Episode 129 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 129 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

عقل و عشق کا موازنہ اقبال کا ایک خاص مضمون ہے۔ حضرت امام حسین کے ذکر میں بھی شروع میں پندرہ اشعار عقل حیلہ کی تحقیر اور عشق کی مدح میں ہیں۔ اس موازنے میں نہایت لطیف نکات پیدا کئے ہیں۔ اقبال کا مقصود یہ ہے کہ حضرت امام حسین کے اندر عشق کی جذبہ انگیزی اور قوت ایثار کا نقشہ کھینچا جائے۔ اگر حضرت امام حسین میں صرف عقل مصلحت اندیش ہوتی تو کمزور ایمان والے مسلمانوں کی طرح وہ بھی خاموشی سے یزید کی ولی عہدی کو تسلیم کر لیتے۔
حریت اور عشق ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ حضرت سید الشہدا حریت کی حمایت میں انتہائی قربانی پر آمادہ ہوئے۔ یہ جذبہ بھی زندگی کے اعلیٰ اقدار کے عشق ہی کا مظہر ہے:
عشق را آرام جاں حریت است
ناقہ اش را سارباں حریت است
دنیا ہمیشہ خیر و شر کی قوتوں کا میدان کار زار رہی ہے۔

(جاری ہے)

موسیٰ علیہ السلام و فرعون اور حسین (رضی اللہ عنہ) و یزید زندگی کی دو مختلف قوتوں کے نمائندے ہیں۔

خلافت کو سلطنت بنا دینا گویا موسیٰ علیہ السلام کے خلاف فرعون کی حمایت کے مترادف تھا:
چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت
حریت را زہر اندر کام ریخت
حریت کا علم بردار سربکف اٹھا،وہ انسانیت کیلئے ایک سحاب رحمت تھا:
بر زمین کربلا بارید و رفت
لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت
تا قیامت قطع استبداد کرد
موج خون او چمن ایجاد کرد
ماسواللہ را مسلمان بندہ نیست
پیش فرعونے سرش افگندہ نیست
علامہ اقبال اپنی شاعری کی ابتدا میں وطنیت کے ترانے الاپ کر بصیرت اندوزی کے ساتھ اس بت پرستی سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔
اس انقلاب نظر کے بعد انہوں نے فارسی اور اُردو میں وطن پرستی کے خلاف ایک مسلسل جہاد کیا۔ رموز بے خودی میں بھی یہ مضمون ایک خاص انداز میں موجود ہے۔ اس سے پہلے وہ کہہ چکے ہیں کہ ملت اسلامیہ ایک ابد قرار ملت ہے کیونکہ اس کی تعلیم حیات ابدی کی تعلیم ہے اور اس کے اصول فطرت کے اصول ہیں جن کی نسبت قرآن میں ارشاد ہے:
”فطرة اللہ التی فطر الناس علیہا۔
لاتبدیل لحلق اللہ“ اس سے لازم آتا ہے کہ اس ملت میں کوئی نہایت زمانی نہ ہو۔ اس کے بعد علامہ فرماتے ہیں کہ لازمانی ہونے کی طرح یہ ملت لامکانی بھی ہے یہ کسی خطہٴ ارض کے ساتھ وابستہ نہیں:
پاک ہے گرد وطن سے سر داماں تیرا
تو وہ یوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
غیر یک بانگ درا کچھ نہیں ساماں تیرا
یہ بانگ درا وہی ”لا الہ الا اللہ“ ہے جس سے ماوریٰ کوئی حقیقت نہیں۔
مسلمان کا وطن اسلام ہے،جس طرح ایک مقتدر اصحابی نے اپنا نسب اسلام بتایا تھا۔ علامہ فرماتے ہیں کہ اسلام ایک روحانی نظریہ ہے اور اس خاک دان سے اس کا کوئی لازمی رشتہ نہیں۔
قلب ما از ہند و روم و شام نیست
مرزبوم او بجز اسلام نیست
رسول کریم (ﷺ) کو حضرت کعب نے قصیدے میں سیف الہند کہا جو فولاد کی خوبی اور تیزی کیلئے مشہور تھی۔
رسول کریم (ﷺ) نے کہا کہ سیف الہند نہیں سیف اللہ کہو۔ اس سے اقبال نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ وہ اپنے پیغام اور اسلام کو کسی خطہ ارض کے ساتھ وابستہ کرنا پسند نہ فرماتے تھے۔ اسی طرح اس دنیاے ارض کو ایک مشہور حدیث میں ’دنیا کم“ یعنی تمہاری دنیا کہا ہے۔ جس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ وہ اپنے تئیں اس عالم خاکی کا باشندہ نہ سمجھتے تھے۔ وہ یہاں چند روزہ مہمان اور مسافر تھے۔
ہجرت میں بھی یہ تعلیم مضمر تھی کہ اسلام کے مقابلے میں وطن کوئی چیز نہیں۔ رسول کریم(ﷺ) نے تمام روے زمین کو مسجد کہا۔ زمین کا کوئی مخصوص ٹکڑا یا مخصوص معبد ہی خدا کا گھر نہیں۔ جس طرح خدا کسی خطے میں محصور نہیں اسی طرح بندہ خدا کیلئے شرق و غرب برابر ہیں۔ ”واللہ المشرق و المغرب“ فایما تو لوا فتم وجہ اللہ“ خدا نے جس کی حفاظت کا ذمہ لیا تھا اس کو مکے سے بھاگنے کی کیا ضرورت تھی۔
مکے میں رہتے ہوئے بھی خدا دشمنوں کا قلع قمع کر سکتا تھا۔ ہجرت فقط وطن پرستی کے خلاف ایک موثر تلقین تھی:
صورت ماہی بہ بحر آباد شو
یعنی از قید مقام آزاد شو
ہر کہ از قید جہات آزاد شد
چوں فلک درشش جہت آباد شد
اسلام کا مقصود نوع انسان کی وحدت ہے۔ مغرب کی قومیت پروری اور وطن پرستی نے جغرافیائی حدود کے ادھر اور ادھر رہنے والوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنا دیا۔
اب مجلس اقوام بنا کر اس مہلک بیماری کا علاج کرنا چاہتے ہیں لیکن اصل علاج تب ہوگا جب مجلس اقوام کی جگہ مجلس انسان بنے گی۔ موجودہ مجلس میں تو اقوام ہی کی رسہ کشی اور حیلہ سازی نظر آتی ہے اور ظاہری کوشش صلح ’گرگ آشتی‘ ہے۔ اصل خلل زاویہ نظر میں ہے:
آں چناں قطع اخوت کردہ اند
بر وطن تعمیر ملت کردہ اند
مردی اندر جہان افسانہ شد
آدمی از آدمی بیگانہ شد
روح از تن رفت و ہفت اندام ماند
آدمیت کم شد و اقوام ماند
مغرب میں دین کو کچھ مادیت نے سوخت کیا اور کچھ وطنیت نے جو مادیت ہی کی ایک صورت ہے۔
وطن پرستی اور مملکت پرستی نے مغرب میں شیطان کا ایک مرسل بھیج دیا جس کا نام میکیا ویلی ہے۔ اس نے یہ تلقین کی کہ وطن اور مملکت کی حمایت اور قوت افزائی کیلئے عدل و اخلاق کو بالاے طاق رکھ دینا چاہئے۔ فرنگ اسی مرسل شیطان کے صحیفے کا معتقد اور اسی پر عامل ہے۔ فرنگیوں کے ہاں مملکت معبود بن گئی ہے۔ مسلمانوں نے بھی اگر اس کی تقلید کی تو وہ بھی دین سے بیگانہ ہو جائیں گے۔
اس کے بعد اقبال پھر اس خیال کی طرف عود کرتا ہے کہ ملت اسلامیہ کبھی زمانے کی دستبرد سے کالعدم نہیں ہو سکتی۔ قرآن کریم نے امتوں کے متعلق ایک کلیہ بیان کیا ہے ”ولکل امة اجل۔ اذا اجلھم لایستاخرون ساعة ولا یستقدمون“ اقبال کہتا ہے کہ ملت اسلامیہ اس کلیہ سے مستثنیٰ ہے۔ جن امتوں کو ازمنہ ماضیہ میں اجل آئی یا آئندہ اجل کا شکار ہونگی ان کی اساس ابدی حقائق پر نہ تھی۔
اگر اسلام کا چراغ کفر کی پھونکوں سے بجھ نہیں سکتا تو لازم ہے کہ اس پر کاربند امت کا چراغ حیات بھی ہمیشہ روشن رہے:
گرچہ ملت ہم بمیرد مثل فرد
از اجل فرماں پذیرد مثل فرد
امت مسلم ز آیات خداست
اصلش از ہنگامہ قالوا بلیٰ است
از اجل ای قوم بے پرواستے
استوار از نحن نزلناستے
تیرہ چودہ صدیوں میں ملت اسلامیہ پر قیامت خیز آفتیں آئیں،کبھی اپنے اعمال کی پاداش میں اور کبھی حوادث روزگار سے لیکن اس کی راکھ میں جو چنگاریاں تھیں ان کی بدولت پھر نئے سرے سے حرارت حیات پیدا ہوتی رہی۔
یورش تاتار سے صرف بغداد بلکہ عالمی اسلامی کے بیشتر حصے میں ایسی قیامت نازل ہوئی جو روما پر وحشی اقوام کے حملوں سے بھی طاری نہ ہوئی تھی۔ کفار،خلافت کے جذبے اور روح کو ٹھکرا کر مسند نشین ہو گئے۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسلام کا چراغ بجھ گیا ہے،لیکن دیکھتے دیکھتے یہی آتش تاتار گلزار ابراہیم بن گئی:
آتش تاتاریاں گلزار کیست
شعلہ ہاے او گل دستار کیست

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط