تہذیبوں کی پیدائش اور ان کے عروج و زوال کے اسباب کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ زمانہ حال میں فلسفہ تاریخ کے بڑے بڑے اکابر مفکر اسپنکلر،ٹائن بی وغیرہ متضاد نظریات پیش کرتے ہیں۔ کوئی نظریہ اس کا تسلی بخش جواب نہیں دیتا کہ بعض ادوار میں یک بیک کسی قوم میں ایک غیر معمولی زندگی پیدا ہو جاتی ہے،ہر شعبے میں غیر معمولی عبقری ابھرتے ہیں،جمال اور عظمت و قوت میں روز افزوں اضافہ ہوتا ہے لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ان پر پہلے خفتگی طاری ہوتی ہے اور پھر موت۔
ایک تہذیب ابھی مرنے نہیں پاتی کہ کسی جگہ غیر متوقع طور پر نئی زندگی پیدا ہوتی ہے اور ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اسپنگلر کی عالمانہ کتاب زوال مغرب میں یہی نظریہ ملتا ہے کہ ملتیں بھی نباتی یا حیوانی وجود کی طرح پیدا ہوتی ہے اور طفولیت و شباب و شیب کے ادوار سے گزرتی ہیں اور آخرمیں مر جاتی ہیں۔
(جاری ہے)
ان کی پیدائش میں جو ایک خاص قسم کی زندگی ان کے اندر سے ابھرتی ہے،اس کے اسباب و علل عقل کی گرفت سے باہر ہیں۔
یہ ایک سرحیات اور لایخل عقیدہ ہے لیکن جن ادوار سے وہ گرتی ہے ان کی کیفیات مخصوص قوانین کے ماتحت ظہور میں آتی ہیں۔
اسپنگلر تاریخ میں ایک خاص قسم کے جبر کا قائل ہے۔ ہر دور میں علوم و فنون کا ایک خاص انداز ہوتا ہے،معاشرت میں جو تغیرات ہوتے ہیں وہ بھی لگے بندھے قوانین کے ماتحت ہوتے ہیں۔ بے انتہا تبحر علمی سے اس نے تمام بڑی بڑی گزشتہ تہذیبوں کا جائزہ لیا ہے اور آخر میں یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مغربی تہذیب نشوونما کے تمام منازل طے کرکے اب زوال پذیر ہے اور عنقریب یہ بھی اسی طرح مٹ جائے گی جس طرح یونان و روما اور مصر وباطل کی تہذیبیں سپرد فنا ہوئیں۔
اسپنگلر کو پڑھ کر بعض اوقات یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وہی بات نہیں جو قرآن حکیم نے بھی کہی کہ امتوں کے لیے بھی اسی طرح اجل ہے جس طرح افراد کے لیے ہے اور جب اجل کا وقت آن پہنچتا ہے تو پھر اس میں تعجیل وتاخیر نہیں ہوسکتی:
وَلِکُلِّ اُمَّتہٍ اَجَلٌ۔ فَاِذَا جَاءَ اَجَلُہُمْ لَا یَسْتَأخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَO
ترجمہ: ”اور پھر جب کسی قوم کی مدت آن پوری ہوتی ہے تو ایک گھڑی بھر کی تاخیر وتقدیم نہیں ہوتی“ (سورة الاعراف: ۷، آیت ۳۴)
لیکن جب علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے یہ خیال پیش کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ درست ہے کہ امتوں کے لیے اجل تو ہے لیکن اہل مغرب نے جو یہ خیال پھیلادیا ہے کہ کوئی امت دوبارہ زندہ نہیں ہوسکتی یہ غلط ہے۔
وہ فرماتے تھے کہ یہ خیال زوال یافتہ مشرقی اقوام کو مایوس کرنے کے لیے ان کے ذہنوں میں ڈالا گیا ہے۔ اسلام تو ساری دنیا کے مرکر دوبارہ زندہ ہونے کا قائل ہے، وہ امتوں کی حیات ثانی کا کیسے منکر ہوسکتا ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ خزاں میں درختوں پر موت طاری ہوگئی ہے لیکن بہار میں وہ پھر نئے برگ وبار پیدا کرتے ہیں۔ مٹی زرخیز ہونے کے باوجود نمی کی کمی سے مردہ دکھائی دیتی ہے، لیکن آبیاری کے بعد اس میں سے زندگی ابھر آتی ہے۔
ای خیال کے ماتحت وہ ملت اسلامیہ کے متعلق فرما گئے ہیں:
نہیں ہے نا اُمید قبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
(بالِ جبریل: ص۲۷)
”اقبال کے ہاں مغربی تہذیب کے متعلق زیادہ تر مخالفانہ تنقید ہی ملتی ہے اور یہ مخالفت اس کی رگ وپے میں اس قدر رچی ہوئی ہے کہ اپنی اکثر نظموں میں جاو بے جا ضرر اور اس پر ایک ضرب رسید کردیتا ہے۔
مجموعی طور پر یہ اثر ہوتا ہے کہ علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کو مغربی تہذیب میں خوبی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا، اس کے اندر اور باہر فساد ہی فساد دکھائی دیتا ہے، گویا یہ تمام کارخانہ ابلیس کی تجلی ہے۔ بعض نظمیں تو خالص اسی مضمون کی ہیں۔ اپنی غزلوں میں بھی حکمت وعرفان، تصوف اور ذوق وشوق کے اشعار کہتے کہتے یوں یہ ایک آدھ ضرب مغرب کو رسید کردیتے ہیں۔
بال جبریل کی اکثر غزلیں بہت ولولہ انگیز ہیں، اکثر اشعار میں حکمت اور عشق کی دلکش آمیزش ہے لیکن اچھے اشعار کہتے کہتے ایک شعر میں فرنگ کے متعلق غصے اور بے زاری کا اظہار کردیتے ہیں اور پڑھنے والے صاحب ذوق انسان کو دھکا سا لگتا ہے کہ فرنگ عیوب سے لبریز سہی لیکن یہاں اس کا ذکر نہ ہی کیا جاتا تو اچھا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصفا آب رواں کا لب جو بیٹھے لطف اٹھا رہے تھے کہ اس میں یک بیک ایک مردہ جانور کی لاش تیرتی ہوئی سامنے آگئی۔
اگر کہیں ملا کو برا کہتا ہے جو تہذیب فرنگ کی طرح اقبال کے طعن وطنز کے تیروں کا ایک مستقل ہدف ہے تو اس کے ساتھ ہی فرنگ کو بھی لپیٹ لیتا ہے،حالانکہ غزل کے باقی اشعار نہایت حکیمانہ اور عارفانہ ہوتے ہیں۔ مثلاً غزل کا مطلع ہے:
اک دانش نورانی اک دانش برہانی
ہے دانش برہانی حیرت کی فراوانی
باقی اشعار بھی اسی طرح کے بلند پایہ ہیں لیکن چلتے چلتے ایک یہ شعر بھی فرما دیا جس میں خواہ مخواہ اپنے آپ کو بھی متہم کیا ہے:
مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی
اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگ مسلمانی
مگر فرنگ میں جو ظاہری پاکیزگی اور حسن و جمال ہے اقبال اس کا منکر نہیں۔
تمدن فرنگ کے اس پہلو کو جو اس کو ایشیا کی گندگی سے ممتاز کرتا ہے،اقبال بھی قابل رشک سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ مشرق میں بھی جنت اراضی کے نمونے نظر آئیں:
فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند
افغانستان کے سفر میں حکیم سنائی غزنوی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مقدس کی زیارت نصیب ہوئی اور اس عارف و حکیم کے پر تو فیض سے بہت اچھے اشعار اقبال کی زبان سے نکلے ہیں۔
مشرق کی جھوٹی روحانیت سے بیزاری ظاہر کی ہے لیکن فرنگ کو یہاں بھی نہیں بھولے:
یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذر و دلق اویس و چادر زہرا؟
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صہبا
پھر ایک شعر میں تہذیب حاضر کے متعلق وہ بات کہتے ہیں جسے انہوں نے اور جگہوں پر بھی دہرایا ہے کہ تہذیب حاضر نے بہت سے جھوٹے معبودوں کا خاتمہ کیا ہے۔
نفی کا یہ پہلو ضروری تھی لیکن اس کے بعد اثبات حقیقت کی طرف اس کا قدم نہیں اٹھ سکا اس لئے اس کی فطرت میں ایک واویلا پیدا ہو رہا ہے:
لبالب شیشہ تہذیب حاضر ہے مئے لا سے
مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ الا
دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے
بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا
اور کئی غزلوں میں بھی یہی کیفیت ہے کہ بات کچھ بھی ہو رہی ہو لیکن ضرب لگانے کیلئے فرنگ کا ذکر کرنا لازمی ہے:
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
یہ غزل کس قدر عرفانی اور لامکانی ہے جس کے شروع کے دو اشعار یہ ہیں:
تو ابھی رہگزر میں ہے قید مقام سے گزر
مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر
جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزر
ایسی اونچی باتیں کہتے ہوئے پھر یک بیک فرنگ کی طرف پلٹتے ہیں:
گرچہ ہے دلکشا بہت حسن فرنگ کی بہار
طائرک بلند بال دانہ و آرام سے گزر
بال جبریل میں ساتویں غزل ایسی ہے جس سے روح وجد کرنے لگتی ہے،نصف غزل میں بڑے موثر انداز میں اپنے من میں غوطہ لگانے کی تلقین کی ہے جو تمام اسرار الٰہیہ کا خزنیہ ہے۔
من اور تن کے مقابلے کے یہ اشعار اقبال کے شاہکاروں میں سے ہے:
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن
من کی دنیا؟ من کی دنیا سوز و مستی جذب و شوق
تن کی دنیا؟ تن کی دنیا سود و سودا مکر و فن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے، آتا ہے دھن جاتا ہے دھن
مقطع میں خود داری کی ایسی تلقین ہے جو دل میں گھر کر جاتی ہے:
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن