Episode 88 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 88 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اقبال نے جس غیر اسلامی تصوف کی بیخ کنی کو اپنا فرض قرار دیا اس کی تعلیم روایتی تصوف میں جا بجا پھیلی ہوئی ہے۔ اس سے انسان کی خودی بے حقیقت ہو جاتی ہے اور اختیار مطلقاً سوخت ہو جاتا ہے۔ اس تصوف میں عشق کے اندر کوئی فعالی کیفیت نہیں رہتی۔ وہ سراسر ایک انفعالی تاثر رہ جاتاہے جس کا مقصد کمال عجز سے اپنی انفرادیت کو سوخت کر دین اہے۔ اس تمام تعلیم کا لب لباب بھی یک جا ”گلشن راز“ سے زیادہ اور کہیں نہیں ملتا۔
محمد حسین آزاد کا ایک شعر ہے:
جہاز عمر رواں پر سوار بیٹھے ہیں
سوار خاک ہیں بے اختیار بیٹھے ہیں
”گلشن راز“ کے مندرجہ ذیل اشعار میں پہلے شعر میں مضمون کچھ اسی کے مماثل ہے:
تو می گوئی مرا ہم اختیار است
تن من مرکب و جانم سوار است
کدامی اختیار اے مرد جاہل
کسے را کو بود بالذات باطل
چو بود تست یکسر ہمچو نابود
نگوئی اختیارات از کجا بود
موثر حق شناس اندر ہمہ جاے
منہ بیرون ز حد خویشتن پاے
چناں کاں پیش یزداں اہرمن گفت
مریں نادان احمق ما و من گفت
بما افعال را نسبت مجازی است
نسب خود در حقیقت لہو و بازی است
آخر میں جو استدلال کیا ہے وہ بالکل مہمل ہے کہ اختیار نہ ہونے پر بھی انسان کو امر و نہی کی تعلیم دی گئی ہے۔

(جاری ہے)

اس مسکین کو مجبور ہونے پر بھی مختار قرار دیا گیا ہے۔ تکالیف شرعی سے یہ جبری کیسے منکر ہو سکتا تھا؟ اور بقول عارف رومی تکالیف شرعی اختیار کے بغیر مہمل ہو جاتے ہیں لیکن خود شبستری کو اپنی منطق کی لغویت کا کچھ احساس نہیں فرماتے ہیں:
ندارد اختیار و گشتہ مامور
زہے مسکیں کہ شد مختار و مجبور
بہ شرعت زاں سبب تکلیف کردند
کہ از ذات خودت تعریف کردند
اقبال کے پاس زندگی کی تمام بنیادی صداقتوں کی کسوٹی قرآن ہے اور تصوف میں سے بھی اس نے وہی چیزیں اخذ کی ہیں جن میں قرآنی نظریہ حیات کی وسعت اور گہرائی دکھائی دیتی ہے۔
اقبال کی توحید،توحید قرآنی ہے جو فلسفیانہ اور متصوفانہ وحدت الوجود سے متمائز ہے۔ وہ انسان کو صاحب اختیار ہستی سمجھتا ہے کیوں کہ قرآن اسے اپنے افعال پر ایک گونہ قدرت عطا کرتا ہے۔ اختیار ہی وہی امانت ہے جسے جمادی،نباتی اور حیوانی فطرت مجبور نے خطرناک سمجھ کر قبول نہ کیا۔ قرآن دنیا و مافیہا کو مایا یا فریب ادراک نہیں کہتا وہ ایمان اور عمل سے انسان کی خودی کو استوار کرنا چاہتا ہے۔
انسان کے اندر عشق الٰہی کو بھی خالق کی خاطر آفرید گار ہونا چاہئے۔ اسلام رہبانیت اور خانقاہ نشینی کا مخالف ہے۔ محبت الٰہی کا تقاضہ محض خلوت نہیں بلکہ جلوت بھی ہے۔ اقبال صوفیہ کار کے ساتھ عقیدت رکھتا ہے۔ لیکن جہاں کہیں اس کو ان کے فکر و نظر کا کوئی پہلو غیر اسلامی اور منافی حیات دکھائی دیتا ہے وہاں وہ بے باکانہ مخالفت بھی کرتا ہے۔
وہ رومی کا مرید بھی ہے لیکن محی الدین ابن عربی کا مخالف ہے،جس کی کتاب ”فصوص الحکم“ میں اس کو توحید سے زیادہ الحاد نظر آتا ہے۔ وہ بڑی عقیدت سے مجدد الف ثانی کے تصوف کا قائل ہے جس نے تصوف کو دوبارہ شریعت اسلامی سے ہم آغوش کرنے کی کوشش کی،کیونکہ دور اکبری میں ویدانت اور تصوف کی ہم نوائی اسلام کے بنیادی عقائد کی بیخ کنی کر رہی تھی جس سے اسلام کا نظام متزلزل ہو رہا تھا۔
 جس زمانے میں تصوف کا بہت زور شور تھا اس زمانے میں بھی غلط اندیش اور غلط کار صوفیوں کے خلاف خود بلند مرتبہ صوفیہ نے بہت کچھ لکھا ہے۔ اقبال نے ماضی کے تصوف پر بھی تنقید کی ہے اور زمانہ حال کے پیشہ ور مدعیان طریقت کا بھی پول کھولا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہ نکالنا چاہئے کہ وہ اس کا قائل ہے کہ تصوف نے اسلام کی کچھ خدمت نہیں کی۔ اگر اس کا یہ عقیدہ ہوتا تو وہ جابجا اپنے کلام میں صوفیہ کبار سے فیضان کا ثبوت نہ دیتا۔
صوفیہ کبارنے فقہا اور علماء ظاہر کے مقابلے میں عشق اور تزکیہ باطن کی تلقین کی اور اپنی زندگی کے نمونوں سے لوگوں کو متاثر کیا۔ لیکن اب جو زمانہ حال میں صوفی رہ گئے ہیں ان میں معدودے چند کے سوال اقبال کو معرفت و عشق کا فقدان دکھائی دیتا ہے۔ ان کے خلاف وہ جو کچھ کہتا ہے وہ تمام تصوف کی تنقیض نہیں بلکہ اس طرز فکر و عمل کی تردید ہے جس نے ادنیٰ درجے کی اقتدار پسندی کو روحانیت کا جامہ پہنا کر عوام کو دھوکے میں مبتلا کیا ہے۔
سچے درویش کبھی کسی زمانے میں دنیا سے ناپید نہیں ہوتے۔ وہ اب بھی کچھ ظاہر ہیں اور کچھ پنہاں۔ لیکن اقبال چاہتا ہے کہ اب اس درویشی کا رنگ بدل جائے۔ 
درویش صرف خلوت گزیں نہ ہو بلکہ خارجی اور باطنی فطرت کا رمز آشنا اور فکر و نظر میں انقلاب پیدا کرنے والا ہو۔ ایک روز فرماتے تھے کہ مجھے خانقاہ حضرت نظام الدین میں خواجہ حسن نظامی نے ایک صاحب سے متعارف کرایا اور فرمایا کہ یہ صاحب دل درویش ہیں۔
میں نے اس درویش سے پوچھا جکہ ملت اسلامیہ کے عروج و زوال اور اس کی موجودہ تباہ حالی پر بھی آپ نے غور کیا۔ اس کے متعلق آپ کی بصیرت کیا کہتی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ہم درویش ہیں اور اس قسم کی باتوں سے ہم واسطہ نہیں رکھتے۔ یہ کہہ کر فرمانے لگے کہ بتاؤ کہ اس قسم کے تصوف کو ہم کیا کریں۔ علامہ اقبال کو شوق تھا کہ اگر کوئی صاحب کسی صاحب کا پتہ دیں تو اس سے مل کر کچھ فیض حاصل کیا جائے اور کسی اہم سوال کا حل اس سے پوچھاجائے۔
اہم سوال ان کے ذہن میں ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ مسلمانوں کا برا حال کیوں ہے ور اس تباہ حالت سے وہ کب اور کیسے نکلیں گے؟ فقیر نجم الدین صاحب سے علامہ اقبال کے بہت دوستانہ تعلقات تھے۔ ان کے صاحب زادے نے احوال اقبال میں لکھا ہے کہ علامہ کو یہ خبر دی گئی کہ ایک سچا صاحب بصیرت درویش درگاہ علی ہجویری (داتا گنج بخش) میں آج کل آیا ہوا ہے۔ فقیر صاحب نے علامہ اقبال کو آمادہ کیا کہ مل کر چلیں گے اور اس سے کچھ پوچھیں گے۔
علامہ اس پر راضی ہو گئے۔ لیکن سوانح شکار کا بیان ہے کہ فقیر نجم الدین علامہ کو ہمراہ لے جانے کیلئے گئے تو دیکھا کہ وہ کچھ حیران سے بیٹھے ہیں۔ پوچھا کہ کیا معاملہ ہے تو علامہ نے فرمایا کہ وہ درویش خود یہاں آ گیا اور مجھ سے کہا کہ تمہارے سوال کا جواب یہ شعر رومی ہے۔ حالانکہ میں نے اس سے کوئی سوال نہ کیا تھا،مگر میرا ارادہ تھا کہ اگر ملوں تو یہ سوال پوچھوں گا:
ہر بناے کہنہ کاباداں کنند
اول آں تعمیر را ویراں کنند
اقبال اب درویشوں کو خلوت گزینی سے نکالنا چاہتا تھا تاکہ وہ مشاہدہ فطرت بھی کریں اور اصلاح ملت بھی:
بیا با شاہد فطرت نظر باز
چرا در گوشہ خلوت گزینی
ترا حق داد چشم پاک بینے
کہ از نورش نگاہے آفرینی
اقبال اس تصوف کو بے اثر سمجھتا ہے جو حق بینی اور عشق آفرینی کے بعد انسانوں کی زندگی میں انقلاب پیدا نہ کرے۔
چنانچہ جاوید نامے میں ”زندہ رود“ نے حلاج سے جو سوالات کئے ہیں ان کے جواب میں حلاج نے کہا ہے کہ درویشی جو انقلاب آفریں نہیں ہے وہ کسی کام کی نہیں۔ قلب کے اندر جو حق کا نقش پیدا ہو اسے باہر جہاں پر مرتسم ہونا چاہئے تاکہ مرد خدا کا دیدار عام ہو جائے۔
نقش حق اول بجاں انداختن
باز او را در جہاں انداختن
نقش جاں تا در جہاں گردد تمام
می شود دیدار حق دیدار عام
###

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط