چھٹا باب
شاعر انقلاب
اقبال ایک انقلابی شاعر ہے۔ ملت اسلامیہ نے اقبال کیلئے کئی القاب و خطابات تجویز کئے،کوئی انہیں حکیم ملت کہتا ہے اور کوئی ترجمان حقیقت،کوئی انہیں شاعر اسلام کہتا ہے۔ یہ تمام القاب بجا اور درست ہیں،لیکن اس کے علاوہ بھی صفات کے اور بہت سے پیرہن ہیں جو اس کے قامت پر راست آتے ہیں۔ وہ پیام بر خودی بھی ہے اور مبلغ ارتقا بھی اور رمز شناس عشق بھی،لیکن اقبال کی تمام شاعری اور اس کے افکار اور جذبات پر جو چیز طاری معلوم ہوتی ہے وہ تمنائے انقلاب ہے۔
موجودہ دنیا کی کوئی حیثیت،کوئی شوکت،کوئی حکمت اور کوئی مذہب اس کو اطمینان بخشتا دکھائی نہیں دیتا،وہ مشرق و مغرب دونوں سے بے زار ہے،دونوں طرف زاویہ نگاہ اور نظریہ حیات اس کو غلط معلوم ہوتا ہے،تمام موجودہ زندگی پر اس کی تنقید مخالفانہ ہے،وہ صرف ملت اسلامیہ ہی میں نہیں بلکہ تمام دنیا میں اور اس کے ہر شعبے میں انقلاب کا آرزو مند ہے۔
(جاری ہے)
عصر حاضر میں یا گزشتہ تین چار صدیوں میں جہاں جہاں انقلابی تحریکیں ہوئیں وہ پسندیدگی سے ان کا ذکر کرتا ہے۔ لوتھر کی اصلاح کلیسیا کی تحریک جس نے مغرب کے دینی تفکر کو بہت کچھ آزاد کر دیا اور حکمت و علم کی ترقی کیلئے راہیں کشادہ کر دیں،انقلاب فرانس جس میں حریت و مساوات و اخوت کا نعرہ بلند ہوا اور مغرب کی تمام زندگی تہ و بالا ہو گئی،مسو لینی کی احیائے اطالیہ کی انقلابی کوشش،ان سب کا ذکر کرنے کے بعد وہ کہتا ہے کہ انقلابات نفوس میں ہیجان اور اضطراب سے پیدا ہوتے ہیں۔
ملت اسلامیہ کچھ صدیوں سے ساکن و جامد تھی لیکن اب اس کے اندر ایک بیتابی نمایاں ہے،ضرور ہے کہ اس میں بھی انقلاب پیدا ہو۔ انقلابات جس جذبے سے پیدا ہوتے ہیں،اقبال اس جذبے کو عشق کہتا ہے۔ ٹھنڈی حکمت اور مفاد کوشی کبھی نظم حیات میں کوئی بنیادی تغیر پیدا نہیں کر سکتی۔ اقبال پوچھتا ہے کہ یہ کایا پلٹ کرنے والا جذبہ اب کس وادی اور منزل میں ہے؟ آخر ہماری طرف بھی متوجہ ہوگا:
کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے
عقل بلا خیز کا قافلہ سخت جاں
دیکھ چکا المنی شورش اصلاح دین
جس نے نہ چھوڑے کہیں نقش کہن کے نشاں
حرف غلط بن گئی عصمت پیر کنشت
اور ہوئی فکر کی کشتی نازک رواں
چشم فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب
جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں
ملت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر
لذت تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں
روح مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب
راز خدائی ہے یہ، کہہ نہیں سکتی زباں
دیکھئے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
اقبال کی زندگی ہی میں کئی اقوام میں انقلاب آیا اور بعض انقلابات اس کی وفات کے دس پندرہ سال کے اندر ہی واقع ہوئے۔
واٹرلو میں نپولین کو شکست فاش ۱۸۱۵ء میں ہوئی۔ اس کے قریباً ایک صدی بعد ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم واقع ہوئی۔ اس صدی میں چھوٹی بڑی جنگیں تو دنیا میں ہوتی رہی ہیں لیکن بحیثیت مجموعی دنیا کا ہر خطہ ایک خاص نظام کے اندر بغیر کسی بڑے ہیجان کے زندگی بسر کرتا رہا۔ ۱۹۱۴ء کی جنگ سے لے کر آج تک دنیا میں جو تلاطم بپا ہوا ہے اس کی مثال تاریخ کے کسی اور دور میں نہیں مل سکتی۔
دنیا کے تمام مغلوب گروہ انسانیت کے بنیادی حقوق طلب کرنے کیلئے آمادہ پیکار ہو گئے،ہر جگہ ملوکیت کے قصر میں زلزلہ آیا اور اس کے در و دیوار پیوند زمین ہو گئے،کاشتکار خون چوسنے والے زمینداروں سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے جہاد کرنے لگے،مزدوروں نے سرمایہ داروں سے اپنے حقوق چھینے۔
سیاست اور معاشرت ہی میں نہیں بلکہ علوم و فنون میں بھی انقلاب آیا،طبیعی سائنس نے ذروں کا جگر چیر کر اس کے اندر پنہاں قیامت کو آشکار کیا۔
انیسویں صدی میں اہل فرنگ فقط اپنے آپ کو زندہ اور متحرک اور ترقی پذیر سمجھتے تھے،تمام ایشیا ان کے نزدیک جمود و سکون کا مجسمہ تھا،ترکی کو مغربی سیاستدان مرد بیمار کہتے تھے،جو چراغ سحری تھا اور اس کی وسیع سلطنت کے حصے بخرے کرنے کیلئے کرگسوں کی طرح اس کے گرد منڈلاتے تھے،چین کو زبردستی افیون کا عادی بنانے کیلئے اس کے خلاف جنگ کر دی۔
ہندوستان کے متعلق انگریزوں کا خیال تھا کہ چند مغربی تعلیم یافتہ غیر مطمئن لوگ سرکاری عہدوں اور اقتدار میں کچھ حصہ لینے کیلئے ہنگامہ بپا کرتے ہیں،باقی رعایا مطمئن اور برکات حکومت برطانیہ کے راگ گاتی ہے،ایران کو روسیوں اور انگریزوں نے اپنی خفیہ سیاست کی بساط پر تقسیم کر رکھا تھا،فرانسیسی سمجھتے تھے کہ ہند چینی میں ہمیشہ ان کا اقتدار قائم رہے گا،انڈونیشیا میں ولندیزی تین سو سال سے تمام ملک کی دولت کو سمیٹ کر اطمینان سے لطف اٹھاتے تھے کہ ان اقوام میں اندرونی ہیجان اور حقوق کا احساس پیدا ہونے میں صدیاں گزر جائیں گی۔
ہمارے دیکھتے دیکھتے یہ ہوا کہ صدیوں کی خفتہ قومیں بیدار اور ہوشیار ہو گئیں اور آزادی کی جنگ میں ہر قسم کے ہتھیار استعمال کرنے لگیں۔ اقبال کیلئے ہر وہ تحریک خوش آئند تھی جو زندگی کے جمود کو توڑے،لیکن اس کی طبیعت ایسے ہمہ گیر انقلاب کی آرزو مند تھی جو صرف سیاست اور معاشرت ہی میں نہیں بلکہ انسان کی فطرت میں بھی کوئی نمایاں تبدیلی کرے۔
عالم اسلامی میں اقبال کے سامنے ایران اور ترکی میں انقلابی صورت پیدا ہوئی،وہ اس سے خوش تھے کہ ترکوں نے جہاد اور ایثار سے اپنے آپ کو مستحکم کر لیا۔
ایران کے انتشار میں رضا شاہ کی آمریت نے جو جمعیت پیدا کی وہ بھی اصلاح و ترقی کی طرف ایک اہم قدم تھا،لیکن علامہ اقبال اسلامی ممالک میں ایسا انقلاب چاہتے تھے جو ملت کو نہ صرف مغربی سیاست کے پنجہ آہنی سے چھڑائے بلکہ مغربی مادیت،وطنیت اور الحاد سے بھی نجات دلوائے۔
مصطفی کمال اور رضا شاہ نے استحکام وطن کیلئے بہت کچھ کیا،لیکن مغرب سے سیاسی چھٹکارا حاصل کرکے تہذیب و تمدن میں فرنگ کی کورانہ نقالی اور تقلید شروع کر دی،اس بات کی تلقین شعوری یا غیر شعوری طور پر ان کے تمام کارناموں میں نظر آنے لگی کہ قوت و نجات اسی میں ہے کہ ہم بھی ہر حیثیت سے مغربی اقوام کے مشابہ و مماثل ہو جائیں۔
اسلامی زندگی کے مخصوص اقدار ان کی نظر سے اوجھل رہے،مشرق کے شعور میں ہمیشہ روحانی زندگی کو فوقیت حاصل رہی ہے،ہزاروں سال سے مشرق تمام ادیان عالیہ کا مولد اور گہوارہ رہا ہے،اسی لئے اقبال بعض اوقات روح اسلامی کی بجائے روح شرق کی اصطلاح بھی استعمال کرتا ہے۔
جب مصطفی کمال اور رضا شاہ میں اس کو زیادہ تر مغرب زدگی،نسلی قومیت کی پرستش اور وطنیت ہی نظر آئی تو وہ یہ پکار اٹھا:
نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی
کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی
پیام مشرق کی ایک نظم میں مصطفی کمال پاشا کو خطاب کیا ہے اور ”ایدہ اللہ“ کہہ کر اس کیلئے دعائے ہدایت کی ہے علامہ اقبال کو اس کا افسوس تھا کہ اس مرد غازی نے اپنی قوم کو فرنگ کے پنجے سے تو چھڑایا اور اس میں ملی استحکام پیدا کیا مگر وہ اپنی اصلاحات میں روبہ فرنگ ہو کر اسلامی جذبات اور اسلامی نظریہ حیات سے غافل ہو گیا۔
دہلی کے لال قلعہ میں دیوان خاص کی دیواروں پر جو اشعار ثبت ہیں ان میں سے ایک شعر یہاں حسب حال معلوم ہوتا ہے جو غالباً فیضی کا ہے:
عزم سفر مشرق و رو در مغرب
اے راہرو پشت بہ منزل ہشدار
مصطفی کمال کو اس نظم میں اقبال یہ بھولی ہوئی حقیقت یاد دلا رہا ہے کہ مسلمان اقوام ایک امی کی حکمت و بصیرت سے رموز تقدیر سے آشنا ہوئیں اور اسی کی بدولت ان کو دنیا میں تفوق حاصل ہوا۔
وہ اس بارے میں مصطفی کمال سے اتفاق کرتا ہے کہ اسلام کو فقہائے تنگ نظر نے جامد بنا دیا اور اس میں سے وہ عشق ناپید ہو گیا جو افراد و اقوام کی زندگی کا سر چشمہ ہے،لیکن پیر حرم سے بیزار ہو کر اسلام ہی کی طرف سے منہ موڑ لینا ملت اسلامیہ کیلئے حقیقی فلاح کا باعث نہیں ہو سکتا۔ جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت ہمارے ذرے خورشید جہاں تاب بن گئے اس سے براہ راست کسب فیض دین و دنیا میں حقیقی کامیابی کا باعث ہو سکتا ہے۔
نقل فرنگ کی تدبیر اور کورانہ تقلید سے ملت کو حقیقی فروغ حاصل نہیں ہو سکتا،تقلید میں آخر مات ہی مات ہے:
امیے بود کہ ما از اثر حکمت او
واقف از سر نہاں خانہ تقدیر شدیم
اصل ما یک شرر باختہ رنگے بودست
نظرے کرو کہ خورشید جہاں گیر شدیم
نکتہ عشق فرشست ز دل پیر حرم
در جہاں خوار باندازہ تقصیر شدیم
’ہر کجا راہ دہد اسپ برآں تاز کہ ما
بارہا مات دریں عرصہ بتدبیر شدیم“(نظیری)