Episode 39 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 39 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

ساتواں باب:
مغربی تہذیب و تمدن پر علامہ اقبال کی تنقید
علامہ اقبال کے تبلیغی کلام میں دو چیزیں پہلو بہ پہلو ملتی ہیں،ایک تہذیب جدید پر مخالفانہ تنقید اور اس کے مقابلے میں اسلامی نظریہ حیات کی تعلیم۔
کم و بیش تین سو سال سے ایشیا مسلسل زوال پذیر رہا اور فرنگ میں فکر و عمل کی جدوجہد ترقی کرتی گئی،اسلامی دنیا میں تاتاری غارت گری کے بعد علوم و فنون نے ترقی کا کوئی قدم نہ اٹھایا،تصوف اور صوفیانہ یا متصوفانہ شاعری میں صاحبان کمال پیدا ہوتے رہے لیکن علمی ترقی بالکل رک گئی۔
مسلمانوں میں آخری بڑا مفکر ابن خلدون ہے جس کا زمانہ چودہویں عیسویں صدی ہے۔
 سیاست میں تو خلافت راشدہ کے بعد ہی ملوکیت اور مطلق العنانی شروع ہو گئی تھی،لیکن فقہ چودہویں صدی تک آزادانہ تفکر سے حالات کے تغیرات کے ساتھ ایک معتدل توافق پیدا کرتی رہی،اس کے بعد سے ائمہ مجتہدین بھی ناپیدا ہو گئے،تحقیق ختم ہو گئی اور تقلید کا دور دورہ شروع ہوا۔

(جاری ہے)

اس وقت سے لے کر آج تک راسخ العقیدہ مسلمان اسی یقین پر قائم ہیں کہ تفقہ فی الدین میں اجتہاد کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔ اسلامی فقہ میں چونکہ دین اور دنیاوی معاملات میں کوئی حد فاصل نہیں ہے اور زندگی کا ہر شعبہ بالواسطہ یا بلاواسطہ اسلامی عقائد کے زیر نگیں ہے اس لئے تحقیق و اجتہاد کا دروازہ بند ہونے کے یہی معنی تھے کہ اصول اور فروغ دونوں میں اب کسی کو نئے سرے سے سوچنے کی ضرورت نہیں۔
اسلاف کی کہی ہوئی باتوں کی فقط توضیع و تشریح اور حاشیہ نویسی علماء دین کا وظیفہ حیات بن گیا۔ حکومتوں میں استبداد اور مطلق العنان سلطانی کی وجہ سے سیاسی زندگی کی اصلاح کیلئے نہ افکار پیدا ہو سکتے تھے اور نہ کوئی انقلاب ممکن تھا،اس لئے مسلمانوں نے یہی شیوہ اختیار کر لیا کہ:
رموز مملکت خویش خسرواں دانند
گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش
سیاسی غلامی کا اثر انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو پر پڑتا ہے،سیاسی استبداد کے ساتھ ساتھ دینی استبداد کا پیدا ہونا لازمی تھا،مطلق العنان حکومتوں کو اسی میں اپنا استحکام نظر آتا ہے کہ عوام و خواص جامد اور مقلد رہیں اور تقلید و اطاعت کو اپنا شیوہ بنالیں۔
ارباب سیاست ہر جگہ اور ہمیشہ اس میں کوشاں رہے ہیں دین کو اپنے استبداد کا آلہ کار بنائیں،اس لئے دور استبداد میں علماء سو کی کثرت نظر آتی ہے جو حکمرانوں کی ہم زبانی کی بدولت فتویٰ فروشی سے اقتدار میں حصہ دار بن جاتے ہیں صرف یہی نہیں ہوتا کہ:
ہر کہ شمشیر زند سکہ بنامش خوانند
بلکہ ہر کامیاب تیغ زن کا خطبہ بھی مساجد کے ممبروں پر پڑھنا لازم ہو جاتا ہے،ہر فاتح خواہ وہ فاسق و فاجر ہی ظل اللہ بن جاتا ہے اور اگر اکبر کی طرح اپنے مجتہد اعظم ہونے کا فتویٰ طلب کرے تو سب علماء اس محضر پر دستخط کر دیتے ہیں،الا ماشاء اللہ۔
پھر کم ہی کوئی خدا کا آزاد بندہ ایسا دکھائی دیتا ہے جو سلطان جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرأت کر سکے۔
مسلمانوں کے سلطانی ادوار میں ملت اسلامیہ کی جب یہ حالت تھی اس زمانے میں مغرب کی عیسوی دنیا کا حال اس سے بدتر تھا۔ اسلام اس قدر انقلاب آفریں اور فلاح کوش تحریک تھی کہ کوئی چھ صدیوں تک مسلمان اسلام سے بہت کچھ گریز کرنے کے باوجود اقوام عالم میں پیش پیش رہے۔
اسلامی زاویہ نگاہ کا جو قلیل حصہ بھی حیات اجتماعی میں باقی رہ گیا تھا،اتنا حصہ بھی ملت اسلامیہ کو اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود معاصرانہ زندگی میں دوسروں سے کچھ قدم آگے ہی رکھتا تھا۔ 
اسلام کی پہلی چھ صدیاں علوم و فنون اور تہذیب و تمدن میں تاریخ انسانی کا ایک روشن باب ہیں،یہ زمانہ فرنگ میں مغربی تہذیب و تمدن کے جمود و زوال کا زمانہ ہے اور اس دور کو خود اہل فرنگ ”ازمنہ مظلمہ“ یعنی تاریکی کا دور کہتے ہیں۔
یونانی تہذیب و تمدن طلوع عیسائیت سے قبل ہی زوال پذیر تھا لیکن عیسائیت کے غلبے کے بعداس کی تمام شان و شوکت،نحوست و ادبار میں بدل گئی،کلیسا کے استبداد نے تحقیق اور آزادی فکر کا خاتمہ کر دیا،علوم و فنون کا چرچا ختم ہو گیا اور مسلمانوں کے مقابلے میں یورپ کی سیاسی قوت بھی اس قدر ضعیف پذیر ہوئی کہ یورپ کے تمام ملوک اپنے عساکر جمع کرکے بھی فلسطین میں ایک مسلمان مجاہد سلطان کے مقابلے میں کامیاب نہ ہو سکے۔
مغربی فرنگ میں اندلس پر مسلمان قابض ہو گئے جہاں انہوں نے ایک عظیم الشان تہذیب و تمدن پیدا کیا،جو تمام فرنگ کیلئے قابل رشک تھا اور علوم و فنون کے فرنگی شائق یہیں سے کسب فیض کرتے تھے۔ 
اندلس میں عربوں کے زوال پر فرنگ خوشیاں منا رہا تھا کہ عثمانی ترک یورپ کے مشرق میں داخل ہو گئے اور قسطنطنیہ کی فتح سے مشرقی روما کی بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔
سولھویں بلکہ سترھویں صدی تک یورپ مسلمانوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو بے بس پاتا تھا،ترکوں کی جہانگیری اور جہاں داری سیاسی حیثیت سے شاندار تھی،لیکن ان کے دور عروج میں مسلمانوں نے علوم و فنون میں ترقی کا کوئی قدم نہ اٹھایا۔ مذہب میں جمود اور استبداد بدستور قائم رہا اور فقہ میں اجتہاد کا دروازہ بند رہا۔ تو ترکوں کی عسکری قوت کو ابھی زوال نہ آیا تھا کہ مغرب میں بیداری شروع ہوئی۔
مغرب کی اس بیداری کی ابتداء کو نشاة ثانیہ کہتے ہیں کیونکہ مردہ یورپ میں نئی زندگی کے آثار پیدا ہوئے،ان کی طویل شب تاریک کے بعد افق پر روشنی کی کرنیں دکھائی دینے لگیں۔
 مغرب کے مورخ اس کا سبب زیادہ تر یہ بتاتے ہیں کہ مشرقی یورپ پر ترکوں کے قابض ہو جانے کی وجہ سے یونانی اور رومائی علوم و فنون کے ماہرین ہجرت کرکے اطالیہ اور مغربی فرنگ میں پھیل گئے،یونانی علوم کے ساتھ یونانی آزاد خیالی اور حکیمانہ تفکر بھی ساتھ آیا اور فنون لطیفہ کے اچھے نمونے بھی فنکاروں کیلئے سرمایہ حیات بنے۔
یونانی اور رومانی تہذیب،عیسوی رہبانی تہذیب کے مقابلے میں اس دنیا اور اس کی نعمتوں سے نفور نہ تھی،دنیاوی زندگی میں جمال پسندی اور عظمت پسندی اس کا شیوہ تھا اور مذہبی عقائد کے معاملے میں ہر گروہ کو کامل آزادی تھی۔ نشاة ثانیہ میں زندگی کے متعلق یہ تمام زاویہ نگاہ عود کر آیا۔ کلیسا کا اثر و رسوخ ابھی بہت کچھ باقی تھا لیکن فرنگ میں ذوق حیات کی ایک لہر دوڑنے لگی،زمانہ حال میں مغرب کے بعض مورخین نے فراخدلی سے اور آزاد تحقیق سے اس کا اقرار کیا ہے کہ فرنگ کی نشاة ثانیہ میں اسلامی علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کا ایک موثر حصہ ہے۔
 یورپ نے اس بیداری کے آغاز میں پہلے یہ کیا کہ علوم و فنون میں عربی کتابوں کے ترجمے لاطینی زبان میں کئے اور ایک عرصے تک یہی ترجمے مغرب کا علمی سرمایہ تھے۔ یونانی علوم کو بہت کچھ مسلمانوں نے محفوظ کیا تھا اور جابجا اپنے اجتہاد سے ان میں اضافہ کیا تھا۔ یونانیوں کی بہت سی اصلی کتابیں جو اب ناپید ہیں فقط عربی حکما کی تصانیف میں ان کا کھوج ملتا ہے۔
فقط یونانیوں کی کتابیں یا ان کے عربی ترجمے ہی اس نشاة ثانیہ میں نئی زندگی کے محرک نہیں ہوئے بلکہ مسلمانوں سے مغرب نے اس چیز کو بھی حاصل کیا جسے طبیعی اور تجربی علم یا سائنس کہتے ہیں۔
مسلمانوں نے علوم و فنون کا مدار مشاہدے اور تجربے پر رکھا تھا اور یہ بات یونانیوں کے ہاں الشاذ کالمعدوم تھی۔ یونانیوں کا عقیدہ تھا کہ حقائق عالم محسوسات سے حاصل نہیں ہوتے،ان کا مستقل وجود عالم عقلی میں ہے اس لئے خالی تعقل کی ترقی اور منطقی وجود استدلال سے انسان حقیقت رس ہو سکتا ہے۔
ریاضیات جو طبیعیات کی اساس ہے،یونانیوں میں بہت ترقی یافتہ نہ تھی،مسلمان ریاضیات کے بعض اہم شعبوں کے موجد ہیں۔ الجبرا (جبر و مقابلہ) مسلمان کی ایجاد ہے۔ یونانیوں اور مغربیوں کے ہاں ارتھمیٹک ابتدائی صورتوں سے آگے نہ بڑھ سکتی تھی،صفر کا علم نہ تھا جس کی بدولت اکائی،دہائی،سینکڑہ،ہزار سے لے کر لامتناہی تک رقم لکھ سکتے ہیں۔ اس ایجاد کا سہرا اصل میں ہندوؤں کے سر ہے،مسلمانوں نے اس کو ہندوؤں سے حاصل کرکے مغرب کو سکھایا۔
جس کی بدولت ہر قسم کی جمع تفریق اور تقسیم آسان ہو گئی۔
 اہل مغرب اس کو عربی رقم کہتے ہیں لیکن ہندسہ دراصل ہند سے آیا ہے۔ سارٹون نے جو سائنس کی مبسوط تاریخ لکھی ہے اس میں ریاضیات اور تجربی سائنس میں مسلماوں کے کارناموں کی اچھی طرح داد دی ہے۔ مغرب کو عصر حاضر میں جو عروج اور قوت حاصل ہوئی وہ زیادہ تر تجربی سائنس کی رہین منت ہے جس کی ابتداء مسلمانوں نے کی،لیکن ابتدائی منازل طے کرنے کے بعد مسلمانوں کی ترقی رک گئی اور علوم کی مشعل فرنگ کے ہاتھ میں آ گئی۔
اس کے متعلق اقبال نے کہا ہے:
بجھ کے بزم ملت بیضا پریشاں کر گئی
اور دیا تہذیب حاضر کا فروزاں کر گئی
اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ مسلمانوں کے ہاں تمام عالم اسلامی میں کیوں چراغ بجھ گئے اور بجھے بھی ایسے کہ بقول میر:
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط