Episode 40 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 40 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

تہذیبوں کی پیدائش اور ان کے عروج و زوال کے اسباب کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ زمانہ حال میں فلسفہ تاریخ کے بڑے بڑے اکابر مفکر اسپنکلر،ٹائن بی وغیرہ متضاد نظریات پیش کرتے ہیں۔ کوئی نظریہ اس کا تسلی بخش جواب نہیں دیتا کہ بعض ادوار میں یک بیک کسی قوم میں ایک غیر معمولی زندگی پیدا ہو جاتی ہے،ہر شعبے میں غیر معمولی عبقری ابھرتے ہیں،جمال اور عظمت و قوت میں روز افزوں اضافہ ہوتا ہے لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ان پر پہلے خفتگی طاری ہوتی ہے اور پھر موت۔
 
ایک تہذیب ابھی مرنے نہیں پاتی کہ کسی جگہ غیر متوقع طور پر نئی زندگی پیدا ہوتی ہے اور ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اسپنگلر کی عالمانہ کتاب زوال مغرب میں یہی نظریہ ملتا ہے کہ ملتیں بھی نباتی یا حیوانی وجود کی طرح پیدا ہوتی ہے اور طفولیت و شباب و شیب کے ادوار سے گزرتی ہیں اور آخرمیں مر جاتی ہیں۔

(جاری ہے)

ان کی پیدائش میں جو ایک خاص قسم کی زندگی ان کے اندر سے ابھرتی ہے،اس کے اسباب و علل عقل کی گرفت سے باہر ہیں۔

یہ ایک سرحیات اور لایخل عقیدہ ہے لیکن جن ادوار سے وہ گرتی ہے ان کی کیفیات مخصوص قوانین کے ماتحت ظہور میں آتی ہیں۔
 اسپنگلر تاریخ میں ایک خاص قسم کے جبر کا قائل ہے۔ ہر دور میں علوم و فنون کا ایک خاص انداز ہوتا ہے،معاشرت میں جو تغیرات ہوتے ہیں وہ بھی لگے بندھے قوانین کے ماتحت ہوتے ہیں۔ بے انتہا تبحر علمی سے اس نے تمام بڑی بڑی گزشتہ تہذیبوں کا جائزہ لیا ہے اور آخر میں یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مغربی تہذیب نشوونما کے تمام منازل طے کرکے اب زوال پذیر ہے اور عنقریب یہ بھی اسی طرح مٹ جائے گی جس طرح یونان و روما اور مصر وباطل کی تہذیبیں سپرد فنا ہوئیں۔
اسپنگلر کو پڑھ کر بعض اوقات یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وہی بات نہیں جو قرآن حکیم نے بھی کہی کہ امتوں کے لیے بھی اسی طرح اجل ہے جس طرح افراد کے لیے ہے اور جب اجل کا وقت آن پہنچتا ہے تو پھر اس میں تعجیل وتاخیر نہیں ہوسکتی:
وَلِکُلِّ اُمَّتہٍ اَجَلٌ۔ فَاِذَا جَاءَ اَجَلُہُمْ لَا یَسْتَأخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَO
ترجمہ: ”اور پھر جب کسی قوم کی مدت آن پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر وتقدیم نہیں ہوتی“ (سورة الاعراف: ۷، آیت ۳۴)
لیکن جب علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے یہ خیال پیش کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ درست ہے کہ امتوں کے لیے اجل تو ہے لیکن اہل مغرب نے جو یہ خیال پھیلادیا ہے کہ کوئی امت دوبارہ زندہ نہیں ہوسکتی یہ غلط ہے۔
وہ فرماتے تھے کہ یہ خیال زوال یافتہ مشرقی اقوام کو مایوس کرنے کے لیے ان کے ذہنوں میں ڈالا گیا ہے۔ اسلام تو ساری دنیا کے مرکر دوبارہ زندہ ہونے کا قائل ہے، وہ امتوں کی حیات ثانی کا کیسے منکر ہوسکتا ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ خزاں میں درختوں پر موت طاری ہوگئی ہے لیکن بہار میں وہ پھر نئے برگ وبار پیدا کرتے ہیں۔ مٹی زرخیز ہونے کے باوجود نمی کی کمی سے مردہ دکھائی دیتی ہے، لیکن آبیاری کے بعد اس میں سے زندگی ابھر آتی ہے۔
ای خیال کے ماتحت وہ ملت اسلامیہ کے متعلق فرما گئے ہیں:
نہیں ہے نا اُمید قبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
(بالِ جبریل: ص۲۷)
”اقبال کے ہاں مغربی تہذیب کے متعلق زیادہ تر مخالفانہ تنقید ہی ملتی ہے اور یہ مخالفت اس کی رگ وپے میں اس قدر رچی ہوئی ہے کہ اپنی اکثر نظموں میں جاو بے جا ضرر اور اس پر ایک ضرب رسید کردیتا ہے۔
مجموعی طور پر یہ اثر ہوتا ہے کہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو مغربی تہذیب میں خوبی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا، اس کے اندر اور باہر فساد ہی فساد دکھائی دیتا ہے، گویا یہ تمام کارخانہ ابلیس کی تجلی ہے۔ بعض نظمیں تو خالص اسی مضمون کی ہیں۔ اپنی غزلوں میں بھی حکمت وعرفان، تصوف اور ذوق وشوق کے اشعار کہتے کہتے یوں یہ ایک آدھ ضرب مغرب کو رسید کردیتے ہیں۔
 
