Episode 111 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 111 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

سولہواں باب:
فنون لطیفہ
شروع میں اس امر کی کسی قدر وضاحت درکار ہے کہ کن فنون کو فنون لطیفہ کہتے ہیں اور دیگر فنون سے ان کو کون سے صفت ممتاز کرتی ہے۔ کچھ فنون ایسے ہیں جو انسان نے محض زندہ رہنے کی کوشش میں خاص ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کئے ہیں۔ انسان کو غذا چاہئے۔ شروع میں وہ غذا یا خود رو پھلوں سے حاصل کرتا تھا یا دوسرے جانوروں کا شکار کرکے۔
انسان کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے کہ وہ آلات ساز حیوان ہے۔ دوسرے حیوانوں کو فطرت ان کے اعضا ہی میں آلات مہیا کردیتی ہے۔ لیکن انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ فطرت کے عطا کردہ اعضا کے اعمال میں آلات سے اضافہ کرتا ہے تاکہ ان کی افادیت بڑھ جائے۔ ہزار ہا برس قبل کے تمدن حجری میں پتھر کے نوک دار ٹکڑے ملتے ہیں جو انسان کے اولین آلات جارحہ ہیں۔

(جاری ہے)

غاروں اور درختوں کی پناہوں سے نکل کر انسان کو سر چھپانے اور موسم کی شدت سے اور دام و دد کی حملہ آوری سے محفوظ رہنے کیلئے کاشانے بنانے پڑے۔ جیسے جیسے انسان کی حاجتیں بڑھتی گئیں اور اس کی طبیعت کی لطافتوں میں اضافہ ہوتا گیا ویسے ویسے حیاتیاتی افادیت کا دائرہ بھی وسیع ہوتا گیا۔ 
خالی مادی افادیت کے علاوہ اس کے ذوق جمال کو بھی ترقی ہوئی۔
یہ امر غور طلب ہے کہ یہ ذوق جمال انسان میں کب پیدا ہوا۔ اس کے ماخذ اور اس کی ابتدا پر غور کرنے کیلئے یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ آیا ذوق جمال انسانی ہی کی خصوصیت ہے یا حیوانات میں بھی پایا جاتا ہے۔ بلکہ حیوانات سے بھی اور آگے جا کر دیکھنا پڑے گا کہ نباتات میں بھی ذوق جمال کے مظاہر موجود ہیں یا نہیں۔ بعض حکماء اس کو اور دور تک لے گئے ہیں۔
ان کے نزدیک جمادات میں بھی حسن آفرینی موجود ہے۔ بعض کیمیائی عناصر یا مرکبات میں جو کرسٹل بنتے ہیں ان میں جیومیٹری کے بہت دلکش نقشے دکھائی دیتے ہیں اور ہر کرسٹل کا ایک ڈیزائن مقرر ہے جس سے وہ سرمو تجاوز نہیں کرتا۔ اکثر حکماء طبیعین کا عقیدہ ہے کہ زندگی جمادات کے اندر ہی سے مخصوص تراکیب عناصر کے پیدا ہونے کے بعد ظہور میں آئی ہے۔ زندگی جمادات میں خارج سے داخل نہیں کی گئی۔
بعض مفکرین ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ جمادی اور میکانکی مادے میں سے زندگی کا ظہور کسی طرح قابل فہم نہیں۔ اس کا کوئی ماخذ جمادات کے خارج ہی نہیں ہوگا۔ فیثا غورسی کہتے تھے کہ زندگی ہم آہنگی اور توازن کی ایک خاص صورت کا نام ہے اور ہم آہنگی اجرام فلکیہ کی حرکات اور گردشوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ ان گردشوں سے موسیقی پیدا ہوتی ہے،جسے ہمارے کان نہیں سن سکتے۔
فلسفہ مسلمانوں کے افکار میں بھی داخل ہو گیا تھا۔ اس کے زثر اثر غالب نے یہ شعر کہا ہے:
پیکر عشاق ساز طالع ناساز ہے
نالہ گویا گردش سیارہ کی آواز ہے
صوفیہ خدا یا ہستی مطلق کو حسن مطلق بھی کہتے ہیں،جس کا موجودات کے تمام مدارج اور تمام مظاہر میں بفرق مراتب ظہور ہوتا ہے۔ ”اللہ جمیل و یحب الجمال۔“ خدا خود جمیل ہے اور جمال سے محبت کرتا ہے۔
خدا کائنات میں جو صورت گری کرتا ہے اس میں حسن آفرینی کو کبھی نظر انداز نہیں کرتا۔
اس سوال کا جواب کہ انسان میں ذوق جمال کب اور کیوں کر پیدا ہوا،تمام فطرت کے مشاہدے سے مل سکتا ہے۔ حسن آفرینی اگر جمادات،نباتات اور حیوانات سب میں پائی جاتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ انسانیت کا دور اولیں بھی اس سے معرا ہو۔ انسان کے بچے آغاز طفولیت ہی میں اچھی آواز اور دلکش رنگوں کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
لوریاں،جن میں موسیقی ہوتی ہے ان کیلئے سکون آفرین اور خواب خوش کا ذریعہ بنتی ہیں۔ تجربے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جانوروں پر بھی موسیقی کا اثر ہوتا ہے۔ یورپ میں بعض جگہ یہ تجربہ کیا گیا کہ اگر دودھ دوہتے ہوئے ریڈیو لگا دیا جائے جس سے اچھی موسیقی نکل رہی ہو تو گائے دودھ زیادہ دیتی ہے۔ ذوق جمال سے موجودات کا کوئی درجہ اور کوئی پہلو مطلقاً معرا دکھائی نہیں دیتا۔
فرانس میں بعض مقامات پر ایسے غار برآمد ہوئے ہیں جن میں دیواروں پر اعلیٰ درجے کی تصویریں ان جانوروں کی بنی ہوئی ہیں جنہیں ناپید ہوئے کوئی پچاس ہزار برس گزرے ہوں گے۔ یہ زمانہ اس خطے میں سیلاب برف کا دور تھا اور دور وحشت کا انسان ان غاروں میں رہتا تھا۔ تلاش غذا میں بعض جانوروں کا شکار کرتا تھا۔ اس کے ذہن میں ان جانوروں کے نقشے مرتسم ہو گئے تھے اور اپنی طویل فرصت میں اس کا یہ شغل تھا کہ جو سامان بھی میسر تھا اور جو آلات بھی وہ بنا سکا تھا،ان کی مدد سے ان جانوروں کی تصویریں بناتا رہتا تھا۔
ان تصویروں میں نقش و نگار اس کمال اتقان سے بنائے گئے ہیں کہ یقین نہیں آ سکتا کہ دور وحشت کا بے تمدن انسان ایسی کاریگری کر سکتا تھا۔ بعض حکماء کا خیال ہے کہ حیوانی زندگی میں جمال جنسی جذبے نے پیدا کیا ہے۔ نر اور مادہ میں جنسی کشش کی شدید ضرورت تھی اس لئے فطرت جانوروں میں اس غرض کو پورا کرنے کیلئے جمال پیدا کرتی تھی۔ یہ نظریہ ڈارون کے نظریہ ارتقا میں بھی ملتا ہے اور اس کی نہایت ترقی یافتہ صورت فرائڈ کی نفسیات ہے۔
جس نے انسانی تہذیب و تمدن،مذاہب اور فنون لطیفہ،تمام کا ماخذ جنسی شہوت ہی کو قرار دیا ہے،جو ان تمام مظاہر میں ظہور پذیر ہوتی ہے۔ فرائڈ کے پاس ہر مظہر حیات کی توجیہ جنسی ہے جسے وہ لبیڈو کہتا ہے۔ ہر قسم کا حسن بھی لبیڈو ہی سے پیدا ہوتا ہے اور ہر قسم کے عشق کا پروردگار بھی یہی جذبہ ہے:
بہر رنگے کہ خواہی جامہ می پوش
من انداز قدرت را می شناسم
فنون لطیفہ شروع سے ہر قسم کے مذہب کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔
انسان کا بہترین فن تعمیر،جس میں حسن و عظمت کی آمیزش ہو،جو جمیل بھی ہو اور جلیل بھی،اس کے معبدوں میں نظر آتا ہے۔ سنگ تراشی،صنم تراشی اور مصوری بھی شروع سے مذہب کے ساتھ وابستہ رہی ہیں۔ مذہب کے تصورات میں بھی فن لطیف موجود ہے۔
اقبال کا نظریہ حیات اسلامی ہے،اس لئے اقبال کے کلام میں سے ان افکار کا انتخاب کرنا پڑے گا جہاں اس نے فنون لطیفہ کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور ان خیالات کو اسلامی نظریہ حیات سے وابستہ کیا ہے۔
اقبال خود ایک فن لطیف میں صاحب کمال تھا۔ شاعر ہونے کے علاوہ وہ حکیم بھی تھا اور فن لطیف کے ماخذ اور مقصود پر حکیمانہ نظر بھی ڈال سکتا تھا۔ اکثر بڑے بڑے شعرا ایسے گزرے ہیں جو اپنے فن میں کامل تھے،لیکن اس کی ماہیت کے متعلق انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ خوش قسمتی سے اقبال ان چند باکمالوں میں سے تھا جن کی طبیعت میں شعر اور حکمت کی ایسی لطیف آمیزش ہوتی ہے کہ ایک دوسرے سے الگ کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔
ایسے میں شاعر کے کلام پر یہ قول صادق آتا ہے کہ:
”ان من الشعر الحکمة و ان من البیان السحرا“
زاہدان خشک اور فقہائے بے ذوق نے اسلام کے عقائد کو اس انداز سے پیش کیا کہ معترضین کیلئے اس اعتراض کی گنجائش پیدا ہو گئی کہ اسلام میں قریباً تمام فنون لطیفہ حرام ہیں۔ اچھی شاعری کے متعلق تو ان کی زبان بند تھی کیوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود اچھے اشعار کی داد دیتے تھے اور اچھے اشعار کہنے پر شاعروں کی انعام و اکرام سے ہمت افزائی کرتے تھے۔
لیکن باقی فنون لطیفہ زہد خشک کی زد میں آ گئے۔ موسیقی جیسی روح پرور چیز مطلقاً حرام ہو گئی یا مکروہ،جس سے اجتناب تقوے کا تقاضا بن گیا۔ مسلمانوں میں بڑے بڑے صاحب کمال موسیقار گزرے ہیں لیکن یہ شغل ان کا فطری اور ذوقی تھا۔ راسخ الاعتقاد مذہبی طبقہ زیادہ تر اس سے گریز ہی کرتا رہا۔ روحانی طبقے میں بعض صوفیہ کی بدولت سماعت حلال ہو گیا،لیکن اس کے حلال و حرام ہونے کے متعلق اب تک بحث جاری ہے۔
 ہم نے بعض محلفوں میں دیکھا ہے کہ جہاں موسیقی شروع ہوئی وہاں سے کوئی خشک ملا سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا۔ موسیقی سے گریز کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک رفیع الشان عمارت میں چھت سے جھاڑ آویزاں تھے جن سے لٹکتے ہوئے بلور کے ٹکڑے جبنش ہوا سے ٹکرا ٹکرا کر دلاویز آواز پیدا کرتے تھے۔ ایک ملا وہاں موجود تھے۔ وہ لپک کر اس نغمہ زا جھاڑ کی طرف گئے اور اسے دونوں ہاتھوں سے ساکن کرنے کی کوشش کی تاکہ اس نغمے سے ان کی سمع خراشی اور دل خراشی نہ ہو۔
ایک اسی قسم کی محفل عروسی میں سے موسیقی شروع ہوتے ہی ایک شیخ الشیوخ جو ایک بڑی یونیورسٹی میں دینیات کے پروفیسر تھے،بیزار ہو کر فرار ہو گئے۔ اسی یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کے ایک اور پروفیسر جو جید عالم دین ہونے کے باوجود ذوق جمال سے معرا نہ تھے،وہ وہیں بیٹھے رہے۔ میں نے دریافت کیا کہ مفتی صاحب آپ کو موسیقی سے گریز نہیں؟ اس کے حلال یا حرام ہونے کے متعلق آپ کا کیا فتویٰ ہے؟ ان کا نام بھی عبد اللطیف تھا اور انہوں نے جواب بھی نہایت لطیف دیا کہ بھائی موسیقی اگر سریلی ہو تو حلال ہے اور اگر بے سری ہو تو حرام ہے۔
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کے علماے ظاہر میں فنون لطیفہ سے یہ بے تعلقی کیوں پیدا ہوئی؟ اس کا جواب کچھ مشکل نہیں۔ جواب کا پہلا حصہ یہ ہے کہ موسیقی ایک قسم کی نہیں ہوتی اور اس کا ذوق رکھنے والے انسان بھی ایک قسم کے نہیں ہیں۔ موسیقی جذبات انگیز چیز ہے۔ ہر قسم کے جذبات موسیقی کے ذریعے سے ابھارے جا سکتے ہیں۔ دنیا میں اکثر عشرت پسندوں نے اس کو ادنیٰ جذبات کی انگیخت کیلئے ہی استعمال کیا ہے۔
ایک چیز جس کا نہایت عمدہ استعمال بھی ممکن تھا،زیادہ تر شہوانی جذبات کا آلہ بن گئی۔ ادنیٰ انسانوں کی صحبت نے موسیقی کو غذاے روح بنانے کی بجائے غذاے شہوت بنا دیا۔ پرہیزگاروں کا ایسی صحبتوں سے اجتناب لازمی ہو گیا مگر صوفیہ نے جب اس کو روحانیت میں استعمال کیا تو نواے نے روح کی دمساز بن گئی۔ اخوان الشیاطین کے سازوں میں شیطان مضراب زن تھا،مگر خدا مست انسانوں کو چنگ و رباب میں سے آواز دوست سنائی دینے لگی۔
مولانا روم کا رباب کے متعلق مشہور شعر ہے:
خشک تار و خشک چوب و خشک پوست
از کجا می آید ای آواز دوست
کسی اور کا صوفیانہ شعر ہے:
کسانیکہ یزداں پرستی کنند
بر آواز دو لاب مستی کنند
اقبال کہتا ہے:
مہجور جناں حورے نالد بہ رباب اندر

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط