوتی۔

(جاری ہے)

انسان کی خودی کل موجودات کا ایک جزو معلوم ہوتی ہے لیکن اس پر جزو کل کی منطق کا اطلاق نہیں ہوتا۔ لامتناہی زمان و مکان کا عالم اس کے اندر سما جاتا ہے:
خودی ز اندازہ ہاے ما فزون است
خودی زاں کل کہ تو بینی فزون است
شجر و حجر میں وہ بات نہیں جو انسان کے نفس میں ہے۔ ہستی کے اندر خودی ہی خود نگر ہے،کسی اور ہستی کو یہ پرواز کہاں حاصل ہے۔
اس کا کام گر گر کر ابھرنا ہے۔ عالم مادی کے ظلمت کدے میں یہ چراغ منیر و مستنیر ہے۔ خودی فطرت کی گہرائیوں میں غوطہ لگا کر معرفت کے موتی نکالتی ہے۔ اس کا ظاہر زمانی لیکن اس کا ضمیر جاودانی ہے۔ تمام ہستی اسی کی تقدیر کے ساتھ وابستہ ہے۔ تقدیر کے احکام اس پر خارج سے نازل نہیں ہوتے۔ اس کی تقدیر اس کی اپنی نہاد میں مضمر ہے۔ یہ ظاہر میں مجبور ہے اور باطن میں مختار۔
اسی حقیقت کو منکشف کرتے ہوئے اسلام نے یہ تعلیم دی کہ ایمان جبر و اختیار کے مابین ہے۔ اے انسان تو مخلوق کو مجبور دیکھتا اور مجبور سمجھتا ہے،لیکن تیری جان کو اس جان آفرین نے پیدا کیا ہے جو خلاق و مختار ہے اور یہی صفت اس نے تیری خودی میں بھی رکھ دی ہے۔ ”خلق الانسان علی صورتہ“۔ جہاں جان کی ماہیت کا ذکر ہو،وہاں جبر کا تذکرہ بے معنی ہے کیوں کہ جان کے معنی ہی یہی ہیں کہ اس کی فطرت آزاد ہو:
تو ہر مخلوق را مجبور گوئی
اسیر بند نزد و دور گوئی
ولے جاں از دم جان آفرین است
بچندیں جلوہ ہا خلوت نشین است
ز جبر او حدیثے درمیاں نیست
کہ جاں بے فطرت آزاد جاں نیست
شبیخون بر جہان کیف و کم زد
ز مجبوری بمختاری قدم زد
زندگی کا مقصود اور اس کی راہ ارتقا یہ ہے کہ وہ مسلسل گرد مجبوری کو دامن سے جھٹکتی چلی جائے۔
جو ہستی درجہ حیات میں جتنی بلند ہے اتنی ہی صاحب اختیار ہے۔ جب اختیار اور بڑھ جائے گا تو انسان صحیح معنوں میں مسخر کائنات اور مسجود ملائک ہوگا۔ خودی کی ترقی خرد سے عشق کی طرف ہوتی ہے۔ خرد کا کام محسوسات کا فہم ہے اور وہ اجزا کے اندر روابط تلاش کرتی رہتی ہے۔ عشق کلیت حیات پر محیط ہو جاتاہے۔ خرد مر سکتی ہے لیکن عشق کیلئے موت نہیں:
ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق
عقل انسانی ہے فانی زندہ جاوید عشق
خرد را از حواس آید متاعے
فغاں از عشق می گیرد شعاعے
خرد جز را فغاں کل را بگیرد
خرد میرد فغاں ہرگز نہ میرد
#
فغاں عاشقاں انجام کارے است
نہاں در یک دم او روزگارے است
#
خودی پختہ ہونے سے ابد پیوند اور لازوال ہو جاتی ہے:
ازاں مرکے کہ می آید چہ باک است
خودی چوں پختہ شد از برگ پاک است
خودی کی موت عشق کے فقدان سے پیدا ہو سکتی ہے۔
اصل موت یہی ہے اور اسی موت سے ڈرنا چاہئے:
ترا ایں مرگ ہر دم در کمین است
بترس از وے کہ مرگ ما ہمین است
ساتواں سوال یہ ہے:
مسافر چوں بود رہرو کدام است
کرا گویم کہ او مرد تمام است
سوال یہ ہے کہ مسافر اور رہرو کسے کہتے اور سفر کے کیا معنی ہیں۔ انسان کامل کی کیا نشانی ہے۔
اقبال نے جابجا زندگی کو ایک لامتناہی سفر قرار دیا ہے اور اسے مرحلہ شوق کہا ہے،جس کو سکون منزل کی آرزو نہیں:
ہر شے مسافر ہر چیز راہی
کیا چاند تارے کیا مرغ و ماہی
#
بڑھے جا زندگی ذوق سفر ہے
لندن میں کہی ہوئی ایک غزل بال جبریل میں درج ہے۔
جس کاموضوع بھی یہی ہے کہ ہر حالت سے گزرتا چلا جا:
تو ابھی رہ گزر میں ہے قید مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر
صرف دنیا ہی میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی مختلف احوال سے آگے نکلتا جا:
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر
گرچہ ہے دل کشا بہت حسن فرنگ کی بہار
طائرک بلند بال دانہ و دام سے گزر
کوہ شگاف تیری ضرب، تجھ سے کشاد شرق و غرب
تیغ ہلال کی طرح عیش نیام سے گزر
اب یہاں اسی سفر کے متعلق سوال ہے۔
جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ کوئی خارجی عالم کی مسافت طے کرنا نہیں ہے۔ یہ سفر خودی کا باطنی ارتقائی سفر ہے۔ اس میں انسان خود ہی مسافر ہے،خود ہی راہ ہے اور خود ہی منزل ہے۔ یہ از خود تابخود سفر ہے۔ یہ خودی کو مسلسل ترقی یافتہ صورتوں تک پہنچنے کی کوشش کا نام ہے:
اگر چشمے کشائی بر دل خویش
دروں سینہ بینی منزل خویش
سفر اندر حضر کردن چنین است
سفر از خود بخود کردن ہمین است

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط