چوتھا باب
۱۹۰۸ء سے ۔۔۔۔
یورپ میں کہی ہوئی اقبال کی نظمیں بہت کم ہیں لیکن انہیں میں سے بعض میں اس کی شاعری کے موضوعات کا رخ بدلتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس تمنا نے اسے بیتاب کرنا شروع کیا ہے کہ اپنی پسماندہ اور افتادہ ملت کو بیدار اور ہشیار کیا جائے،عظمت دیرینہ اور عروج رفتہ کے نقشے اس کے سامنے رکھے جائیں،موجودہ حالت کی درماندگی اور پستی کو بھی اچھی طرح نمایاں کیا جائے لیکن اس انداز سے نہیں کہ اس میں یاس آفرینی اور ہمت شکنی کی کیفیت پیدا ہو،حالی بہت کچھ قوم کا ماتم کر چکا ہے،اب مزید اشک ریزی اور سینہ زنی سے انفعالی کیفیت کو ترقی دینا نقصان کا باعث ہوگا،مومن کی سیرت کے خط و خال اعلیٰ درجے کی مصوری سے کھینچے جائیں،اسلاف سے اس کے نمونے پیش کئے جائیں،قوم میں خودی اور خود داری کا احساس پیدا کیا جائے،احساس کمتری کو مٹا کر اس میں خودی کے جذبے کو ابھارا جائے،بلبل کو خیر باد کہہ کر شاہین کی سیرت کو اُردو اور فارسی شاعری میں پہلی مرتبہ فقر و خود داری،جرأت و ہمت اور بلند پروازی کا نمونہ بنایا جائے،قوم کے جمود کو توڑا جائے اور اسے یہ تعلیم دی جائے کہ زندگی ذوق ارتقا ہے،حرکت مسلسل ہے،شوز نیم خام ہے،خوب تر کی تلاش ہے،جذبہ نشوونما ہے،قناعت پسندوں اور تقدیر پرستوں کو یہ بتایا جائے کہ سعی پیہم سے جہان نو پیدا کرنا انسان کی تقدیر ہے،عقل اچھی چیز ہے لیکن خالی عقل خنک جرأت آموز اور خلاق نہیں ہوتی،زیرکی سے زیادہ عشق کی ضرورت ہے،جب تک قوم میں زندگی کے اعلیٰ اقدار کی تڑپ پیدا نہ ہو گی وہ جمود اور خفتگی میں سے نہیں نکل سکے گی،بقول عارف رومی:
کوشش بے ہودہ بہ ازخفتگی
شیخ عبد القادر کے نام جو پیغام ہے اس میں بھی وہ کہیں نہیں ملتا کہ آؤ اپنی قوم کو جدید علوم و فنون اور عقل فرنگ سے آراستہ کرکے ترقی یافتہ اور مہذب اقوام کی صف میں کھڑے ہو جائیں۔
(جاری ہے)
اقبال اس سے قبل حسن و عشق میں بہت سی نظمیں اور بہت سے اچھے اشعار لکھ چکا تھا لیکن وہ عشق یا مجازی تھا یا متصوفانہ انداز کا عشق جس میں انسانوں کو اپنے ماحول سے بیگانہ کرنے کا میلان ہوتا ہے۔ اب اقبال وضاحت کے ساتھ جس عشق کی تلقین شروع کرتا ہے وہ حیات لامتناہی کا عشق ہے،زندگی کے لامتناہی ممکنات کو معرض وجود میں لانے کا جذبہ ہے،یہ عشق وہ ہے جو آئینہ بصیرت کو صیقل کرتا ہے،پتھر کو آئینہ اور قطرے کو گوہر بناتا ہے،یہ عشق وہ ہے جو خاک سے گل و ثمر پیدا کرتا ہے اور جس سے قطرے میں بحر آشامی کی تشنگی اضطراب آفرین ہوتی ہے۔
دنیا میں اسلام کو اپنی اصل صورت میں پیش کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے والے اس عشق کا تجربہ کر چکے ہیں کہ وہ ظاہر و باطن میں کیسا خلاق اور انقلاب زا ہوتا،عہد حاضر میں وہ نمونے نظر نہیں آتے ہیں لیکن مسلمانوں کی تاریخ اور روایات میں تو موجود ہے،ان کا جلوہ مسلمانوں کو پھر دکھایا جائے:
جلوہ یوسف گم گشتہ دکھا کر ان کو
تپش آمادہ تر از خون زلیخا کر دیں
اس چمن کو سبق آئین نمو کا دے کر
قطرہ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں
دیکھ! یثرب میں ہوا ناقہ لیلیٰ بیکار
قیس کو آرزوے نو سے شناسا کر دیں
اسلام کی کیفیت تو شراب کی سی ہے وہ فرسودہ نہیں ہوا،کہنہ ہونے سے تو اس میں اور تیزی پیدا ہوتی ہے:
بادہ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز
جگہ شیشہ و پیمانہ و مینا کر دیں
اقبال نے یہ فیصلہ کر لیا کہ باقی عمر میں شاعری سے اب یہی احیائے ملت کا کام لیا جائے۔
فرماتے تھے کہ میرے والد نے مجھ سے یہ خواہش کی تھی اور مجھے نصیحت کی تھی کہ اپنے کمال کو اسلام کی خدمت میں صرف کرنا۔ حالی کی شاعری کا رخ سر سید نے پھیرا اور اس کے جوہر کو ملت کیلئے وقف کرایا۔ سید کی صحبت سے پہلے حالی میں یہ چیز بالکل موجود نہ تھی،روایتی تغزل کے علاوہ اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ اقبال میں یہ جذبہ شروع سے موجود تھا لیکن اس میں شدت اور گرمی مغرب میں پیدا ہوئی،اس کی طبیعت میں یہ آفتاب محشر مغرب میں طلوع ہوا:
گرم رکھتا تھا ہمیں سردی مغرب میں جو داغ
چیر کر سینہ اسے وقف تماشا کر دیں
شمع کی طرح جبیں بزم گہ عالم میں
خود جلیں دیدہ اغیار کو بینا کر دیں
ہر چہ ور دل گذرو وقف زباں دارو شمع
توختن نیست خیالے کہ نہا دارو شمع
اس ذہنی انقلاب سے پہلے کی شاعری میں بھی اقبال کے اندر اسلامی جذبات کا کافی ثبوت ملتا ہے،لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہی یہ دبی ہوئی آگ چادر خاکستر کو برطرف کرکے بھڑکنے لگتی ہے اور رفتہ رفتہ یہ کیفیت ہوتی ہے کہ:
پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے
اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے
واپسی میں اقبال کا جہاز ابھی سمندر میں ہی تھا کہ جزیرہ سسلی دکھائی دیتا ہے جہاں مسلمانوں نے ایک عرصے تک نہ صرف حکومت کی بلکہ علم و فنون اور تہذیب و تمدن کے ایسے اچھے نمونے پیش کئے جس سے بعد میں تہذیب فرنگ نے اپنے چراغ جلائے۔
وہ عظمت رفتہ اقبال کی چشم تصور کے سامنے آکر درد انگیز ہو گئی اور شاعر بے اختیار اشک افشاں ہو کر اس کا مرثیہ خوا ہو گیا اس کے تخیل نے تصویر کہن میں رنگ بھر دیئے:
رنگ تصویر کہن میں بھر کے دکھلا دے مجھے
قصہ ایام سلف کا کہہ کے تڑپا دے مجھے
میں ترا تحفہ سوے ہندوستان لے جاؤنگا
خود یہاں روتا ہوں اوروں کو وہاں رلواؤنگا
وہ اس ملت کی مرثیہ خوانی اس لئے نہیں کر رہا کہ کسی زمانے میں اس کی عظیم الشان سلطنت تھی جو انقلاب روزگار سے جاتی رہی،وہ اس ملت کے زوال پر اس لئے افسوس کرتا ہے کہ وہ ایک شاندار نصب العین کی حامل تھی:
اک جہان تازہ کا پیغام تھا جن کا ظہور
کھا گئی عصر کہن کو جن کی تیغ ناصبور
مردہ عالم زندہ جن کی شورش قم سے ہوا
آدمی آزاد زنجیر توہم سے ہوا
غلغلوں سے جس کے لذت گیر اب تک گوش ہے
کیا وہ تکبیر اب ہمیشہ کیلئے خاموش ہے
یورپ سے واپسی کے بعد اقبال کی غالباً سب سے پہلی نظم بلاد اسلامیہ ہے،جو مخزن میں چھپی تھی۔
یہ نظم اس انقلاب کا پتہ دیتی ہے کہ اقبال نے اب اس وطنیت کے دائرے سے باہر قدم رکھا ہے جس کے متعلق وہ پہلے جذبات انگیز شاعری کر چکا تھا۔ اب تمام عالم اسلامی اس کا وطن بن گیا ہے،اسی جذبے نے تھوڑے عرصے کے بعد اس سے ترانہٴ ہندی کی زمین میں ترانہٴ ملی لکھوایا:
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا
مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا
بلاد اسلامیہ کی نظم اس ترانے کا پیشہ خیمہ تھی،اس نظم میں تاریخ اسلام کا ایک رومانی تصور ملتا ہے۔
دلی اور بغداد اور قرطبہ اور قسطنطنیہ مسلمانوں کے سیاسی اقتدار اور تہذیب و تمدن کے مراکز تھے۔ مسلمان کہلانے والی اقوام ان اقالیم میں غالب اور حکمران تھیں لیکن ان سلطنتوں کا انداز اور ان کے حکمرانوں کے اسلوب حکمرانی ہر حیثیت سے اسلامی نہ تھے۔ ان میں سے اکثر نے تو محض قیصر و کسریٰ کی جانشینی ہی کی ہے اور اسلامی زندگی کے کوئی اعلیٰ نمونے پیش نہیں کئے۔
بعد میں تو اقبال علی الاعلان یہ کہنے لگے کہ مسلمان حکمرانوں کی ملوکیت ہی نے اسلام کی صورت کو مسخ کیا ہے،لیکن بلاد اسلامیہ والی نظم میں ابھی تاریخ اسلامیہ کا روشن پہلو ہی ان کے سامنے ہے۔ سوا چند مستثنیٰ صورتوں کے ان سلطنتوں کے حکمرانوں کاطریقہ غیر اسلامی تھا لیکن ان تمام نقائص کے باوجود یہ بات تاریخی حیثیت سے غلط نہیں کہ اچھے ادوار میں اور ان مراکز میں جن کا ذکر اس نظم میں ہے،مسلمانوں نے تہذیب و تمدن کے ایسے نمونے پیش کئے جو دیگر اقوام کی معاصرانہ زندگی سے بہت زیادہ ترقی یافتہ تھے۔
سب جگہ محکوم ملتوں کے ساتھ بے حد روا داری کا سلوک کیا گیا،اگرچہ سیاسی لحاظ سے آخر میں یہی روا داری مسلمانوں کیلئے تباہی کا باعث بنی۔ یہ درست ہے کہ مسلمان اپنے عروج و اقتدار کے زمانے میں ہندوستان اور شرقی اور غربی یورپ کے بہت سے حصے کو جبر سے مسلمان کر سکتے تھے اور اگر ایسا کیا ہوتا تو آج وہاں ایک غیر مسلم بھی نظر نہ آتا،لیکن ایسا جبر مسلمان کیسے کر سکتے تھے؟ اسلام میں اس کی قطعاً اجازت نہ تھی،اگر ایسا کیا ہوتا تو ان خطوں کی غیر مسلم ملتیں بعد میں قوت حاصل کرکے مسلمانوں کو تباہ نہ کر سکتیں اور آج وہاں کوئی فرد اسلام اور مسلمانوں کو برا کہنے والا نہ ملتا،مگر یہ حقیقت ہے کہ ایسے جبر سے مسلمانوں کو سیاسی فائدہ تو پہنچتا لیکن اسلام کا دعویٰ حریت ضمیر باطل ہو جاتا۔