اس نظم میں بے خودی کا مفہوم اس لحاظ سے داخل ہے کہ جب خودی میں سے خوف و حزن کے عناصر ناپید ہو جائیں تو اس قسم کی بے خودی کی حالت مستی و مدہوشی کے مماثل نہیں ہوتی بلکہ حوادث کے مقابلے میں ناقابل شکست حصن مدافت بن جاتی ہے۔ خودی اور بے خودی میں کوئی تضاد نہیں رہتا۔ اسی خیال کو ’حکایت شیر و شہنشاہ عالمگیر‘ میں ایک تاریخی واقعے سے استوار کیا ہے۔
نماز عاشقاں میں ایک بے خودی کی کیفیت ہوتی ہے کیوں کہ نفس انسانی اپنے تئیں کلیتاً خدا کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس سپردگی کی بدولت اس میں بے حد قوت اور بے نیازی پیدا ہو جاتی ہے۔ شیر نے عالمگیر پر دوران نماز میں حملہ کیا۔ کوئی معمولی انسان خوف زدگی میں شیر کا شکار ہو جاتا ہے یا بے اختیار فرار کی کوشش کرتا لیکن عالمگیر کی بے خودی میں خودی کی طاقت دیکھئے:
دست شہ نادیدہ خنجر برکشید
شرزہ شیرے را شکم از ہم درید
دل بخود را ہے نداد اندیشہ را
شیر قالیں کرد شیر بیشہ را
ایسے نفس میں خود نمائی کے ساتھ خود شکنی ہوتی ہے،لیکن یہی خود شکنی الٰہی قوتوں کی جاذب بن جاتی ہے:
ایں چنیں دل خود نما و خود شکن
دارد اندر سینہ مومن وطن
بعض اوقات لوگوں کو ’لاحوف علیھم ولا ہم یحزنون‘ کی صفت پڑھتے ہوئے یہ گمان گزرتا ہے کہ ماسوا کا خوف معدوم ہونے پر بھی خدا کا خوف تو باقی رہتا ہے،اس لئے بندہ مومن مطلقاً ’لا خوف‘ تو نہ ہوا۔
(جاری ہے)
لیکن یہ دھوکا انسانی زبان کی کوتاہی سے پیدا ہوتا ہے۔ خدا کے خوف کے وہ معنی نہیں جو ماسوا کے خوف کے معنی ہیں۔ خدا کوئی ڈراؤنی چیز نہیں ہے جسے دیکھ کر انسان کانپنے لگے۔ وہ تو سراپا رحمت و شفقت ہے۔ خوف خدا کے معنی ہیں حکم خداوندی اور آئین الٰہی کی خلاف ورزی کے درد ناک نتائج فطری ہیں۔ انہیں معنوں میں خوف خدا کو حکمت کا سرچشمہ کہا گیا ہے۔
ماسوا کا خوف تو انسان کو حواس باختہ اور عقل سوختہ کر دیتا ہے۔ خوف خدا کا نتیجہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ ایک فرمان بردار بچہ سراپا شقت ماں باپ کی مرضی کے خلاف کچھ کرنے سے گریز کرتا ہے تاکہ محبت کے آبگینوں کو ٹھیس نہ لگے۔ یہاں سزا کا خوف نہیں ہوتا بلکہ محبت کے فقدان کا خوف ہوتا ہے۔ ان معنوں میں خدا ہی کا خوف انسان کو ہر قسم کے خوف حوادث سے نجات دلوا سکتا ہے:
عشق را آتش زن اندیشہ کن
روبہ حق باش و شیری پیشہ کن
خوف حق عنوان ایمان است و بس
خوف غیر از شرک پنہاں است و بس
خدا کے سوا کسی چیز سے خائف انسان کلمہ لا الہ الا اللہ زبان سے پڑھنے کے باوجود اندر سے شرک خفی میں مبتلا ہوتا ہے۔
رموز بے خودی میں اقبال پہلے اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ انسانوں میں ملت آفریں وحدت ان مردان حق کی بدولت پیدا ہوئی ہے جنہیں اصطلاحاً نبی کہتے ہیں۔ اس سے قبل اس عنوان کے تحت اشعار درج ہو چکے ہیں کہ ’ملت از اختلاط افراد پیدا می شود و تکمیل تربیت او از نبوت است‘ اسلام کا ”رکن دوم“ ”رسالت“ ایک مخصوص تشریح کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
انبیا تو آدم سے لے کر محمدﷺ تک لاتعداد ہوئے ہیں لیکن قرآن کریم نے مسلمانوں کو ملت ابراہیم کہا،اس لئے کہ حضرت ابراہیم کا توحید کی تعمیر اور شرک کی بیخ کنی میں جہاد تاریخ دین کا ایک اہم واقعہ ہے۔ حضرت ابراہیم کا زمانہ توریت و انجیل سے پہلے کا زمانہ ہے،اس لئے توحیدی رموزی میں ان کو تمام انبیاے بنی اسرائیل پر زمانی سبقت حاصل ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم نے توحید کی بنیادیں قائم کیں تو اس وقت نہ کوئی یہودی تھا اور نہ کوئی نصرانی۔ یہ سب بعد کے،کم و بیش بھٹکے ہوئے لوگ ہیں۔ اس لئے توحید کو بھی خالص کرنے کیلئے موحد قدیم حضرت ابراہیم ہی کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ پہاڑ میں سے نکلتے ہوئے چشمے کا پانی صاف ہوتا ہے،بعد میں بہتی ہوئی ندیوں میں خس و خاشاک اور کثافت کی آمیزش ہو جاتی ہے۔
رسالت کی توضیح میں علامہ اقبال،ابراہیم خلیل اللہ ہی سے آغاز کرتے ہیں:
تارک آفل براہیم خلیل
انبیا را نقش پاے او دلیل
جس طرح عقیدہٴ توحید وحدت آفریں ہے،اسی طرح رسالت کا بھی یہی وظیفہ ہے کہ ہزار ہا انسان ایک عدل عام اور رحمت عامہ کی سلک میں منسلک ہو جائیں:
از رسالت در جہاں تکوین ما
از رسالت دین ما آئین ما
از رسالت صد ہزار ما یک است
جزو ما از جزو ما لاینفک است
ابراہیمی رسالت نے جن بنیادوں کو استوار کیا اور رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر جو عظیم الشان تعمیر انسانیت کھڑی کی،اسی کی بدولت توحید پرستوں کی ایک ملت بن گئی جو اہل عالم کیلئے پیام رحمت ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت خدا کی محبت کا وسیلہ ہے۔ کوئی فرد شاید براہ راست بھی راہبوں کی طرح خدا سے رابطہ پیدا کرے،لیکن ملت کی شیرازہ بند تو رسالت ہی ہے:
فرد از حق، ملت از وے زندہ است
از شعاع مہر او تابندہ است
رسالت کی بدولت لاتعداد انسان ہم نوا اور ہم مدعا ہو جاتے ہیں۔ کثرت اس وحدت میں آکر زندہ تر ہو جاتی ہے۔
دین فطرت کا تقاضا اسی قسم کی وحدت آفرینی ہے۔ رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدا کردہ وحدت اگر ہمارے ہاتھ سے نہ چھوٹے تو ہم ابد پیوند ہو سکتے ہیں۔ افراد پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں لیکن ایسی عالمگیر ملت قائم و دائم رہ سکتی ہے محمد (رسولﷺ) پر رسالت کے مقصد کی تکمیل ہو گئی۔ اس پر اب کوئی انسان بنیادی حقائق کا اضافہ نہیں کر سکتا۔
جس طرح محمد (ﷺ) خاتم النبیین ہیں اسی طرح ان کی امت خاتم الامم ہے۔ اس کے علاوہ جو ملتیں قائم ہوں گی وہ آئین فطرت کے خلاف ہوں گی،یا جغرافیائی ہوں گی یا نسلی،یا لسانی۔ ان میں سے کسی کو بقا حاصل نہیں ہو سکتی۔ حق کے مقابل میں باطل کی عمر نہایت قلیل ہوتی ہے۔ اب کوئی نئی نبوت اس سے وسیع تر وحدت پیدا نہیں کر سکتی۔ البتہ کسی جدید دعواے نبوت سے انسانوں میں مزید تفریق و تفرقہ پیدا ہو سکتا ہے:
لا نبی بعدی ز احسان خدا است
پردہ ناموس دین مصطفی است
قوم را سرمایہٴ قوت ازو
حفظ سر وحدت ملت ازو
دل ز غیر اللہ مسلمان می کند
نعرہٴ ’لا قوم بعدی‘ می زند