آدم اس نئے عالم میں آکر حسرت و حرمان کا شکار نہیں ہوا۔ خلافت ارضی کے عطا ہونے کے بعد وہ کیوں پریشان ہوتا۔ لیکن یہ نیا بار امانت خطرے سے خالی نہ تھا۔ اس امانت میں خیانت سے ظلوماً جہولا ہونے کا بھی کھٹکا تھا۔ اس امانت اور خلافت کو نبھانے کیلئے اسے بڑی دشوار گزار گھاٹیوں میں سے گزرنا پڑا۔ لیکن تگ و دو میں ایک لذت ہے،آرزو و جستجو میں زندگی ہے۔
پہلی زندگی میں زندگی کے حقائق کے متعلق ایک غیر شعوری یقین تھا،اب گمان و یقین کی کشمکش پیدا ہو گئی،لیکن اس تمام کشا کش کو آدم نے اپنے پہلے سکون پر قابل ترجیح سمجھا اور پھر پہلی جنت میں واپس جانے کی آرزو دل سے نکل گئی۔ شیطان کے بہکانے اور آدم کے دنیا میں بھیجے جانے سے کچھ فائدہ ہی ہوا۔ اپنے آپ کو اور کائنات کو مسخر کرنے کا ایک شغل ہاتھ آ گیا:
چہ خوش است زندگ ی را ہمہ سوز و ساز کردن
دل کوہ و دشت و صحرا بہ دمے گداز کردن
ز قفس درے کشادن بہ فضاے گلستانے
رہ آسماں نوردن، بہ ستارہ راز کردن
بہ گدازہاے پنہاں، بہ نیازہاے پیدا
نظرے ادا شناسے بہ حریم ناز کردن
ہمہ سوز ناتمامم ہمہ درد آرزویم
بگماں وہم یقیں را کہ شہید جستجویم
بال جبریل میں بھی جبریل و ابلیس کے مکالمے میں ابلیس اپنی کار گزاری پر فخر کرتا ہے۔
(جاری ہے)
ابلیس جبریل کو محض اطاعت گزار اور بے چون و چرا فرمانبردار ہونے کی وجہ سے لذت آرزو سے محروم سمجھتا ہے۔ جبریل پوچھتا ہے کہ عالم رنگ و بو کی کیا حالت ہے۔ ابلیس جواب دیتا ہے ”سوز و سازو درد و داغ و جسجود آرزو۔“ جبریل پوچھتا ہے کہ کہو اب بھی توبہ کرتے ہو یا نہیں؟ ابلیس کہتا ہے کہ ہرگز تائب ہونے کو تیار نہیں۔ تجھے معلوم نہیں مردود و مطرود ہونے میں مجھ کو کیا مزہ آیا۔
میں کائنات کا سوز دروں بن گیا۔ اس کے مقابلے میں افلاک کی خاموشی کی کیا وقعت ہے۔ زندگی میں فراق کی بنا میرے انکار نے ڈالی اور اس وجہ سے کائنات کا ہر ذرہ طلب وصال میں ارتقا کوش ہوا اور انسان جو محض ایک مشت خاک تھا اس میں ذوق نمو پیدا ہو گیا۔ ملائکہ کی اطاعت غیر مشروط اور جنت کی بے پیکار زندگی میں عقل کی کیا ضرورت تھی۔ (اکثر اہل الجنة بلہ)۔
میرے فتنے کی وجہ ہی سے عقل کی ضرورت پیش آئی۔ تم ملائکہ تو سبک ساران ساحل ہو،تمہیں پتا نہیں کہ طوفان میں تھپیڑے کھانے میں کیا لذت ہے۔ اگر کبھی خدا سے خلوت میں کچھ پوچھنے کا موقع ملے تو ذرا دریافت کرنا کہ آیا یہ واقعہ ہے یا نہیں کہ قصہ آدم کی تمام رنگینی اسی مردود کی رہین منت ہے۔ استکبار میں یہ تعلی ملاحظہ ہو:
میں کھٹکتا ہوں دی یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو
شیطان نے کہا کہ آدم کو مسجود ملائک بنا کر اس کی فضیلت کا ڈنکا خدا نے بجا دیا،ہماری تعریف کسی نے نہ کی اس لئے ہم خود ہی اپنے صفات بیان کرنے پر مجبور ہو گئے:
لائق مدح در زمانہ چو نیست
خویشتن را ہمی سپاس کنم
(غالب)
آدم کا کمال اس کی سعی پیہم سے وابستہ ہے۔
اگر شیطان اس کو پہلی سکونی جنت سے نہ نکالنا تو اس کو یہ تگ و دو کہاں سے نصیب ہوتی۔ پہلی جنت جس سے شیطان نے نکلوایا وہ بے کوشش یونہی بخشی ہوئی جنت تھی۔ اب آدم اپنی مساعی سے جو جنت بنائے گا وہ اس کے خون جگر کی پیداوار ہو گی۔ وہ اس کی اپنی کمائی ہو گی:
خورشید جہاں تک کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
ے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تیری پنہاں ہے ترے خون جگر میں
اے پیکر گل کوشش پیہم کی جزا دیکھ
مفت میں بخشی ہوئی جنت کے متعلق یہاں اقبال کا ایک قطعہ یاد آ گیا:
بہشتے بہر پاکان حرم ہست
بہشتے بہر ارباب ہم ہست
بگو ہندی مسلمان را کہ خوش باش
بہشت فی سبیل اللہ ہم ہست
جاوید نامہ میں سیر افلاک کے دوران میں اقبال کی ملاقات ہر اس انسان سے ہوئی جو انسانیت کی کسی صفت کا ممتاز نمائندہ تھا۔
خواہ وہ صفت علوی ہو یا سفلی۔ اگر اس سیر کائنات میں کہیں ابلیس نظر نہ آتا تو ایک بڑا اہم نمائندہ حیات اور زندگی کے ڈرامے کا ایک اہم کردار نظر سے اوجھل رہتا۔ حقیقت حیات کا اہم پہلو تشنہ تعبیر رہ جاتا۔ ابلیس کا تصور اقبال اور نظموں میں بھی بلیغ اور دلکش انداز میں پیش کر چکا تھا لیکن یہ تصور اس کے ہاں اس قدر حکیمانہ اور دلاویز ہے کہ جاوید نامہ میں اس کی مزیذ تشریح کی کوشش کی گئی ہے۔
ابلیس اس سے پہلی نظموں میں بھی اپنی بابت جو کچھ کہہ گیا ہے اس میں تعلی اور تفاخر اور تکبر کے باوجود وہ ایسے صفات بیان کر گیا ہے جنہیں اقبال ارتقاے حیات کا لازمہ سمجھتا ہے اس لئے بعض اشعار میں ستائش کا پہلو مذمت پر غالب نظر آتا ہے۔ جاوید نامہ میں ابلیس کے متعلق دو نظمیں ہیں۔
ایک عنوان ہے ”نمودار شدن خواجہٴ اہل فراق ابلیس“ اور دوسری نظم کا عنوان ”نالہ ابلیس“ ہے۔
ان دونوں نظموں میں بھی کہیں ابلیس کی تحقیر نظر نہیں آتی اور اس میں اکثر باتیں اس نے ایسی کہی ہیں جو اقبال کے فلسفہ خودی اور نظریہ ارتقا کا اہم جزو ہیں۔ اقبال نے کئی جگہ متفرق اور منتشر اشتعار میں اپنے اس نظریے کو بیان کیا ہے کہ زندگی اضطراب مسلسل،جستجوے پیہم اور منزل کی خواہش سے بیگانہ ذوق سفر ہے۔ وہ خدا کے ساتھ بھی وصال کامل کا خواہش مند معلوم نہیں ہوتا جو عام طور پرصوفیہ کا مقصود ہے۔
اقبال اس عقیدے میں نہایت پختہ ہے کہ ”شوق بمیرد زوصل“ اور اگر نسان خدا میں اس طرح گم اور ضم ہو جائے جس طرح قطرہ باراں دریا میں ٹپک کر اپنی خودی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے،تو اس قسم کی فنا حیات ابدی کا حصول نہیں بلکہ عدم ہے۔ بالفاظ دیگر خدا کی ذات سے انسان کی خودی کا فراق ابداً قائم و دائم رہنا چاہئے۔ یہ فلسفہ فراق اقبال کا ایک امتیازی نظریہ ہے جاوید نامہ میں اقبال نے ابلیس کو اس نظریہ حیات کا مبلغ بنا دیا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس سے ہم نوا ہو گیا ہے۔
ہم ذرا آگے چل کر اقبال اور ابلیس کے زاویہ نگاہ کا ایک اساسی فرق بیان کریں گے،مگر پہلے ابلیس کا نظریہ اس کی اپنی زبانی سن لیں کہ وہ اپنے لئے کیا جواز پیش کرتا ہے۔ عنوان ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو اس بیان میں ابلیس کی مذمت مقصود نہیں۔ ”خواجہ اہل فراق“ کوئی طنزی و تحقیری لقب نہیں ہے۔ بہرحال چونکہ شیطان کا عالم عالم ظلمت ہے اس لئے اس کے نمودار ہوتے ہوئے پہلے تمام جہان میں اندھیرا ہو جاتا ہے۔
ابلیس اس میں ایک شعلے کی طرح ابھرتا ہے لیکن یہ شعلہ بھی دھوئیں سے سیاہ پوش ہے۔ اقبال ہادی راہ رومی سے پوچھتا ہے کہ یہ کون ہے؟ مرید نے کہا کہ یہ خواجہ اہل فراق ہے جو سراپا سوز ہے۔ دیکھنے میں بہت سنجیدہ معلوم ہوتا ہے،مرد حکیم کی طرح کم خندہ و کم گو ہے،بہت باریک بیں ہے۔ عارف رومی نے مثنوی میں کہا تھا کہ:
تن ز جان و جاں ز تن مستور نیست
لیک کس را دید جاں دستور نیست
لیکن اس معاملے میں شیطان باطن بینی میں عارفوں سے بھی بڑھ کر ہے کہ بدن کے اندر جو غیر مرئی جان ہے اسے بھی دیکھ لیتا ہے۔
اس کے اہل نظر ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے۔
کہنہ کم خندہ اندک سخن
چشم او بینندہ جاں در بدن
لیکن اس میں کئی متضاد قسم کے صفات بھی جمع ہیں۔ وہ رند بھی دکھائی دیتا ہے اور ملا بھی،حکیم نکتہ رس بھی اور صوفی خرچہ پوش بھی۔ وہ زاہدوں کی طرح عمل میں بھی سخت کوش ہے۔ اس نے جو نظریہ حیات اختیار کر لیا ہے اس کے مطابق بڑی جانفشانی سے مصروف عمل رہتا ہے۔
لیکن ابلیس اور زہاد و صوفیہ میں ایک بنیادی فرق ہے۔ زاہد تو عاقبت کی خاطر دنیا کو ترک کرتے ہیں،تاکہ آخرت میں جنت او رویت الٰہی نصیب ہو لیکن ابلیس کے ترک و ایثار کا کمال یہ ہے کہ وہ جمال لایزال کا بھی آرزومند نہیں۔ اقبال نے ترک کے مطلق ابتدائی اُردو غزلوں میں ایک شعر کہا تھا:
واعظ! کمال ترک سے ملتی ہے یہاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے
اور کسی متصوف شاعر نے کمال ترک کو زندگی کا نصب العین بنا کر کہا ہے کہ دنیا اور عقبیٰ اور خدا کو ترک کرکے اس جہان کو بھی دل سے نکال دو کہ ہم نے سب کچھ ترک کر دیا ہے:
ترک دنیا ترک عقبیٰ ترک مولیٰ ترک ترک
ابلیس کی کیفیت بھی کچھ اس کے مماثل ہی معلوم ہوتی ہے:
فطرتش بیگانہٴ ذوق وصال
زہد او ترک جمال لایزال