اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ دو تین سو سال میں مغرب نے جو ترقی کی وہ عقلی علوم اور مادی فطرت کی تسخیر میں کی۔ اس ترقی کے مقابلے میں اخلاقی اور روحانی ترقی کی رفتار نہایت سست نظر آتی ہے لیکن اس میں کس کو شک ہو سکتا ہے کہ مغرب میں نہایت بلند پایہ اخلاقی اور روحانی رہنما اس دور میں پیدا ہوئے۔ انہی تین صدیوں میں مشرق کی خفتگی اور مسلمانوں کے روحانی جمود کے متعلق اقبال کی رائے تھی کہ:
تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند
ان تین صدیوں میں کوئی بلند پایہ روحانی تحریک اسے اس برصغیر میں نظر نہیں آتی۔
باقی اسلامی ممالک کا حال کچھ اس سے بدتر ہی رہا مگر اس دور میں مغرب میں اخلاقی اور روحانی مصلحین کی کوششوں نے انسانی زندگی کو بہت آگے بڑھا دیا۔ شہروں کی گندگی ناپید ہو گئی،بہت سے مہلک امراض کا علاج حکماء و اطبا نے بڑی قربانیوں اور جدوجہد سے تلاش کیا اور جو کافر گر افلاس مشرق میں ملت اسلامیہ میں نظر آتا ہے وہ مغرب سے ناپید ہو گیا۔
(جاری ہے)
کیا اسے عقل کی غارت گری کہہ سکتے ہیں؟ یہ کہنا سخت نا انصافی کی بات ہے کہ مغرب کی تہذیب میں اخلاق اور روحانیت کا عنصر نہیں۔ انگریز تاجر کو مسلمان بھی اپنوں سے زیادہ راست گو اور قابل اعتبار سمجھتے ہیں۔ کیا اس دیانت میں روحانیت کا کوئی شائبہ نہیں؟ محتاجوں،بیماروں اور بے کسوں کی جو دیکھ بھال مغرب میں ہوتی ہے اس کا عشر عشیر بھی روحانیت کے مدعی مشرق میں نظر نہیں آتا۔
یہ درست ہے کہ مغرب مشرق سے زیادہ شراب خوار ہے،مگر:
تو فخر ہمی کنی کہ مے می نخوری
صد کار کنی کہ مے غلام است آں را
یہ فتویٰ کیا غلط ہے
کہ مے حرام و لے بہ زمال اوقاف است
مشرق میں ابھی تک فقہا فتوے فروش ہیں اور قاضیوں پر بھی لوگوں کو بھروسا نہیں،رشوت کا بازار گرم ہے۔ خیام نے کیا سچ کہا ہے:
اے قاضی شہر از تو پرکار تریم
باایں ہمہ مستی از تو ہشیار تریم
تو خون کساں خوری و من خون رزاں
ز انصاف بگو کدام خوں خوار تریم
یہ سب کچھ جانتے ہوئے یہ کہنا کہ مغرب روحانیت سے بالکل معرا ہے انصاف سے بعید ہے۔
مغرب کے متعلق انصاف پسندوں کا رویہ یہ ہونا چاہئے کہ ’عیب او جملہ بگفتی ہنرش نیز بگو“۔ مگر فرنگ کے متعلق اقبال کی بیزاری اس کو جادہ اعتدال سے ہٹا دیتی ہے۔ معلوم نہیں کہ روحانی زندگی کی تلقین کرنے والے اور عملاً روحانی زندگی بسر کرنے والے اور خلق خدا کی بھلائی کیلئے زندگیاں وقف کرنے والے لوگ اقبال کو فرنگ میں کیوں نظر نہیں آئے کہ وہ مایوس ہو کر یہ کہنے لگا:
یاد ایامے کہ بودم در خمستان فرنگ
جام او روشن تر از آئینہ اسکندر است
چشم مست مے فروشش بادہ را پروردگار
بادہ خواراں را نگاہ ساقیش پیغمبر است
جلوہ او بے کلیم و شعلہ او بے خلیل
عقل ناپروا متاع عشق را غارتگر است
در ہوایش گرمی یک آہ بیتابانہ نیست
رند این میخانہ را یک لغزش مستانہ نیست
فرنگ کے مقابلے میں مسلمانوں کی موجودہ روحانیت کا جو حال ہے وہ اقبال کی نظر سے اوجھل نہیں۔
اس کے نزدیک فرنگ میں عقل کی روشنی ہے مگر دلوں میں اندھیرا ہے۔ مگر ہمارے ہاں تو خسرالدنیا والآخر ہے۔ نہ عقل کی روشنی اور نہ عشق کی آگ:
بجھی عشق کی آگ اندھیرا ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
عقل و علم اور عشق کا تقابل اقبال کا خاص مضمون ہے۔ یہ مضمون صدیوں سے مسلمانوں کے ادب میں حکیمانہ،صوفیانہ اور متصوفانہ شاعری کا ایک دلچسپ موضوع رہا ہے اور اقبال سے پہلے لوگوں نے اس مسئلے میں بڑی نکتہ آفرینیاں کی ہیں لیکن اس کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ پہلوں نے جو کچھ کہا اس کا بہترین جوہر اور خلاصہ بھی اقبال کے کلام میں موجود ہے۔
نیز اقبال نے اس پر قابل قدر اضافہ بھی کیا ہے اور ہر نظم بلکہ ہر شعر میں انداز بیان بھی نرالا ہے۔ اقبال نے بہت سے ایسے مسائل پر طبع آزمائی کی ہے جو آنے والی نسلوں کیلئے محض ایک تاریخی حیثیت سے قابل مطالعہ ہوں گے،لیکن عقل و عشق کی موافقت یا مخالفت ایک ایسا مضمون ہے جو فطرت انسانی کے اندر میلانات کی ایک ابدی پیکار کا مظہر ہے۔ اگر انسان کی اساسی جبلت اپنی صورتیں بدلنے کے باوجود بھی تغیر پذیر نہیں بلکہ ایک حقیقت ثابتہ ہے،تو اقبال کی شاعری کا یہی حصہ اس کی شاعری کو لازوال بنانے کا ضامن ہے۔
عشق کی جذباتی اور تاثراتی کیفیت کو اس نے جس طرح بیان کیا ہے اس پر اضافہ کرنا کسی آنے والے شاعر،حکیم و عاشق کیلئے دشوار ہوگا اور حکیمانہ انداز میں جو نکات اس کے ذہن سے مترشح ہوئے ہیں وہ بھی ایسے جامع ہیں کہ شاید ہی اس کے بعد آنے والا اس سے زیادہ کچھ کہہ سکے۔ حکیم المانوی گوئٹے نے،جس کی بصیرت کا اقبال معترف تھا۔ ایک ایسا منظوم ڈرامہ لکھا جس میں بقول اقبال اس نے انسانی زندگی کے متعلق ایسے معارف بیان کئے ہیں کہ انسانی فکر اور تخیل کی پرواز اس سے بلند تر نہیں ہو سکتی۔
اس ڈرامے کا ہیرو فوسٹ تمام علوم سے بہرہ ور ہونے اور تمام فلسفوں کی خاک چھاننے کے بعد حقیقت حیات کے متعلق عقل کی بے بسی سے اسی طرح بیزار ہوا جس طرح کہ اقبال خالی علم و عقل کی جدوجہد سے مایوس ہو گیا۔ وہ قوت و اقتدار اور لذت کا آرزو مند تھا۔ ابلیس نے ظاہر ہو کر اس سے کہا کہ جو کچھ تم چاہتے ہو وہ میرے قبضہ قدرت میں ہے۔ اگر اپنی روح کو میرے پاس بیچ دو تو میں تمہیں کائنات کی سیر کراتا ہوں اور تمہاری ہر آرزو کو پورا کرنے کا ذمہ لیتا ہوں۔
قصے کا آغاز یہی ہے اس کے بعد شیطان کی ہمرکابی میں فوسٹ نے جو کچھ دیکھا اور کیا اس کی داستان بہت طویل ہے مگر اس داستان کے اندر شیطان کی فطرت اور انسان کی فطرت کے تمام مضمرات اور امکانات نمایاں ہوتے جاتے ہیں۔ اس سے زیادہ عمیق حکیمانہ ڈرامہ مغرب کے کسی ادیب نے نہیں لکھا۔ اقبال کے ہاں فطرت ابلیس کا مضمون بھی ایک خاص مضمون ہے جس کے کچھ پہلو اس کو گوئٹے نے سمجھائے ہیں۔ ابلیس اس ڈرامے میں تخریب اور شر کا مجسمہ ہے،لیکن گوئٹے اس تخریبی قوت پر غلبہ پانے والی جس قوت کو پیش کرتا ہے وہ عشق ہے۔