تیسرا باب
۱۹۰۵ سے ۱۹۰۸ تک
یہ زمانے اقبال کے قیام فرنگ کا زمانہ ہے۔ یورپ کا سفر مختلف قسم کے انسان مختلف اغراض اور محرکات کی وجہ سے کرتے ہیں،کوئی سیر و تفریح کی خاطر جاتا ہے،کوئی تجارت کی غرض سے،کوئی علوم و فنون کے حصول کیلئے اور کوئی جدید تہذیب و تمدن کا جلوہ دیکھنا چاہتا ہے۔ بقول اکبر الہ آبادی:
سدھاریں شیخ کعبے کو ہم انگلستان دیکھیں گے
وہ دیکھیں گے خدا کو ہم خدا کی شان دیکھیں گے
اقبال نے روانگی کے وقت فقط اس مقصد کا اظہار کیا کہ وہ حصول علم کی خاطر ادھر کا رخ کر رہا ہے:
چلی ہے لے کر وطن کے نگار خانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو
وہاں ایک عرصہ رہ کر اور اس شراب کے نشے کا تجربہ کر چکنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ اس نشے میں سوز و گداز کی کیفیت نہیں اور وہ غم عشق نہیں جس سے روح اپنی غذا حاصل کرتی ہے:
پیر مغاں! فرنگ کی مے کا نشاط ہے اثر اس میں
وہ کیف غم نہیں مجھ کو تو خانہ ساز دے
اقبال اساسی طور پر ایک مشرقی انسان تھا،وہ مشرقی روحانیت کا دلدادہ تھا،تمام مذاہب حالیہ مشرق ہی کے مختلف خطوں میں پیدا ہوئے ہیں،مشرق ہمیشہ سے ادیان کا گہوارہ اور روحانیت کا سرچشمہ رہا ہے،مشرق نے دنیاوی تمدن اور تہذیبیں بھی اعلیٰ درجے کی پیدا کیں،اس نے علوم و فنون بھی پیدا کئے،بڑی بڑی ملکی فتوحات بھی کیں،وسیع سلطنتیں بھی یہاں قائم ہوئیں،پیغمبروں،رشیوں اور منیوں کے ساتھ چنگیز،ہلاکو اور تیمور جیسے سنگ دل شمشیر زن بھی یہیں پیدا ہوئے،لیکن ان تمام جلوؤں اور ہنگاموں کے باوجود مشرق کے بلند ترین نفوس مادیت سے روحانیت کی طرف گریز کرتے رہے،بڑے بڑے کشور کشا بھی روحانی انسانوں کے سامنے سر تسلیم خم کرتے رہے۔
(جاری ہے)
اکبر اعظم جیسا کشور کشا اور دنیوی سیاست کا مدبر بھی ننگے پاؤں چل کر سلیم چشتی جیسے درویش کے پاس پہنچا کہ اس سے اولاد نرینہ کیلئے دعا کرائے اور جہانگیر جب بموجب عقیدہ اکبر اس درویش کی دعا سے عالم وجود میں آیا تو اس کا نام بھی اسی درویش کے نام پر رکھا۔ شاہ جہان قیصر و کسریٰ کی شوکت کو مات کرنے کیلئے نو کروڑ روپے کی لاگت سے جواہرات سے مرصع تخت طاؤس بناتا ہے لیکن اس پر جلوس کرنے سے قبل تخت کے سامنے زمین پر سر بہ سجود ہو کر خدا سے کہتا ہے کہ فرعون آبنوس کے تخت پر بیٹھتا تھا اور خدائی کا دعویٰ کرتا تھا،میں اس مرصع تحت پر بیٹھنے سے قبل عجز و بندگی کا اظہار کرتا ہوں۔
شاید کوئی یہ کہے کہ ایسا تخت بنوانا کہاں کی بندگی اور کہاں کی عاجزی ہے؟ لیکن یاں صرف یہ بات قابل غور ہے کہ ایک مشرقی انسان شوق شکوہ کے رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے قلب کی گہرائیوں میں اس خدا سے بھی رابطہ قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے جس کے سامنے تمام دنیاوی شوکتیں ہیچ ہیں اور جس تک رسائی فقط درویشی ہی کے راستے سے ہو سکتی ہے۔
مشرقی انسان کیلئے شاعری بھی وہی اثر آفرین ہوتی ہے جس میں روحانیت کی چاشنی ہو،سنائی اور عطار اور رومی کی گرفت مشرقی انسانوں کے قلوب پر،فردوسی و انوری و خاقانی سے بدرجہا زیادہ ہے۔
اقبال کو یورپ جانے سے قبل بھی انگریزی شاعری کے بہت سے انداز پسند تھے اور اس نے مغربی سانچوں سے بہت کچھ فائدہ بھی اٹھایا لیکن مغربی افکار پر بھی مشرقی روحانیت کا رنگ چڑھتا گیا اور اس طرح شرق و غرب کے امتزاج سے نئے مرکبات پیدا ہوئے لیکن مشرقی عنصر ہمیشہ غالب رہا۔
اقبال کو یورپ میں رہنے،حکمت فرنگ سے گہرا تعلق پیدا کرنے اور اس کی تہذیب و تمدن کا براہ راست مشاہدہ کرنے سے طرح طرح کے فائدے پہنچے۔
اقبال کی نظر آغاز ہی سے محققانہ تھی،اس لئے اس کی زندگی میں مغرب کی کورانہ تقلید کا کوئی شائبہ پیدا نہ ہو سکتا تھا۔ اس نے یورپ کے سطحی جلوؤں کو بھی دیکھا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس کے باطن پر بھی گہری نظر ڈالتا گیا،اس نے فرنگ میں علم و ہنر کے کمالات اور انسانی زندگی کی بہبود کیلئے ان کے مفادات کو بھی دیکھا لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس سے بھی آگاہ ہو گیا کہ اس تعمیر میں ایک خرابی کی صورت بھی مضمر ہے۔
یورپ میں اس نے عقل کی کرشمہ سازیاں بھی دیکھیں لیکن اس کے ساتھ ہی اس کو نظر آیا کہ اس علم و فن کی نظر زیادہ تر تن کی طرف ہے من کی طرف نہیں،دماغ کی تربیت ہوتی ہے مگر دل تشنہ و گرسنہ رہ جاتا ہے:
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کے مانند
مگر یہ خلد بس جنت نگاہ اور فردوس گوش ہے جس کے گرویدہ ہونے کا عبرت انگیز انجام غالب #نے بھی آخر عمر میں ایک قطعے میں بیاں کیا تھا:
اے تازہ وردان بساط ہواے دل
زنہار اگر تمہیں ہوس نا و نوش ہے
اقبال نے دیکھا کہ فرنگ کی زیر کی مادی مفاد اندوزی میں اس عشق سے بے گانہ ہو گئی ہے جو انسانی روح کے اندر زندگی کی لامتناہی اقدار کا خلاق اور حقیقی ارتقائے حیات کا ضامن ہے۔
یورپ میں جو اس کو تجلی نظر آئی اس کی مشرقی بصیرت نے اس کے متعلق فتویٰ دیا:
ہنگامہ گرم ہستی ناپائیدار کا
چشمک ہے برق کی تبسم شرار کا
سید احمد خاں ہوں یاان کے شرکاء کار،شبلی و حالی، چراغ علی،نذیر احمد یا مولوی ذکاء اللہ،ان سب کو مغربی تہذیب کا روشن پہلو ہی نظر آیا تھا،وہ اس کی تعریف میں رطب اللسان اور اس کی تجلی سے مرعوب و مغلوب تھے،وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ محسوس کرتے تھے کہ تہذیب و تمدن اور علوم و فنون ہی نہیں بلکہ اخلاق کے معیار بھی مغرب ہی سے حاصل کرنے چاہئیں،ان میں سے ہر شخص اپنی تحریروں میں،نثر یا نظم میں جب شرق و غرب کاموازنہ کرتا ہے تو نہایت درجہ احساس کمتری کے ساتھ مغرب کی برتری کو تسلیم کرتا ہے،دین کے مقابلے میں عیسوی عقائد کو چھوڑ کر باقی ہر چیز میں مغرب کی تقلید کو ترقی کا واحد راستہ سمجھتا ہے۔
اقبال میں یہ مغرب زدگی یورپ جانے سے پہلے بھی نہ تھی لیکن یورپ کے حقائق کے متعلق عین الیقین اور حق الیقین کے پیدا ہونے کے بعد اقبال کی طبیعت میں مغرب کے خلاف ایک زبردست ردعمل پیدا ہوا۔ یورپ کی ترقی زیادہ تر عقلی ترقی تھی اس لئے اس نے اس طبیعیات میں گھری ہوئی عقل کے خلاف ہی جہاد شروع کر دیا جو اس کے آخری لمحہ حیات تک پورے جوش و خروش کے ساتھ قائم رہا۔
اقبال نے یورپ میں نظمیں بہت کم کہیں،اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ وہاں فلسفہ کی تعلیم و تحقیق اور تصنیف کیلئے مواد جمع کرنے میں منہمک رہا۔ شاعری کیلئے جس قسم کی فرصت اور فراغ قلب کی ضرورت ہے،وہ اس کو میسر نہ تھی اور یورپ کی جدوجہد کو دیکھ کر یہ خیال بھی طبیعت میں گردش کرنے لگا:
جو کام کچھ کر رہی ہے قومیں انہیں مذاق سخن نہیں ہے
لیکن اقبال جیسے فطری شاعر کیلئے بالکل سکون بھی ممکن نہ تھا۔
اس زمانے کی نظموں میں بھی جو تعداد میں بہت کم ہیں ہر رنگ کی شاعری ملتی ہے حسن اور عشق پر اعلیٰ درجے کی نظمیں موجود ہیں۔ یہ ناممکن تھا کہ جوان شاعر فرنگ میں حسن نسوانی سے متاثر نہ ہو،چنانچہ بعض نظمیں مخصوص محبوبوں کے متعلق ہیں۔ اِن نظموں میں ایک لاجواب نظم ”حسن و عشق“ کے عنوان سے ہے جس میں حسن و عشق کا فلسفہ نہیں بلکہ کسی ایک حسین کے حسن سے پیدا شدہ تاثر ہے۔
ویسے تو اُردو اور فارسی کا تمام تغزل عاشقانہ شاعری میں ہے لیکن اُردو اور فارسی کے کسی شاعر کے کلام میں اس قسم کی لطیف عاشقانہ غزل یا نظم نہ ملے گی:
جس طرح ڈوبتی ہے کشتی سیمین قمر
نور خورشید کے طوفان میں ہنگام سحر
جیسے ہو جاتا ہے گم نور کا لے کر آنچل
چاندنی رات میں مہتاب کا ہم رنگ کنول
جلوہ طور میں جیسے ید بیضاے کلیم
ہے ترے سیل محبت میں یونہی دل میرا