بال جبریل کی اکثر غزلیں بہت ولولہ انگیز ہیں، اکثر اشعار میں حکمت اور عشق کی دلکش آمیزش ہے لیکن اچھے اشعار کہتے کہتے ایک شعر میں فرنگ کے متعلق غصے اور بے زاری کا اظہار کردیتے ہیں اور پڑھنے والے صاحب ذوق انسان کو دھکا سا لگتا ہے کہ فرنگ عیوب سے لبریز سہی لیکن یہاں اس کا ذکر نہ ہی کیا جاتا تو اچھا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصفا آب رواں کا لب جو بیٹھے لطف اٹھا رہے تھے کہ اس میں یک بیک ایک مردہ جانور کی لاش تیرتی ہوئی سامنے آگئی۔
اگر کہیں ملا کو برا کہتا ہے جو تہذیب فرنگ کی طرح اقبال کے طعن وطنز کے تیروں کا ایک مستقل ہدف ہے تو اس کے ساتھ ہی فرنگ کو بھی لپیٹ لیتا ہے،حالانکہ غزل کے باقی اشعار نہایت حکیمانہ اور عارفانہ ہوتے ہیں۔ مثلاً غزل کا مطلع ہے:
اک دانش نورانی اک دانش برہانی
ہے دانش برہانی حیرت کی فراوانی
باقی اشعار بھی اسی طرح کے بلند پایہ ہیں لیکن چلتے چلتے ایک یہ شعر بھی فرما دیا جس میں خواہ مخواہ اپنے آپ کو بھی متہم کیا ہے:
مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی
اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگ مسلمانی
مگر فرنگ میں جو ظاہری پاکیزگی اور حسن و جمال ہے اقبال اس کا منکر نہیں۔
تمدن فرنگ کے اس پہلو کو جو اس کو ایشیا کی گندگی سے ممتاز کرتا ہے،اقبال بھی قابل رشک سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ مشرق میں بھی جنت اراضی کے نمونے نظر آئیں:
فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند
افغانستان کے سفر میں حکیم سنائی غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مقدس کی زیارت نصیب ہوئی اور اس عارف و حکیم کے پر تو فیض سے بہت اچھے اشعار اقبال کی زبان سے نکلے ہیں۔
مشرق کی جھوٹی روحانیت سے بیزاری ظاہر کی ہے لیکن فرنگ کو یہاں بھی نہیں بھولے:
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذر و دلق اویس و چادر زہرا؟
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صہبا
پھر ایک شعر میں تہذیب حاضر کے متعلق وہ بات کہتے ہیں جسے انہوں نے اور جگہوں پر بھی دہرایا ہے کہ تہذیب حاضر نے بہت سے جھوٹے معبودوں کا خاتمہ کیا ہے۔
نفی کا یہ پہلو ضروری تھی لیکن اس کے بعد اثبات حقیقت کی طرف اس کا قدم نہیں اٹھ سکا اس لئے اس کی فطرت میں ایک واویلا پیدا ہو رہا ہے:
لبالب شیشہ تہذیب حاضر ہے مئے لا سے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ الا
دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے
بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا
اور کئی غزلوں میں بھی یہی کیفیت ہے کہ بات کچھ بھی ہو رہی ہو لیکن ضرب لگانے کیلئے فرنگ کا ذکر کرنا لازمی ہے:
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
یہ غزل کس قدر عرفانی اور لامکانی ہے جس کے شروع کے دو اشعار یہ ہیں:
تو ابھی رہگزر میں ہے قید مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر
ایسی اونچی باتیں کہتے ہوئے پھر یک بیک فرنگ کی طرف پلٹتے ہیں:
گرچہ ہے دلکشا بہت حسن فرنگ کی بہار
طائرک بلند بال دانہ و آرام سے گزر
بال جبریل میں ساتویں غزل ایسی ہے جس سے روح وجد کرنے لگتی ہے،نصف غزل میں بڑے موثر انداز میں اپنے من میں غوطہ لگانے کی تلقین کی ہے جو تمام اسرار الٰہیہ کا خزنیہ ہے۔
من اور تن کے مقابلے کے یہ اشعار اقبال کے شاہکاروں میں سے ہے:
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن
من کی دنیا؟ من کی دنیا سوز و مستی جذب و شوق
تن کی دنیا؟ تن کی دنیا سود و سودا مکر و فن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے، آتا ہے دھن جاتا ہے دھن
مقطع میں خود داری کی ایسی تلقین ہے جو دل میں گھر کر جاتی ہے:
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط