Episode 124 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 124 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

دیکھئے اس آخری مصرعے میں پھر ستائش ہی کا پہلو ہے اور ابلیس کے اس زاویہ نگاہ سے ہم نگاہی اور ہمدردی ہے۔
نالہ ابلیس،میں ابلیس کی آہ و فغاں ہے۔ یہ بھی اقبال کا ایک انوکھا مضمون ہے۔ عام مومنوں کا یہ حال ہے کہ وہ شیطان سے پناہ مانگتے ہیں،لیکن یہاں شیطان انسان سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ایسے صید زبوں کی صیادی سے مجھے نجات مل جائے۔
ایسے انسانوں کا شکار کرنا یوں ہی جھک مارنا ہے۔ عام عقیدہ یہ ہے کہ آدمی کو شیطان نے خراب کیا مگر یہاں شیطان ”اعوذ باللہ من الانسان“ کہہ رہا ہے کہ یہ خودی ناشناس انسان بے چون و چرا میری حکم برداری پر تیار رہتا ہے،ذرا مقابلہ کرے تو مجھے بھی زور آزمائی کا موقع ملے:
اے خداوند صواب و ناصواب
من شدم از صحبت آدم خراب
ہیچ گہ از حکم من برنتافت
چشم از خود بست و خود رادر نیافت
میں ملعون و مردود اس لئے ہوا کہ میں نے قادر مطلق کے سامنے بھی ابا یا انکار کی جرأت کی۔

(جاری ہے)

میری خودی میں استکبار کی کیفیت پیدا ہوئی۔ اگر میری مریدی میں وہ بھی یہ سیکھ لیتا کہ میری نافرمانی کی جرأت پیدا کرے اور ذوق کبریائی میں کسی کا مطیع و منقاد نہ ہو تو میں بھی ایسے مرید کی داد دیتا،لیکن یہ نالائق تو بہت بودا نکلا۔ یہ کیسا صید ہے کہ خود چلا آتا ہے کہ گردن ڈالے:
ہمہ آہوان صحا سر خود نہادہ بر کف
بامید این کہ روزے بہ شکار خواہی آمد
(حافظ)
خدا سے کہتا ہے کہ اس ذلیل شکار سے میری خلاصی کرا:
خاکش از ذوق ابا بیگانہ
از شرار کبریا بیگانہ
صید خود صیاد را گوید بگیر
الاماں از بندہ فرمان پذیر
شکار کی پست ہمتی اور زود گرفتاری سے خود شکاری بھی سست عمل ہو جاتا ہے۔
ایسے سست عناصر انسانوں کی بدولت میرا بھی یہی حال ہوا ہے۔ اے خدا میری طاعت دیرینہ کو یاد کرکے مجھے اس عذاب سے نجات دلوا:
از چنیں صیدے مرا آزاد کن
طاعت دیروزہ من یاد کن
پست ازو آں ہمت والاے من
وائے من، اے وائے من، اے وائے من
کوئی صاحب نظر حریف پختہ ہو تو اس سے کشتی لڑنے میں مزہ بھی آئے۔ یہ موجودہ انسان کیا ہیں؟ مٹی کے کھلونے ہیں اور میں ہوں مرد پیر۔
بھلا کسی بڈھے کو یہ زیب دیتا ہے کہ مٹی کے کھلونوں سے کھیلا کرے۔ یہ آدم تو ایک مشت خس رہ گیا ہے جس کیلئے ایک چنگاری کافی ہے۔ میرے اندر جو عالم سوز آگ ہے،مجھے اتنی آگ تو نے کاہے کو دے رکھی ہے۔ اس کا تو کوئی مصرف نظر نہیں آتا۔ کوئی ایسا پہلوان نکال جو میری گردن مروڑ سکے اور جس کی ایک نگاہ ہی سے میں لرزہ بر اندام ہو جاؤں۔ جو مجھے دیکھتے ہی سر تسلیم خم کرنے کی بجائے پکار اٹھے کہ ”دور ہو یہاں سے“ اور جس کے نزدیک میری قیمت دو جو کے برابر نہ ہو۔
ایسا مرد حق اگر مجھے پچھاڑ دے تو اس شکست میں وہ لذت محسوس ہو جو میرے بندہ فرمان کی اطاعت گزاری سے مجھے حاصل نہیں ہوتی:
اے خدا یک زندہ مرد حق پرست
لذتے شاید کہ یابم در شکست
’نالہ ابلیس‘ میں اقبال نے جو کچھ کہا ہے وہ اس کے اپنے خیالات ہیں۔ انسان کی تاریخ اصلاح کا بغور مطالعہ کیجئے تو اس میں شروع سے آخر تک ایک کیفیت یکساں نظر آئے گی اور وہ یہ ہے کہ ہر بلند نظر مصلح،نبی ہو یا حکیم اپنے گرد و پیش کے انسانوں سے ہمیشہ بیزار رہا ہے۔
ہر مصلح کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ میرے زمانے کے انسان نہایت ذلیل ہیں۔ حافظ شیرازی کو تو مصلح ہونے کا دعوی نہیں ہے لیکن اپنے زمانے کے لوگوں کی نسبت کہتا ہے:
ایں چہ شوریست کہ در دور قمر می بینم
ہمہ آفاق پر از فتنہ و شر می بینم
دختراں را ہمہ جنگ است و جدل با مادر
پسران را ہمہ بد خواہ پدر می بینم
امام غزالی نے اپنے زمانے کے عوام کے علاوہ علما کا جو حال لکھا ہے وہ پڑھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی صورت بالکل مسخ ہو چکی ہے۔
دین دار اور دنیا دار سب ادنیٰ اغراض میں مبتلا ہیں۔ یونان کی تہذیب میں سقراط و افلاطون کا زمانہ علوم و فنون کے لحاظ سے تاریخ انسانی کا ایک زریں ورق ہے،لیکن اسی عہد میں سوفسطائی بھی تھے جو حقیقت و صداقت کے منکر تھے۔ وہ دین و اخلاق کو توہمات سمجھتے اور لوگوں میں تشکیک پھیلاتے تھے۔ اسی حکمت پسند قوم نے سقراط جیسے حکیم ناصح کو زہر پلا دیا۔
’جمہوریہ افلاطون‘ اسی دور کے عوام و خواص کی کم عقلی پر ایک مفصل تنقید ہے۔ عارف رومی کا زمانہ ہمارے نزدیک تو صوفیہ کرام اور صلحا کا عہد تھا لیکن مولانا اپنے معاصر انسانوں کو سست عناصر اور دام و دو سمجھتے ہیں اور مردان خدا کو ڈھونڈتے ہیں جو کہیں نظر نہیں آتے:
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشو آنم آرزوست
ہر دور میں انسانوں کے متعلق ایسی خراب رائے حکما اور صلحا کیوں رکھتے تھے؟ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ہر بلند نظر انسان میں انسانیت کا نصب العین بہت بلند ہوتا ہے اور اکثر انسان اس معیار پر کم عیار ثابت ہوتے ہیں۔
مشہور انگریزی ادیب ڈاکٹر جونسن نے بوس دل سے کہا کہ میری رائے انسانوں کی نسبت بہت خراب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے عام طو رپر لوگ اچھا سمجھتے ہیں لیکن میں خود اپنی نسبت جانتا ہوں کہ میں کیسا ذلیل ہوں۔ ایسے ذلیل آدمی کو اچھا سمجھنے والوں کی اپنی کیا حالت ہو گی۔ وہ مجھ سے کچھ بدتر ہی ہوں گے۔
اقبال کے ذہن میں بھی رسول کریمﷺ اور صحابہ کرام کی سیرت کا نقشہ تھا۔
اس نے انسانی خودی انسانی بصیرت اور ہمت کا ایک نصب العین قائم کر لیا تھا۔ وہ مرد مومن کے جو صفات بیان کرتا ہے وہ ایک انسان میں کہاں یکجا مل سکتے ہیں۔ اس معیار کو سامنے رکھ کر اب جو وہ گرد و پیش نظر دوڑاتا ہے تو اسے انسان ایسے نظر آتے ہیں جن کی نسبت خدا سے شکایت کرتا ہے:
یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا؟
کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا
نہ خود بین، نے خدا بیں نے جہاں بیں
یہی شہ کار ہے تیرے ہنر کا؟
اوروں کو چھوڑیے خود اپنے آپ سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔
اپنے تئیں تن آسان اور سست عمل کہتا ہے اور اپنی سیرت کا تجزیہ کرتے ہوئے بیباکی سے ایسی ایسی باتیں کہہ جاتا ہے کہ اس کے بعض معتقدین اس کو فرقہ ملامتیہ کا ایک ممتاز فرد گردانتے ہیں۔ ’نالہ ابلیس‘ میں شیطان نے جو انسانوں کے متعلق رائے قائم کی ہے وہ اقبال کی اپنی رائے ہے اور یہ رائے اس کے نصب العین کی بلندی کی وجہ سے ہے۔ ورنہ انسان ہمیشہ زیادہ تر ایسے ہی تھے اور ایسے ہی رہیں گے۔
مختلف ادوار میں اچھوں اور بروں کے تناسب میں فرق پڑتا رہتا ہے۔ کبھی اچھوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے اور کبھی بروں کی کثرت ہو جاتی ہے اور قوموں کا عروج و زوال اسی سے متعین ہوتا ہے لیکن نصب العینی انسان دنیا میں کتنے ہوئے اور کتنے ہو سکتے ہیں۔
اقبال کے ابلیس کے تصور میں ایک اشتباہ کو رفع کرنا لازمی معلوم ہوتا ہے۔ آپ دیکھ چکے ہیں کہ اکثر نظریات حیات ابلیس نے بھی وہی پیش کئے ہیں جو اقبال کی تعلیم میں نمایاں طور پر موجود ہیں۔
اقبال کے نزدیک زندگی نفی و اثبات دونوں پر مشتمل ہے۔ ارتقاے حیات میں ایک حالت کی نفی سے دوسری حالت کا اثبات ہوتا ہے اور آگے بڑھتے ہوئے بھی اس اثبات کی نفی ہو جاتی ہے۔ ابلیس کو اقبال خواجہ اہل فراق کہتا ہے کہ وہ فراق کو آرزو و جستجو اور ترقی نفس انسانی کا سرچشمہ قرار دیتا ہے:
بگو جبریل را از من پیامے
مرا آں پیکر نوری نداند
ولے تاب و تب ما خاکیاں ہیں
بنوری ذوق مہجوری نداند
نفس کے اندر اگر پیکار نہ ہو تو اس کی ترقی ممکن نہیں۔
زندگی خیر و شر کی پیکار کا نام ہے۔ شر نفی اور انکار کے مترادف ہے اور یہی صفت ابلیس کے تصور میں مشخص ہو گئی ہے۔ لیکن خالی نفی اور انکار سے تو زندگی قائم نہیں رہ سکتی۔ جہاں تک نفی و انکار کے لزوم کا تعلق ہے اور جس حد تک اقبال اس کو معاون حیات سمجھتا ہے،اس حد تک انکار مجسم ابلیس کی زبان سے بھی حکیمانہ کلیمات نکلواتا ہے۔ لیکن ابلیس کی خودی محض ایک سلبی خودی ہے۔
اس میں ایجابی پہلو کا فقدان ہے۔ ابلیس کے تصور میں بھی ایسے صفات موجود ہیں جو قلب ماہیت سے خود کی تکمیل میں معاون ہوسکتے ہیں اور ابلیس کی ستائش گری انہی صفات کی وجہ سے ہے جن میں زندگی کا ارتقا مضمر ہے اور ان صفات کے فقدان سے زندگی تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی۔ یہ وہی بات ہے جو حدیث شریف میں کہی گئی ہے کہ شیطان کی گردن مارنے کی ضرورت نہیں،اسے مسلمان کرنے کی ضرورت ہے اور یہی تصور ابن عربی کا بھی ہے جو اوپر درج ہو چکا ہے کہ جنت کے پھل دوزخ کی گرمی سے پکتے ہیں۔
ابلیس کے آتش نژاد ہونے کے یہی معنی ہیں۔ اقبال اس کو آتش حیات کہتا ہے۔ لیکن اس نار کو دور آفریں نہیں بلکہ نور آفریں ہونا چاہئے۔ زندگی کا قیام اور اس کا ارتقا نفی کے پہلو کے بغیر نہیں ہو سکتا،لیکن نفی فی نفسہ تصور نہیں ہو سکی۔ نفی سے اعلیٰ تر اثبات کے طرف یا اقبال کی اصلاح میں استحکام خودی کی طرف مسلسل قدم اٹھنا چاہئے۔ اثبات مسلسل نفی کے بغیر نہیں ہو سکتا،لہٰذا نفی بھی خیر مطلق کے حصول کیلئے لازمی ہے۔
###

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط