دیکھئے اس آخری مصرعے میں پھر ستائش ہی کا پہلو ہے اور ابلیس کے اس زاویہ نگاہ سے ہم نگاہی اور ہمدردی ہے۔
نالہ ابلیس،میں ابلیس کی آہ و فغاں ہے۔ یہ بھی اقبال کا ایک انوکھا مضمون ہے۔ عام مومنوں کا یہ حال ہے کہ وہ شیطان سے پناہ مانگتے ہیں،لیکن یہاں شیطان انسان سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ ایسے صید زبوں کی صیادی سے مجھے نجات مل جائے۔
ایسے انسانوں کا شکار کرنا یوں ہی جھک مارنا ہے۔ عام عقیدہ یہ ہے کہ آدمی کو شیطان نے خراب کیا مگر یہاں شیطان ”اعوذ باللہ من الانسان“ کہہ رہا ہے کہ یہ خودی ناشناس انسان بے چون و چرا میری حکم برداری پر تیار رہتا ہے،ذرا مقابلہ کرے تو مجھے بھی زور آزمائی کا موقع ملے:
اے خداوند صواب و ناصواب
من شدم از صحبت آدم خراب
ہیچ گہ از حکم من برنتافت
چشم از خود بست و خود رادر نیافت
میں ملعون و مردود اس لئے ہوا کہ میں نے قادر مطلق کے سامنے بھی ابا یا انکار کی جرأت کی۔
(جاری ہے)
میری خودی میں استکبار کی کیفیت پیدا ہوئی۔ اگر میری مریدی میں وہ بھی یہ سیکھ لیتا کہ میری نافرمانی کی جرأت پیدا کرے اور ذوق کبریائی میں کسی کا مطیع و منقاد نہ ہو تو میں بھی ایسے مرید کی داد دیتا،لیکن یہ نالائق تو بہت بودا نکلا۔ یہ کیسا صید ہے کہ خود چلا آتا ہے کہ گردن ڈالے:
ہمہ آہوان صحا سر خود نہادہ بر کف
بامید این کہ روزے بہ شکار خواہی آمد
(حافظ)
خدا سے کہتا ہے کہ اس ذلیل شکار سے میری خلاصی کرا:
خاکش از ذوق ابا بیگانہ
از شرار کبریا بیگانہ
صید خود صیاد را گوید بگیر
الاماں از بندہ فرمان پذیر
شکار کی پست ہمتی اور زود گرفتاری سے خود شکاری بھی سست عمل ہو جاتا ہے۔
ایسے سست عناصر انسانوں کی بدولت میرا بھی یہی حال ہوا ہے۔ اے خدا میری طاعت دیرینہ کو یاد کرکے مجھے اس عذاب سے نجات دلوا:
از چنیں صیدے مرا آزاد کن
طاعت دیروزہ من یاد کن
پست ازو آں ہمت والاے من
وائے من، اے وائے من، اے وائے من
کوئی صاحب نظر حریف پختہ ہو تو اس سے کشتی لڑنے میں مزہ بھی آئے۔ یہ موجودہ انسان کیا ہیں؟ مٹی کے کھلونے ہیں اور میں ہوں مرد پیر۔
بھلا کسی بڈھے کو یہ زیب دیتا ہے کہ مٹی کے کھلونوں سے کھیلا کرے۔ یہ آدم تو ایک مشت خس رہ گیا ہے جس کیلئے ایک چنگاری کافی ہے۔ میرے اندر جو عالم سوز آگ ہے،مجھے اتنی آگ تو نے کاہے کو دے رکھی ہے۔ اس کا تو کوئی مصرف نظر نہیں آتا۔ کوئی ایسا پہلوان نکال جو میری گردن مروڑ سکے اور جس کی ایک نگاہ ہی سے میں لرزہ بر اندام ہو جاؤں۔ جو مجھے دیکھتے ہی سر تسلیم خم کرنے کی بجائے پکار اٹھے کہ ”دور ہو یہاں سے“ اور جس کے نزدیک میری قیمت دو جو کے برابر نہ ہو۔
ایسا مرد حق اگر مجھے پچھاڑ دے تو اس شکست میں وہ لذت محسوس ہو جو میرے بندہ فرمان کی اطاعت گزاری سے مجھے حاصل نہیں ہوتی:
اے خدا یک زندہ مرد حق پرست
لذتے شاید کہ یابم در شکست
’نالہ ابلیس‘ میں اقبال نے جو کچھ کہا ہے وہ اس کے اپنے خیالات ہیں۔ انسان کی تاریخ اصلاح کا بغور مطالعہ کیجئے تو اس میں شروع سے آخر تک ایک کیفیت یکساں نظر آئے گی اور وہ یہ ہے کہ ہر بلند نظر مصلح،نبی ہو یا حکیم اپنے گرد و پیش کے انسانوں سے ہمیشہ بیزار رہا ہے۔
ہر مصلح کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ میرے زمانے کے انسان نہایت ذلیل ہیں۔ حافظ شیرازی کو تو مصلح ہونے کا دعوی نہیں ہے لیکن اپنے زمانے کے لوگوں کی نسبت کہتا ہے:
ایں چہ شوریست کہ در دور قمر می بینم
ہمہ آفاق پر از فتنہ و شر می بینم
دختراں را ہمہ جنگ است و جدل با مادر
پسران را ہمہ بد خواہ پدر می بینم
امام غزالی نے اپنے زمانے کے عوام کے علاوہ علما کا جو حال لکھا ہے وہ پڑھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی صورت بالکل مسخ ہو چکی ہے۔
دین دار اور دنیا دار سب ادنیٰ اغراض میں مبتلا ہیں۔ یونان کی تہذیب میں سقراط و افلاطون کا زمانہ علوم و فنون کے لحاظ سے تاریخ انسانی کا ایک زریں ورق ہے،لیکن اسی عہد میں سوفسطائی بھی تھے جو حقیقت و صداقت کے منکر تھے۔ وہ دین و اخلاق کو توہمات سمجھتے اور لوگوں میں تشکیک پھیلاتے تھے۔ اسی حکمت پسند قوم نے سقراط جیسے حکیم ناصح کو زہر پلا دیا۔
’جمہوریہ افلاطون‘ اسی دور کے عوام و خواص کی کم عقلی پر ایک مفصل تنقید ہے۔ عارف رومی کا زمانہ ہمارے نزدیک تو صوفیہ کرام اور صلحا کا عہد تھا لیکن مولانا اپنے معاصر انسانوں کو سست عناصر اور دام و دو سمجھتے ہیں اور مردان خدا کو ڈھونڈتے ہیں جو کہیں نظر نہیں آتے:
گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما
گفت آنکہ یافت می نشو آنم آرزوست
ہر دور میں انسانوں کے متعلق ایسی خراب رائے حکما اور صلحا کیوں رکھتے تھے؟ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ ہر بلند نظر انسان میں انسانیت کا نصب العین بہت بلند ہوتا ہے اور اکثر انسان اس معیار پر کم عیار ثابت ہوتے ہیں۔
مشہور انگریزی ادیب ڈاکٹر جونسن نے بوس دل سے کہا کہ میری رائے انسانوں کی نسبت بہت خراب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے عام طو رپر لوگ اچھا سمجھتے ہیں لیکن میں خود اپنی نسبت جانتا ہوں کہ میں کیسا ذلیل ہوں۔ ایسے ذلیل آدمی کو اچھا سمجھنے والوں کی اپنی کیا حالت ہو گی۔ وہ مجھ سے کچھ بدتر ہی ہوں گے۔
اقبال کے ذہن میں بھی رسول کریمﷺ اور صحابہ کرام کی سیرت کا نقشہ تھا۔
اس نے انسانی خودی انسانی بصیرت اور ہمت کا ایک نصب العین قائم کر لیا تھا۔ وہ مرد مومن کے جو صفات بیان کرتا ہے وہ ایک انسان میں کہاں یکجا مل سکتے ہیں۔ اس معیار کو سامنے رکھ کر اب جو وہ گرد و پیش نظر دوڑاتا ہے تو اسے انسان ایسے نظر آتے ہیں جن کی نسبت خدا سے شکایت کرتا ہے:
یہی آدم ہے سلطاں بحر و بر کا؟
کہوں کیا ماجرا اس بے بصر کا
نہ خود بین، نے خدا بیں نے جہاں بیں
یہی شہ کار ہے تیرے ہنر کا؟
اوروں کو چھوڑیے خود اپنے آپ سے بیزاری کا اظہار کرتا ہے۔
اپنے تئیں تن آسان اور سست عمل کہتا ہے اور اپنی سیرت کا تجزیہ کرتے ہوئے بیباکی سے ایسی ایسی باتیں کہہ جاتا ہے کہ اس کے بعض معتقدین اس کو فرقہ ملامتیہ کا ایک ممتاز فرد گردانتے ہیں۔ ’نالہ ابلیس‘ میں شیطان نے جو انسانوں کے متعلق رائے قائم کی ہے وہ اقبال کی اپنی رائے ہے اور یہ رائے اس کے نصب العین کی بلندی کی وجہ سے ہے۔ ورنہ انسان ہمیشہ زیادہ تر ایسے ہی تھے اور ایسے ہی رہیں گے۔
مختلف ادوار میں اچھوں اور بروں کے تناسب میں فرق پڑتا رہتا ہے۔ کبھی اچھوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے اور کبھی بروں کی کثرت ہو جاتی ہے اور قوموں کا عروج و زوال اسی سے متعین ہوتا ہے لیکن نصب العینی انسان دنیا میں کتنے ہوئے اور کتنے ہو سکتے ہیں۔
اقبال کے ابلیس کے تصور میں ایک اشتباہ کو رفع کرنا لازمی معلوم ہوتا ہے۔ آپ دیکھ چکے ہیں کہ اکثر نظریات حیات ابلیس نے بھی وہی پیش کئے ہیں جو اقبال کی تعلیم میں نمایاں طور پر موجود ہیں۔
اقبال کے نزدیک زندگی نفی و اثبات دونوں پر مشتمل ہے۔ ارتقاے حیات میں ایک حالت کی نفی سے دوسری حالت کا اثبات ہوتا ہے اور آگے بڑھتے ہوئے بھی اس اثبات کی نفی ہو جاتی ہے۔ ابلیس کو اقبال خواجہ اہل فراق کہتا ہے کہ وہ فراق کو آرزو و جستجو اور ترقی نفس انسانی کا سرچشمہ قرار دیتا ہے:
بگو جبریل را از من پیامے
مرا آں پیکر نوری نداند
ولے تاب و تب ما خاکیاں ہیں
بنوری ذوق مہجوری نداند
نفس کے اندر اگر پیکار نہ ہو تو اس کی ترقی ممکن نہیں۔
زندگی خیر و شر کی پیکار کا نام ہے۔ شر نفی اور انکار کے مترادف ہے اور یہی صفت ابلیس کے تصور میں مشخص ہو گئی ہے۔ لیکن خالی نفی اور انکار سے تو زندگی قائم نہیں رہ سکتی۔ جہاں تک نفی و انکار کے لزوم کا تعلق ہے اور جس حد تک اقبال اس کو معاون حیات سمجھتا ہے،اس حد تک انکار مجسم ابلیس کی زبان سے بھی حکیمانہ کلیمات نکلواتا ہے۔ لیکن ابلیس کی خودی محض ایک سلبی خودی ہے۔
اس میں ایجابی پہلو کا فقدان ہے۔ ابلیس کے تصور میں بھی ایسے صفات موجود ہیں جو قلب ماہیت سے خود کی تکمیل میں معاون ہوسکتے ہیں اور ابلیس کی ستائش گری انہی صفات کی وجہ سے ہے جن میں زندگی کا ارتقا مضمر ہے اور ان صفات کے فقدان سے زندگی تکمیل کو نہیں پہنچ سکتی۔ یہ وہی بات ہے جو حدیث شریف میں کہی گئی ہے کہ شیطان کی گردن مارنے کی ضرورت نہیں،اسے مسلمان کرنے کی ضرورت ہے اور یہی تصور ابن عربی کا بھی ہے جو اوپر درج ہو چکا ہے کہ جنت کے پھل دوزخ کی گرمی سے پکتے ہیں۔
ابلیس کے آتش نژاد ہونے کے یہی معنی ہیں۔ اقبال اس کو آتش حیات کہتا ہے۔ لیکن اس نار کو دور آفریں نہیں بلکہ نور آفریں ہونا چاہئے۔ زندگی کا قیام اور اس کا ارتقا نفی کے پہلو کے بغیر نہیں ہو سکتا،لیکن نفی فی نفسہ تصور نہیں ہو سکی۔ نفی سے اعلیٰ تر اثبات کے طرف یا اقبال کی اصلاح میں استحکام خودی کی طرف مسلسل قدم اٹھنا چاہئے۔ اثبات مسلسل نفی کے بغیر نہیں ہو سکتا،لہٰذا نفی بھی خیر مطلق کے حصول کیلئے لازمی ہے۔
###