عشق اگر اشیا اور افراد کے ساتھ وابستہ ہو جائے تو وہ خود حادث بن جاتا ہے۔ حادث کا عشق بھی حادث ہو گا۔ اس لئے عارف رومی فرماتے ہیں:
عشق آں زندہ گزیں کو باقی است
و ز شراب جانفرایت ساقی است
اپنی شبابی نظموں میں اقبال نے اس تغیر پذیر عشق کا بھی دل کھول کر ذکر کیا ہے اور معشوق کے ساتھ بے وفائی اور اپنے ہرجائی ہونے کا جواز پیش کیا ہے۔
نظم کا عنوان عاشق ہرجائی ہے:
حسن نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کیلئے
پھر عجب یہ ہے کہ تیرا عشق بے پروا بھی ہے
تیری ہستی کا ہے آئین تفنن پر مدار
تو کبھی ایک آستانے پر جبیں فرسا بھی ہے؟
ہے حسینوں میں وفا نا آشنا تیرا خطاب
اے تلون کیش، تو مشہور بھی رسوا بھی ہے
لے کے آیا ہے جہاں میں عادت سیماب تو
تیری بیتابی کے صدقے، ہے عجب بیتاب تو
اس کا جواز پیش کرتے ہوئے افلاطونی تصوف سے مدد لی ہے کہ ہر حسین،حسن مطلوق کے پر تو سے حسین دکھائی دیتا ہے۔
(جاری ہے)
یہ پر تو مٹا اور حسن حسین غائب ہوا:
گو حسین تازہ ہے ہر لحظہ مقصود نظر
حسن سے مضبوط پیمان وفا رکھتا ہوں میں
ہر تقاضا عشق کی فطرت کا ہو جس سے خموش
آہ وہ کامل تجلی مدعا رکھتا ہوں میں
جستجو کل کی لئے پھرتی ہے اجزا میں مجھے
حسن بے پایاں ہے درد لا دوا رکھتا ہوں میں
زندگی الفت کی درد انجامیوں سے ہے مری
عشق کو آزاد دستور وفا رکھتا ہوں میں
سچ اگر پوچھے تو افلاس تخیل ہے وفا
دل میں ہر دم اک نیا محشر بپا رکھتا ہوں میں
عشق کو آزاد دستور وفا رکھنے کا آخر میں یہ نتیجہ ہوا کہ اقبال کو کسی معشوق سے نہیں بلکہ خود عشق سے عشق ہو گیا۔
وہ عشق جو پکارنے لگا، ”صورت نہ پرستم من“ وہ عشق جو زمان و مکان اور افراد و اشیا کا خالق ہونے کی وجہ سے خود اپنے پیدا کردہ حدود و قیود سے آزاد ہو گیا۔ اس کو عشق الٰہی کہئے یا عشق حیات لامتناہی۔ اقبال اسی میں مست ہو گیا اور اسی کی تصریح و تبلیغ کرنے لگا۔ اس عشق نے وہ تلاطم پیدا کیا جو بقول غالب:
شوق عناں گسیختہ دریا کہیں جسے
اقبال کی اس نظم کا مقطح عشق اور ماہیت حیات کے متعلق اس کے آئندہ تصورات کا آئینہ دار ہے۔
شعر صد فی صد بیدل کے رنگ کا ہے مگر اقبال کا اپنا ہے:
در بیابان طلب پیوستہ می کوشیم ما
موج بحریم و شکت خویش بر دوشیم ما
اس عشق کی نہ ابتداء ہے اور نہ انتہا اور خود اقبال اس کی انتہا کا آرزو مند نہیں،کیوں کہ اس کے نزدیک زندگی ازل سے ابد تک جستجو ہی جستجو ہے:
ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
ابتدائی غزالوں میں اقبال کا ایک شعر تھا:
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ایک صاحب نے دریافت کیا کہ عشق کی انتہا بھی ہوتی ہے اور کیا آپ واقعی اس کی انتہا کے متمنی ہیں؟ اس کا جواب اقبال نے یہ دیا کہ آپ نے دوسرے مصرع پر غور نہیں کیا کہ میں نے خود اس آرزو کو سادگی یعنی بے وقوفی کہا ہے۔
یہ جواب کچھ اسی انداز کا ہے جو غالب کے ایک شعر کے متعلق ایک صاحب نے فرمایا:
غلطیہاے مضامین مت پوچھ
لوگ نالے کو رسا کہتے ہیں
معترض نے کہا کہ غالب فارسی دانی کے کمال کے باوجود ٹھوکر کھا گیا ہے لفظ ’غلطیہا،غلط ہے،صحیح لفظ غلطہا ہے۔ جواب دینے والے نے کہا عجب بے وقوف ہو غالب نے جان بوجھ کر غلط لکھا ہے اسی لئے وہ خود کہہ رہا ہے کہ ”غلطیہاے مضامین مت پوچھ“ اس کے باوجود تم پوچھنے پر اصرار کرتے ہو۔
بانگ درا میں ایک نظم قیام عشق کے عنوان سے ہے جہاں اقبال کا نظریہ عشق نمایاں ہو گیا ہے کہ ایک انقلاب آفرین اور ارتقا کوش جذبہ ہے:
سن اے طلبگار درد پہلو میں ناز ہوں تو نیاز ہو جا
میں غزنوی سومنات دل کا ہوں تو سراپا ایاز ہو جا
کسی زمانے میں کسی فرد نے جو کمال پیدا کیا ہے وہ عشق کی بدولت تمام انسان پیدا کر سکتے ہیں:
فیض روح القدس ار باز مدد فرماید
دیگران ہم بکنند آنچہ مسیحا می کرد
(حافظ)
اقبال کہتا ہے کہ سکندر نے آئینہ بنایا تھا،تو بھی بنا سکتا ہے۔
تیرے سینے میں بھی اس کا سامان موجود ہے۔ پیکار حیات کو نافہم لوگ عشق کے منافی سمجھتے ہیں،لیکن یہ مصاف ہستی خود عشق نے پیدا کی ہے تاکہ آویزش و ورزش سے تیری قوتوں میں اضافہ ہو۔ عشق کسی افعال تاثر کا نام نہیں،وہ کمال درجے کی فعلیت کا مصدر و ماخذ ہے۔ عشق کو مسخر حیات و کائنات ہونا چاہئے۔ قناعت کے یہ معنی نہیں کہ تو اپنی آرزو کو محدود کر دے۔
زندگی کی وسعت تو توفیر آرزو سے پیدا ہوتی ہے لیکن یہ آرزو ایسی ہونی چاہئے جو مفاد حاضر پر نظر جمانے کی بجائے موجود و غائب ہستی پر محیط ہو۔ ”فرشتہ صید و پیمبر شکار و یزداں گیر“ ہو:
نہ ہو قناعت شعار گلچیں، اسی سے قائم ہے شان تیری
وفور گل ہے اگر چمن میں تو اور دامن دراز ہو جا
اسی خیال کو اقبال نے ایک اور شعر میں ادا کیا:
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے
یہاں غالب کا ایک صوفیانہ اور حکیمانہ شعر یاد آ گیا:
ہر چہ درمبداء فیاض بود آن من است
گل جدا ناشدہ از شاخ بدامان من است
غالب کا یہ شعر اقبال کے شعر سے اونچا ہو گیا ہے۔
پھولوں اور کلیوں کو توڑنے اور اپنے پیراہن کے دامن کو دراز کرنے کی ضرورت نہیں،کائنات کے متعلق ایسا ذوق اور ایسی نگاہ پیدا کرنی چاہئے کہ توڑنے کے بغیر گلشن حیات کے پھول انسان کے تاثر اور شعور کے دامن میں آ جائیں۔ اقبال خود بھی عشق میں اسی قسم کی وسعت چاہتا ہے،مگر غالب کا انداز بیان زیادہ لطیف ہے۔ غزل کے آخری اشعار میں اقبال عشق کی طرف سے یہ پیغام دیتا ہے کہ اب عشق الٰہی میں راہبانہ صحرا نوردیوں کا زمانہ نہیں۔
اب عشق کی بدولت محفل کو مستینر ہونا چاہئے اور اسے ملت میں فروغ و ترقی کا سامان مہیا کرنا چاہئے:
گئے وہ ایام، اب زمانہ نہیں ہے صحرا نوردیوں کا
جہاں میں مانند شمع سوزاں میان محفل گداز ہو جا
عبد القادر کے نام پیام میں بھی اقبال یہی کچھ کہہ گیا ہے:
شمع کی طرح جییں بزم گہ عالم میں
خود جلیں دیدہٴ اغیار کو بینا کردیں