Episode 17 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 17 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

معشوق کو تمام شعراء بے وفا کہتے ہوئے چلے آئے ہیں لیکن عاشق بے وفا کا مضمون اور وہ بھی عاشق شاعر کی اپنی زبان سے شاید اقبال کے سوا اور کہیں نہ ملے،جو اپنی بے وفائی کو وفا سے کہیں زیادہ قابل قدر چیز سمجھتا ہے۔ اس بیوفائی کو اس نے اعلیٰ درجے کا تصوف اور جزو کل کا فلسفہ بنانے کی ایک دل کش کوشش کی ہے۔ کہتا ہے کہ یہ تو تنگی دل اور افلاس تخیل کی بات ہے کہ کوئی شخص کسی ایک محبوب کا گرویدہ ہو کر اور محبوبوں کی طرف توجہ نہ کرے جو ویسے ہی حسن مطلق کے جزئی مظاہر ہیں:
سچ اگر پوچھے تو افلاس تخیل ہے وفا
دل میں ہر دم اک نیا محشر بپا رکھتا ہوں میں
اگر کائنات میں حسن ایسا ہی محدود اور تنگ جلوہ تھا کہ عاشق کو کسی ایک کے حسن ہی میں گرفتار کرکے محو کر دے تو یہ لاانتہا تخیل مجھے عطا کیا گیا جو خوب سے خوب تر کی تلاش میں ہمیشہ تگ و دو کرتا رہتا ہے۔

(جاری ہے)

اس تصوف اور اس جواز بے وفائی کو بھلا کون حسین قبول کرے گا اور اقبال کے سوا کون سا عاشق ہے جس نے اپنے ہرجائی ہونے فخر کیا ہو اور اس عیب کو ایسا حسین کرکے پیش کیا ہو۔ ایک شاعر نے معشوق کے ہرجائی پن سے جل کر انتقاماً یہ ارادہ کیا تھا:
تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی
تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی
لیکن اقبال کے ہاں یہ انتقام نہیں بلکہ صوفی مزاج شاعر کی ایک لازمی صفت بن گئی ہے۔
اقبال نے اپنے آپ ہی کو ہرجائی نہیں بنایا بلکہ شکوے میں خدا کو بھی ہرجائی ہونے کا طعنہ دیا ہے:
کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے
بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ہرجائی ہے
یورپ میں کہی ہوئی نظموں میں قبل سیاحت فرنگ کا اقبال بھی موجود ہے۔ وہی اقبال جس کے کلام میں تصوف اور فلسفہ مجاز اور حقیقت کی آمیزش نے ایک امتیازی خصوصیت پیدا کر دی تھی،اسلام اور ملت اور وطنیت کا جذبہ یورپ میں بھی برقرار رکھتا ہے۔
بعض نظموں میں شاعر بحیثیت شاعر بھی پایا جاتا ہے،لیکن اس کے علاوہ ہلکی سی مبلغانہ جھلک بھی ہے اور پیام رسائی کا جذبہ بھی ابھرتا ہوا نظر آتا ہے،جو اس سے پہلے اقبال کے کلام میں موجود نہ تھا۔ علاوہ متفرق اشعار کے تین نظموں میں پیام کا عنوان بھی ہے،ایک پیام طلبہ علی گڑھ کے نام ہے،دوسری نظم پیام عشق ہے اور تیسری کا عنوان فقط پیام ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے اقبال میں یہ احساس ترقی کر رہا ہے کہ اچھی شاعری کو پیغمبری کا جزو ہونا چاہئے اور تلمیذ الرحمان کے پاس انسانوں کیلئے کچھ پیام حیات کا ہونا بھی لازمی ہے۔ پیام کے عنوان والی نظم کا مطلع ہے:
عشق لے کر دیا تجھے ذوق تپش سے آشنا
بزم کو مثل شمع بزم حاصل سوز و ساز دے
دوسرے شعر میں کہتا ہے کہ عشق کی دولت ایک فضل الٰہی ہے جس کے حصول کا مدار محض کوشش پر نہیں ہے،یہ خدا کا کرم ہے اور اس فیض رسائی میں ادیان و ملل کی تفریق حائل نہیں:
شان کرم پہ ہے مدار عشق گرہ کشائے کا
دیر و حرم کی قید کیا جس کو وہ بے نیاز دے
یہ مضمون صوفیہ اور متصوفین شعراء کا ایک مسلمہ اور عام عقیدہ ہے،بقول عارف رومی:
مذہب عشق از ہمہ دین ہا جداست
عشق والوں کا بیان الفاظ میں خواہ کافرانہ ہی معلوم ہو لیکن اس میں سے بوے دین آتی ہے:
گر بگوید کفر آید بوے دیں
می تراود از شکش بوے یقیں
مرزا غالب کہتے ہیں کہ کافر عشق کو ایک خدا داد دولت ملتی ہے جو محض سعی حاصل نہیں ہو سکتی:
دولت بغلط نہ رسد از سعی پشیمان شو
کافر تنوائی شد ناچار مسلمان شو
ایک اور شاعر کہتا ہے کہ:
پروانہ چراغ حرم و دیر ندارد
وحدت وجود کے عقیدت کی جھلک بھی اس غزل کے ایک شعر میں موجود ہے:
تارے میں وہ قمر میں وہ جلوہ گر سحر میں وہ
چشم نظارہ میں نہ تو سرمہٴ امتیاز دے
پھر کہتا ہے کہ تزکیہ نفس اور ترقی روح کیلئے طبیعت میں سوز و گداز کا ہونا لازمی ہے:
صورت شمع نور کی ملتی نہیں قبا اسے
جس کو خدا نہ دہر میں گریہ جان گداز دے
غالب پہلے سے کہہ گیا ہے کہ روح پرور سخن وری کیلئے بھی یہ لازمی شرط ہے:
حسن فروغ شمع سخن دور ہے اسد
پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی
اقبال کا پیغام حقیقت میں آغاز ہی سے عشق کا پیام تھا اس کی شاعری کا بہترین حصہ جو روح میں ارتعاش اور اہتزاز پیدا کرتا ہے وہ آیت عشق ہی کی تفسیر اور اسی خواب کی تعبیر ہے۔
طلبہ علی گڑھ کے نام جو پیام ہے اس کے مطلع میں بھی عشق کی تبلیغ ہے:
اوروں کا ہے پیام اور میرا پیام اور ہے
عشق کے دردمند کا طرز کلام اور ہے
دوسرے شعر میں یہ اشارہ ہے کہ تمہارے رہبر،واعظ و مصلح اور ناصح سب غلامی میں مبتلا ہیں اور ان کا نالہ و فریاد طائر زیر دام کی چیخ و پکار ہے لیکن مجھے خدا نے دام و قفس سے نجات دی ہے اس لئے میرا نالہ،نالہ طائر بام ہے۔
آزاد کی فریاد کی لے غلام اور گرفتار کی فریاد والے سے الگ ہوتی ہے:
طائر زیر دام کے نالے تو سن چکے ہو تو
یہ بھی سنو کہ نالہ طائر بام اور ہے
تیسرے شعر میں اقبال کا خاص فلسفہ حیات ہے جس کی شرح وہ تمام عمر کرتا رہے گا کہ حیات و کائنات میں سکون مجازی و اعتباری ہے اور حرکت ماہیت حیات میں داخل ہے،اس لحاظ سے کہسار کی بظاہر سکونی عظمت اور وقار کے مقابلے میں کمزور چیونٹی کی حرکت زندگی کا بہتر مظہر ہے:
آتی تھی کوہ سے صدا راز حیات ہے سکوں
کہتا تھا مور ناتواں لطف خرام اور ہے
چوتھے شعر میں وطنیت کی جگہ ملت اسلامیہ کی مرکزیت اور اس کی عالمی ہیئت نے لے لی ہے:
جذب حرم سے ہے فروغ انجمن حجاز کا
اس کا مقام اور ہے اس کا نظام اور ہے
جب یہ نظم علی گڑھ والوں کو بھیجی گئی تو اس میں ایک اور شعر جس کا مضمون یہ تھا کہ نظام اسلام بے قید مقام ہے یعنی جغرافیائی حدود و قیود کا پابند نہیں،معلوم نہیں کہ بانگ درا کی اشاعت کے وقت اقبال نے اس شعر کو کیوں خارج کر دیا تھا،وہ شعر یہ تھا:
جس بزم کی بساط ہو سرحد چیں سے مصر تک
ساقی ہے اس کا اور ہی مے اور جام اور ہے

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط