Episode 127 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 127 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اس نظم میں بے خودی کا مفہوم اس لحاظ سے داخل ہے کہ جب خودی میں سے خوف و حزن کے عناصر ناپید ہو جائیں تو اس قسم کی بے خودی کی حالت مستی و مدہوشی کے مماثل نہیں ہوتی بلکہ حوادث کے مقابلے میں ناقابل شکست حصن مدافت بن جاتی ہے۔ خودی اور بے خودی میں کوئی تضاد نہیں رہتا۔ اسی خیال کو ’حکایت شیر و شہنشاہ عالمگیر‘ میں ایک تاریخی واقعے سے استوار کیا ہے۔
نماز عاشقاں میں ایک بے خودی کی کیفیت ہوتی ہے کیوں کہ نفس انسانی اپنے تئیں کلیتاً خدا کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس سپردگی کی بدولت اس میں بے حد قوت اور بے نیازی پیدا ہو جاتی ہے۔ شیر نے عالمگیر پر دوران نماز میں حملہ کیا۔ کوئی معمولی انسان خوف زدگی میں شیر کا شکار ہو جاتا ہے یا بے اختیار فرار کی کوشش کرتا لیکن عالمگیر کی بے خودی میں خودی کی طاقت دیکھئے:
دست شہ نادیدہ خنجر برکشید
شرزہ شیرے را شکم از ہم درید
دل بخود را ہے نداد اندیشہ را
شیر قالیں کرد شیر بیشہ را
ایسے نفس میں خود نمائی کے ساتھ خود شکنی ہوتی ہے،لیکن یہی خود شکنی الٰہی قوتوں کی جاذب بن جاتی ہے:
ایں چنیں دل خود نما و خود شکن
دارد اندر سینہ مومن وطن
بعض اوقات لوگوں کو ’لاحوف علیھم ولا ہم یحزنون‘ کی صفت پڑھتے ہوئے یہ گمان گزرتا ہے کہ ماسوا کا خوف معدوم ہونے پر بھی خدا کا خوف تو باقی رہتا ہے،اس لئے بندہ مومن مطلقاً ’لا خوف‘ تو نہ ہوا۔

(جاری ہے)

لیکن یہ دھوکا انسانی زبان کی کوتاہی سے پیدا ہوتا ہے۔ خدا کے خوف کے وہ معنی نہیں جو ماسوا کے خوف کے معنی ہیں۔ خدا کوئی ڈراؤنی چیز نہیں ہے جسے دیکھ کر انسان کانپنے لگے۔ وہ تو سراپا رحمت و شفقت ہے۔ خوف خدا کے معنی ہیں حکم خداوندی اور آئین الٰہی کی خلاف ورزی کے درد ناک نتائج فطری ہیں۔ انہیں معنوں میں خوف خدا کو حکمت کا سرچشمہ کہا گیا ہے۔
ماسوا کا خوف تو انسان کو حواس باختہ اور عقل سوختہ کر دیتا ہے۔ خوف خدا کا نتیجہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ ایک فرمان بردار بچہ سراپا شقت ماں باپ کی مرضی کے خلاف کچھ کرنے سے گریز کرتا ہے تاکہ محبت کے آبگینوں کو ٹھیس نہ لگے۔ یہاں سزا کا خوف نہیں ہوتا بلکہ محبت کے فقدان کا خوف ہوتا ہے۔ ان معنوں میں خدا ہی کا خوف انسان کو ہر قسم کے خوف حوادث سے نجات دلوا سکتا ہے:
عشق را آتش زن اندیشہ کن
روبہ حق باش و شیری پیشہ کن
خوف حق عنوان ایمان است و بس
خوف غیر از شرک پنہاں است و بس
خدا کے سوا کسی چیز سے خائف انسان کلمہ لا الہ الا اللہ زبان سے پڑھنے کے باوجود اندر سے شرک خفی میں مبتلا ہوتا ہے۔
رموز بے خودی میں اقبال پہلے اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ انسانوں میں ملت آفریں وحدت ان مردان حق کی بدولت پیدا ہوئی ہے جنہیں اصطلاحاً نبی کہتے ہیں۔ اس سے قبل اس عنوان کے تحت اشعار درج ہو چکے ہیں کہ ’ملت از اختلاط افراد پیدا می شود و تکمیل تربیت او از نبوت است‘ اسلام کا ”رکن دوم“ ”رسالت“ ایک مخصوص تشریح کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
انبیا تو آدم سے لے کر محمدﷺ تک لاتعداد ہوئے ہیں لیکن قرآن کریم نے مسلمانوں کو ملت ابراہیم کہا،اس لئے کہ حضرت ابراہیم کا توحید کی تعمیر اور شرک کی بیخ کنی میں جہاد تاریخ دین کا ایک اہم واقعہ ہے۔ حضرت ابراہیم کا زمانہ توریت و انجیل سے پہلے کا زمانہ ہے،اس لئے توحیدی رموزی میں ان کو تمام انبیاے بنی اسرائیل پر زمانی سبقت حاصل ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم نے توحید کی بنیادیں قائم کیں تو اس وقت نہ کوئی یہودی تھا اور نہ کوئی نصرانی۔ یہ سب بعد کے،کم و بیش بھٹکے ہوئے لوگ ہیں۔ اس لئے توحید کو بھی خالص کرنے کیلئے موحد قدیم حضرت ابراہیم ہی کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ پہاڑ میں سے نکلتے ہوئے چشمے کا پانی صاف ہوتا ہے،بعد میں بہتی ہوئی ندیوں میں خس و خاشاک اور کثافت کی آمیزش ہو جاتی ہے۔
رسالت کی توضیح میں علامہ اقبال،ابراہیم خلیل اللہ ہی سے آغاز کرتے ہیں:
تارک آفل براہیم خلیل
انبیا را نقش پاے او دلیل
جس طرح عقیدہٴ توحید وحدت آفریں ہے،اسی طرح رسالت کا بھی یہی وظیفہ ہے کہ ہزار ہا انسان ایک عدل عام اور رحمت عامہ کی سلک میں منسلک ہو جائیں:
از رسالت در جہاں تکوین ما
از رسالت دین ما آئین ما
از رسالت صد ہزار ما یک است
جزو ما از جزو ما لاینفک است
ابراہیمی رسالت نے جن بنیادوں کو استوار کیا اور رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر جو عظیم الشان تعمیر انسانیت کھڑی کی،اسی کی بدولت توحید پرستوں کی ایک ملت بن گئی جو اہل عالم کیلئے پیام رحمت ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت خدا کی محبت کا وسیلہ ہے۔ کوئی فرد شاید براہ راست بھی راہبوں کی طرح خدا سے رابطہ پیدا کرے،لیکن ملت کی شیرازہ بند تو رسالت ہی ہے:
فرد از حق، ملت از وے زندہ است
از شعاع مہر او تابندہ است
رسالت کی بدولت لاتعداد انسان ہم نوا اور ہم مدعا ہو جاتے ہیں۔ کثرت اس وحدت میں آکر زندہ تر ہو جاتی ہے۔
دین فطرت کا تقاضا اسی قسم کی وحدت آفرینی ہے۔ رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدا کردہ وحدت اگر ہمارے ہاتھ سے نہ چھوٹے تو ہم ابد پیوند ہو سکتے ہیں۔ افراد پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں لیکن ایسی عالمگیر ملت قائم و دائم رہ سکتی ہے محمد (رسولﷺ) پر رسالت کے مقصد کی تکمیل ہو گئی۔ اس پر اب کوئی انسان بنیادی حقائق کا اضافہ نہیں کر سکتا۔
جس طرح محمد (ﷺ) خاتم النبیین ہیں اسی طرح ان کی امت خاتم الامم ہے۔ اس کے علاوہ جو ملتیں قائم ہوں گی وہ آئین فطرت کے خلاف ہوں گی،یا جغرافیائی ہوں گی یا نسلی،یا لسانی۔ ان میں سے کسی کو بقا حاصل نہیں ہو سکتی۔ حق کے مقابل میں باطل کی عمر نہایت قلیل ہوتی ہے۔ اب کوئی نئی نبوت اس سے وسیع تر وحدت پیدا نہیں کر سکتی۔ البتہ کسی جدید دعواے نبوت سے انسانوں میں مزید تفریق و تفرقہ پیدا ہو سکتا ہے:
لا نبی بعدی ز احسان خدا است
پردہ ناموس دین مصطفی است
قوم را سرمایہٴ قوت ازو
حفظ سر وحدت ملت ازو
دل ز غیر اللہ مسلمان می کند
نعرہٴ ’لا قوم بعدی‘ می زند

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط