Episode 84 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 84 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

بروننگ،بائرن،غالب اور رومی کے نظریات حیات ایک ایک شعر میں اس طرح بھر دیئے ہیں کہ دریا کوزے میں آ گیا ہے۔ روحی میلان،جوش حیات اور تعمیر خودی بروننگ کے کلام کا امتیازی جوہر ہے۔ طالب علمی کے زمانے میں اپنی ایک نظم میں نے کشمیر سے علامہ اقبال کو بھیجی تھی،اسے پڑھ کر علامہ نے مجھے لکھا کہ تخیل پر قابو رکھنا چاہئے تاکہ وہ عنان گسیختہ نہ ہو جائے اور اس کے علاوہ ایک مشورہ بھی دیا تھا کہ بروننگ پڑھا کرو۔
بائرن میں وہ چیز نہ تھی جسے روحانیت کہہ سکیں۔ اس کا میلان زیادہ تر لذت پرستی اور قوت پرستی کی طرف معلوم ہوتا ہے۔ گوئٹے نے بھی غالباً ایکڑمن سے باتیں کرتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ بائرن کے کلام میں قوت کا غیر معمولی مظاہرہ ہے۔ اس کے اخلاقی یا غیر اخلاقی ہونے سے قطع نظر کرتے ہوئے یہ امر تو حقیقی ہے کہ قوت کائنات کی فطرت کا اساسی عنصر ہے اور اسی لئے انسانی طبیعت بھی اس سے متاثر ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

غالب کے ہاں زندگی کی تلخیوں کے باوجود گوارائی حیات موجود ہے،بلکہ وہ زندگی میں تلخی کے اضافے کا خواہش مند معلوم ہوتا ہے۔ فارسی میں غالب کی ایک بلند پایہ غزل ہے جس کا مطلع ہے:
رفتم کہ کہنگی ز تماشا بر افگنم
در بزم رنگ و بو نمطے دیگر افگنم
اس تمام غزل میں ایک ہی موڈ یا کیفیت طبع محسوس ہوتی ہے۔ بروننگ،بائرن اور رومی تینوں اسی زمین میں ایک ایک شعر کہہ کر اپنا نظریہ پیش کرتے ہیں۔
اقبال کا مقصد یہ ہے کہ ان تینوں پر رومی کا تفوق ثابت کیا جائے:
بروننگ
بے پشت بود بادہ سر جوش زندگی
آب از خضر بگیرم و در ساغر افگنم
بائرن (جو روحانی رہنماؤں کا قائل نہیں اور اپنے خون جگر میں سے فیض حاصل کرنا چاہتا ہے)۔
از منت خضر نتواں کرد سینہ داغ
آب از جگر بگیرم و در ساغر افگنم(غالب)
تا بادہ تلخ تر شود و سینہ ریش تر
بگدازم آبگینہ و در ساغر افگنم(رومی)
آمیزشے کجا گہر پاک او کجا
از تاک بادہ گیرم و در ساغر افگنم
روحانی قوت اور جوش و مستی نہ خضر سے طلب کرو اور نہ اپنے جگر سے اور نہ مے انگور کے ساغر سے،جس کی تیزی اور تلخی میں اضافہ بھی کچھ کام نہ آئے گا۔
الوہیت کے تاکستان سے براہ راست انگور توڑو اور اس کا افشردہ پیو۔
مرشد رومی کی مریدی کے اشعار اقبال کے کلام کے تمام مجموعوں پر پھیلے ہوئے ہیں اور جاوید نامے میں تو شروع سے آخر تک وہی رہبر ہے۔ اقبال کو اپنا نظریہ حیات اور میلان طبع غیر معمولی بصیرت اور جوش کے ساتھ فقط رومی میں نظر آیا۔ اگر رومی کا نظریہ فکر و عمل اور اس کا عشق تصوف کہلا سکتا ہے تو اقبال کے صوفی ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے؟ اقبال کو رفتہ رفتہ یہ احساس پیدا ہو گیا تھا کہ اس دور میں میں اس کا خلیفہ ہوں اور مجھے بھی اس کی طرح کی ظاہر پرستی اور فلسفے اور سائنس کی مظاہر پرستی کے خلاف جہاد کرنا اور انسانوں کی زندگی میں دوبارہ عشق کو سرچشمہ حیات بنانا ہے،جس سے حقیقی بصیرت اور قوت پیدا ہو سکتی ہے اور اگر شرق و غرب دونوں کی تہذیبیں اس نظریہ زندگی کی طرف نہ آئیں تو دونوں کی خیریت نہیں۔
فردوس میں سنائی نے رومی سے کہا کہ مشرق میں درویشی کاسہٴ آش ہی رہ گئی ہے اور صوفی و فقیر کہلانے والوں میں بھی اس خودی کا احساس نہیں جو خدا سے ہم کنار کرتی ہے۔ حلاج جس نے انا الحق کہہ کر خودی کی ماہیت کو حق قرار دیا تھا وہ بھی وہاں موجود تھا۔ وہ بول اٹھا کہ ایک مرد قلندر مشرق میں پیدا ہوا ہے اس نے پھر راز خود کو فاش کیا ہے اس لئے وہاں تجدید حیات کی امید ہو سکتی ہے:
فردوس میں رومی سے یہ کہتا تھا سنائی
مشرق میں ابھی تک ہے وہی کاسہ وہی آش
حلاج کی لیکن یہ روایت ہے کہ آخر
اک مرد قلندر نے کیا راز خودی فاش
آخر میں رومی کی ملت اسلامیہ کے مرض ضعف کی تشخیص اقبال کی زبانی پیش کرکے ہم رومی کی مرشدی اور اقبال کی مریدی سے رخصت ہوتے ہیں:
رومی
غلط نگر ہے تری چشم نیم باز اب تک
ترا وجود ترے واسطے ہے راز اب تک
ترا نیاز نہیں آشناے ناز اب تک
کہ ہے قیام سے خالی تری نماز اب تک
گستہ تار ہے تیری خودی کا ساز اب تک
کہ تو ہے نغمہ رومی سے بے نیاز اب تک
اس انتخاب سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ اقبال کے ہاں رومی کا تصوف بدرجہ اتم بلکہ بیان کی کچھ مزید لطافتوں کے ساتھ موجود ہے۔
اب ذرا اس پر بھی نظر ڈال لیں کہ اقبال جس تصوف کا مخالف ہے وہ کیا چیز ہے۔
مسلمان صوفیہ کے افکار اور تاثرات میں بعض ایسے عناصر داخل ہو گئے جو اسلام کی اصل تعلیم کے اندر سے نہ ابھرے تھے،بلکہ ان ادیان اور فلسفوں کے راستے سے داخل ہوئے تھے،جن میں روحانیت تجریدی ہوتے ہوتے حیات گریز ہو گئی تھی۔ عیسائیت بھی ابتدائی صدیوں میں رہبانیت تھی اور بعد میں عملاًتو نہیں،لیکن عقیدةً زندگی اور فطرت کو حقیر،غیر اصلی اور شیطانی مظہر سمجھ کر اس سے گریز ہی کی تلقین کرتی رہی ہے۔
فرنگ کی زندگی میں یہی زبردست تضاد موجود ہے،جو اکثر عیسائیوں کے نفوس کے اندر ابھی تک کشا کش پیدا کرتا ہے کہ ایک طرف کمال درجے کی مادی ترقی اور لذت پرستی ہے اور دوسری طرف دینی عقائد میں وہی رہبانیت کا رنگ موجود ہے۔ بعض مستشرقین نے یہ لکھا ہے کہ شروع میں مسلمان صوفی عیسائی راہبوں کی تقلید سے پیدا ہوئے اور وہ بھی عیسائی راہبوں کی طرح یا غار و کوہ میں خلوت نشین ہو گئے یا خانقاہوں میں مشاغل حیات کو ترک کرکے روحانی مشقتیں کرنے لگے۔
 ہندو مت اور بدھ مت دونوں نے زندگی سے فرار ہی سکھایا اور بھکشو اور سادھو کو،جو معاشرت کے کسی کاروبار میں حصہ نہ لے اور نہ تاہل کا بار اپنے کندھوں پر ڈالے،دوسرے انسانوں سے افضل سمجھا،جس کا مطلب یہ ہے کہ درویش کی زندگی انسانوں کا نصب العین بن گئی۔ ہندوؤں اور بدھوں میں تواحدیت اور تنزیہ نے اس توحید کو فنا کر دیا جس میں ایک خدا سے انسان کا شخصی رابطہ ہوتا ہے،خواہ وہ عابد و معبود کا رشتہ ہو اور خواہ عاشق و معشوق کا۔
عیسائیت میں اس کے برعکس توحید کے اندر اس وقت تجسیم اور تشبیہ داخل ہو گئی کہ خداے مجسم سمجھ کر ایک انسان کی پوجا دین بن گئی۔ اس دنیا اور انسانی معاشرت سے اس کو بھی کوئی واسطہ نہ رہا۔ ایک طرف پجاری انسان اور دوسری طرف مجسم خدا رہ گیا۔ دنیا اور اس کے مشاغل تلبیس ابلیس بن گئے۔ یہاں تک کہ از منہ متوسطہ میں راہبوں نے جسمانی طہارت بھی ترک کر دی کہ جسم کی طرف توجہ کرنے سے روحانیت اور توجہ الی اللہ میں خلل آتا ہے۔
یہ غیر اسلامی عناصر جابجا مسلمانوں کے تصوف کے اندر داخل ہو گئے۔ یہاں نفس کشی اور مشق فنا دین بن گئی۔ انسانی خودی گناہ کبیرہ قرار دی گئی اور ”وجودک ذنب“ اس غیر اسلامی تصوف کا مسلمہ عقیدہ بن گیا:
گو لاکھ سبک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہے سنگ گراں اور
کسی نے کہا کہ منصور کو اس لئے مصلوب کیا گیا کہ وہ حق کے ساتھ انا بھی کہتا تھا اور حق کے ساتھ انا کا احساس ایک ناقابل معافی اور قابل تعزیر جرم تھا۔
تصوف کی تمام شاعری فلسفیانہ نہ ہونے سے زیادہ عشقیہ شاعری ہے،لیکن عشق کا رنگ اور اس کا تقاضا مختلف صوفیوں میں مختلف نظر آتا ہے۔ اقبال رومی کے عشق کا قائل ہے مگر اور بہت سے صوفیہ ہیں جن کے عشق میں اس کو انسان کی خودی اور تمام فطرت سوخت ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اقبال کے ہاں خدا کا عشق انسانوں کی محبت کے منافی نہیں بلکہ اس کا بہترین مظہر انسانوں کی باہمی محبت ہے۔ وہ اخوت کی جہاں گیری اور محبت کی جہانبانی چاہتا ہے۔ اس کے خلاف بعض صوفیہ کے عشق کا یہ حال ہے کہ خدا کا عشق مجرد اور الگ ہو کر دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ مثلاً ابو سعید ابو الخیر فرماتے ہیں:
صحراے دلم عشق تو شورستاں کرد
تا مہر کسے دگر نہ روید ہرگز

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط