عقل و عشق کا موازنہ اقبال کا ایک خاص مضمون ہے۔ حضرت امام حسین کے ذکر میں بھی شروع میں پندرہ اشعار عقل حیلہ کی تحقیر اور عشق کی مدح میں ہیں۔ اس موازنے میں نہایت لطیف نکات پیدا کئے ہیں۔ اقبال کا مقصود یہ ہے کہ حضرت امام حسین کے اندر عشق کی جذبہ انگیزی اور قوت ایثار کا نقشہ کھینچا جائے۔ اگر حضرت امام حسین میں صرف عقل مصلحت اندیش ہوتی تو کمزور ایمان والے مسلمانوں کی طرح وہ بھی خاموشی سے یزید کی ولی عہدی کو تسلیم کر لیتے۔
حریت اور عشق ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ حضرت سید الشہدا حریت کی حمایت میں انتہائی قربانی پر آمادہ ہوئے۔ یہ جذبہ بھی زندگی کے اعلیٰ اقدار کے عشق ہی کا مظہر ہے:
عشق را آرام جاں حریت است
ناقہ اش را سارباں حریت است
دنیا ہمیشہ خیر و شر کی قوتوں کا میدان کار زار رہی ہے۔
(جاری ہے)
موسیٰ علیہ السلام و فرعون اور حسین (رضی اللہ عنہ) و یزید زندگی کی دو مختلف قوتوں کے نمائندے ہیں۔
خلافت کو سلطنت بنا دینا گویا موسیٰ علیہ السلام کے خلاف فرعون کی حمایت کے مترادف تھا:
چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت را زہر اندر کام ریخت
حریت کا علم بردار سربکف اٹھا،وہ انسانیت کیلئے ایک سحاب رحمت تھا:
بر زمین کربلا بارید و رفت
لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد
ماسواللہ را مسلمان بندہ نیست
پیش فرعونے سرش افگندہ نیست
علامہ اقبال اپنی شاعری کی ابتدا میں وطنیت کے ترانے الاپ کر بصیرت اندوزی کے ساتھ اس بت پرستی سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔
اس انقلاب نظر کے بعد انہوں نے فارسی اور اُردو میں وطن پرستی کے خلاف ایک مسلسل جہاد کیا۔ رموز بے خودی میں بھی یہ مضمون ایک خاص انداز میں موجود ہے۔ اس سے پہلے وہ کہہ چکے ہیں کہ ملت اسلامیہ ایک ابد قرار ملت ہے کیونکہ اس کی تعلیم حیات ابدی کی تعلیم ہے اور اس کے اصول فطرت کے اصول ہیں جن کی نسبت قرآن میں ارشاد ہے:
”فطرة اللہ التی فطر الناس علیہا۔
لاتبدیل لحلق اللہ“ اس سے لازم آتا ہے کہ اس ملت میں کوئی نہایت زمانی نہ ہو۔ اس کے بعد علامہ فرماتے ہیں کہ لازمانی ہونے کی طرح یہ ملت لامکانی بھی ہے یہ کسی خطہٴ ارض کے ساتھ وابستہ نہیں:
پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیرا
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا
یہ بانگ درا وہی ”لا الہ الا اللہ“ ہے جس سے ماوریٰ کوئی حقیقت نہیں۔
مسلمان کا وطن اسلام ہے،جس طرح ایک مقتدر اصحابی نے اپنا نسب اسلام بتایا تھا۔ علامہ فرماتے ہیں کہ اسلام ایک روحانی نظریہ ہے اور اس خاک دان سے اس کا کوئی لازمی رشتہ نہیں۔
قلب ما از ہند و روم و شام نیست
مرزبوم او بجز اسلام نیست
رسول کریم (ﷺ) کو حضرت کعب نے قصیدے میں سیف الہند کہا جو فولاد کی خوبی اور تیزی کیلئے مشہور تھی۔
رسول کریم (ﷺ) نے کہا کہ سیف الہند نہیں سیف اللہ کہو۔ اس سے اقبال نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ اپنے پیغام اور اسلام کو کسی خطہ ارض کے ساتھ وابستہ کرنا پسند نہ فرماتے تھے۔ اسی طرح اس دنیاے ارض کو ایک مشہور حدیث میں ’دنیا کم“ یعنی تمہاری دنیا کہا ہے۔ جس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ اپنے تئیں اس عالم خاکی کا باشندہ نہ سمجھتے تھے۔ وہ یہاں چند روزہ مہمان اور مسافر تھے۔
ہجرت میں بھی یہ تعلیم مضمر تھی کہ اسلام کے مقابلے میں وطن کوئی چیز نہیں۔ رسول کریم(ﷺ) نے تمام روے زمین کو مسجد کہا۔ زمین کا کوئی مخصوص ٹکڑا یا مخصوص معبد ہی خدا کا گھر نہیں۔ جس طرح خدا کسی خطے میں محصور نہیں اسی طرح بندہ خدا کیلئے شرق و غرب برابر ہیں۔ ”واللہ المشرق و المغرب“ فایما تو لوا فتم وجہ اللہ“ خدا نے جس کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا اس کو مکے سے بھاگنے کی کیا ضرورت تھی۔
مکے میں رہتے ہوئے بھی خدا دشمنوں کا قلع قمع کر سکتا تھا۔ ہجرت فقط وطن پرستی کے خلاف ایک موثر تلقین تھی:
صورت ماہی بہ بحر آباد شو
یعنی از قید مقام آزاد شو
ہر کہ از قید جہات آزاد شد
چوں فلک درشش جہت آباد شد
اسلام کا مقصود نوع انسان کی وحدت ہے۔ مغرب کی قومیت پروری اور وطن پرستی نے جغرافیائی حدود کے ادھر اور ادھر رہنے والوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا۔
اب مجلس اقوام بنا کر اس مہلک بیماری کا علاج کرنا چاہتے ہیں لیکن اصل علاج تب ہوگا جب مجلس اقوام کی جگہ مجلس انسان بنے گی۔ موجودہ مجلس میں تو اقوام ہی کی رسہ کشی اور حیلہ سازی نظر آتی ہے اور ظاہری کوشش صلح ’گرگ آشتی‘ ہے۔ اصل خلل زاویہ نظر میں ہے:
آں چناں قطع اخوت کردہ اند
بر وطن تعمیر ملت کردہ اند
مردی اندر جہان افسانہ شد
آدمی از آدمی بیگانہ شد
روح از تن رفت و ہفت اندام ماند
آدمیت کم شد و اقوام ماند
مغرب میں دین کو کچھ مادیت نے سوخت کیا اور کچھ وطنیت نے جو مادیت ہی کی ایک صورت ہے۔
وطن پرستی اور مملکت پرستی نے مغرب میں شیطان کا ایک مرسل بھیج دیا جس کا نام میکیا ویلی ہے۔ اس نے یہ تلقین کی کہ وطن اور مملکت کی حمایت اور قوت افزائی کیلئے عدل و اخلاق کو بالاے طاق رکھ دینا چاہئے۔ فرنگ اسی مرسل شیطان کے صحیفے کا معتقد اور اسی پر عامل ہے۔ فرنگیوں کے ہاں مملکت معبود بن گئی ہے۔ مسلمانوں نے بھی اگر اس کی تقلید کی تو وہ بھی دین سے بیگانہ ہو جائیں گے۔
اس کے بعد اقبال پھر اس خیال کی طرف عود کرتا ہے کہ ملت اسلامیہ کبھی زمانے کی دستبرد سے کالعدم نہیں ہو سکتی۔ قرآن کریم نے امتوں کے متعلق ایک کلیہ بیان کیا ہے ”ولکل امة اجل۔ اذا اجلھم لایستاخرون ساعة ولا یستقدمون“ اقبال کہتا ہے کہ ملت اسلامیہ اس کلیہ سے مستثنیٰ ہے۔ جن امتوں کو ازمنہ ماضیہ میں اجل آئی یا آئندہ اجل کا شکار ہونگی ان کی اساس ابدی حقائق پر نہ تھی۔
اگر اسلام کا چراغ کفر کی پھونکوں سے بجھ نہیں سکتا تو لازم ہے کہ اس پر کاربند امت کا چراغ حیات بھی ہمیشہ روشن رہے:
گرچہ ملت ہم بمیرد مثل فرد
از اجل فرماں پذیرد مثل فرد
امت مسلم ز آیات خداست
اصلش از ہنگامہ قالوا بلیٰ است
از اجل ای قوم بے پرواستے
استوار از نحن نزلناستے
تیرہ چودہ صدیوں میں ملت اسلامیہ پر قیامت خیز آفتیں آئیں،کبھی اپنے اعمال کی پاداش میں اور کبھی حوادث روزگار سے لیکن اس کی راکھ میں جو چنگاریاں تھیں ان کی بدولت پھر نئے سرے سے حرارت حیات پیدا ہوتی رہی۔
یورش تاتار سے صرف بغداد بلکہ عالمی اسلامی کے بیشتر حصے میں ایسی قیامت نازل ہوئی جو روما پر وحشی اقوام کے حملوں سے بھی طاری نہ ہوئی تھی۔ کفار،خلافت کے جذبے اور روح کو ٹھکرا کر مسند نشین ہو گئے۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسلام کا چراغ بجھ گیا ہے،لیکن دیکھتے دیکھتے یہی آتش تاتار گلزار ابراہیم بن گئی:
آتش تاتاریاں گلزار کیست
شعلہ ہاے او گل دستار کیست