ایک زمانہ ایسا آیا کہ غلط اندیش مشیروں کے مشورے سے علامہ اقبال بھی پنجاب کی مجلس مقننہ کی رکنیت کیلئے کھڑے ہو گئے۔ اس خانہ نشین حکیم ملت اور ترجمان حقیقت کو گلی گلی کوچے کوچے ووٹ کی طلب میں پھرنا پڑا۔ مخالفوں نے اس پر کیچڑ اچھالا،طرح طرح کے الزامات تراشے اور ایسی ایسی لغو باتیں کہیں جو ناگفتہ بہ ہیں۔ عوام و خاص کی زیادہ تعداد اقبال کی دالدادہ تھی،اس لئے وہ منتخب تو ہو گئے لیکن اور امیدواروں سے بہت کم سہی پھر بھی کوچہ رسوائی میں سے گزرنا پڑا اور ان کی خود داری کو بہت ٹھیس لگی۔
اسمبلی میں سب نمائندے کسی نہ کسی پارٹی میں تھے اور پارٹی کے ہاتھوں اپنا دل و دماغ اور ضمیر بیچ چکے تھے،اقبال جیسا شخص بھلا کسی ایسی پارٹی میں کیسے شریک ہو سکتا تھا۔ مجلس قانون ساز میں انہوں نے اچھی اچھی تجویزیں پیش کیں،کچھ منظور ہوئیں اور کچھ نامظور،لیکن بہرحال یہ میدان اس صاحب عرفان اور خلوص کیش مرد حکیم کی جولاں گاہ نہ تھا۔
(جاری ہے)
آخر بیزار ہو کر اور تلخ تجربہ اٹھا کر پھر اس ابلیسانہ سیاست کی طرف رخ نہ کیا۔
میں نے ان دنوں میں عرض کیا کہ جناب تو ان مجلسں کو حکومت کی دھوکا بازی اور سرمایہ داروں کے اڈے کہتے تھے پھر آپ کو کیا ہوا کہ ایسے خباثت کے مقام میں جا داخل ہوئے۔ فرمایا کہ میں اس غرض اور اس گمان سے وہاں گیا کہ شاید وہاں کھڑا ہو کر حق گوئی سے اس خباثت کو کچھ کم کر سکوں اور اس اڈے والوں کو کسی قدر جھنجوڑوں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اقدام علامہ کے منصب کے خلاف اور خدا کی طرف سے ان کے مخصوص وظیفہ حیات کے منافی تھا۔
خیر کر دے و گذشتے:
ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر
اوپر بیان ہو چکا ہے کہ مغربی جمہوریت اور مساوات کے مدعیوں نے محنت کشوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور محنت کشوں کو جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ ان کی اپنی متحدانہ جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ ہے ورنہ ملوکیت کا پردہ دار،یہ خود غرض جمہوری نظام تو ان کیلئے نان شبینہ کا کفیل بننے کیلئے بھی آمادہ نہ تھا۔
خدا نے فرشتوں کو جو پیغام مزدوروں کی خودداری کو ابھارنے کیلئے دیا اور خضر نے جو پیغام شاعر اسلام کو دیا اس کا مضمون ایک ہی ہے،مگر طرز بیان میں فرق ہے۔ حضر فرماتے ہیں کہ اس مغربی جمہوریت اور اس کے ساتھ وابستہ تہذیب نے اخوت و مساوات انسانی کو ترقی دینے میں کچھ بھی نہیں کیا۔ انقلاب فرانس کا نعرہ ”آزادی،برادری اور برابری“ سرمایہ داروں نے اور ملوکیت کے حامیوں نے اپنے اغراض کیلئے بلند کیا۔
محنت کش اس دھوکے میں آ گئے کہ یہ تصورات ان کی بپتا کو رفع کریں گے۔ یہ جمہوریت نہ نسلی تعصب مٹا سکی اور نہ قومیت کے تنگ دائرے سے نکال کر انسان کو عالم گیر اخوت کی طرف لا سکی۔ کلیسا کی ابلہ فریبی جوں کی توں قائم رہی۔ سفید اقوام کے تفوق کا باطل عقیدہ نہ مٹ سکا۔ خود مغربی اقوام کے اندر طبقاتی تفریق بحال رہی۔ بھلا ایسی جمہوریت کی نقالی کرکے مشرق کو کیا حاصل ہوگا۔
سوا اس کے جاگیرداروں،بڑے زمینداروں اور سرمایہ داروں کے طبقے سلطانی جمہور کے پردے میں اپنے اغراض کو مستحکم کریں۔ مشرق نے جہاں کہیں بھی اس طرز حکومت کی نقل کی ہے،وہاں کی مجالس آئین ساز کا یہی حال ہے کہ ناکردہ کار زمین کے مالک اور دولت والے گروہوں کے سوا کوئی طبقہ یا کوئی فرد حکومت میں اقتدار حاصل نہیں کر سکتا اور نہ کسی ایسے آئین کی تجویز تائید حاصل کر سکتی ہے،جس سے ان گروہوں کے اقتدار پر زد پڑتی ہو۔
اشتراکی مذہب کو غربا کیلئے افیون کہتے تھے۔ اقبال کہتا ہے کہ مغربی جمہوریت بھی محتاجوں کیلئے مسکرات ہی کا کام کرتی ہے:
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر
شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
دست دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
”خواجگی“ نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات
کٹ مرا ناداں خیالی دیوتاؤں کیلئے
سکر کی لذت میں تو لٹوا گیا نقد حیات
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات
مغربی جمہوریت کے ساتھ ساتھ متعصبانہ قوم پرستی بھی ترقی کرتی گئی۔
حکمت و صناعی اور تجارت نے ایک قوم کو دوسری اقوام سے قوی تر کرنے میں دوسروں پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی اور صناعی اور تجارت بھی ایک طرح کی قزاقی ہو کر رہ گئی۔ حکیم المانوی نطشہ نے کہا ہے کہ پہلے زمانے میں سمندروں میں بحری ڈاکو پھرتے تھے جو مال لے جانے والے جہازوں پر چھپا مارتے تھے اور جدید تمدن نے جو ملک التجار پیدا کئے ہیں،یہ وہی بھیس بدلے ہوئے ڈاکو ہی ہیں۔
مغربی جمہوریتوں میں یہ ہلاکت انگیز تصادم،جس نے دو عظیم جنگوں میں اس تمدن کو متزلزل کر دیا،اسی ہوس کا نتیجہ تھا جو اس کے خمیر میں پنہاں تھی۔ اس حکمت نے بعض انسانوں کو سائنس اور صنعت سے ابلیسانہ قوت بخش کر نوع انسان کا شکاری بنا دیا۔یہ صناعی محض جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے،جو نظر کو خیرہ کرتی مگر قلب کو تاریک بنا دیتی ہے:
وہ حکمت ناز تھا جس پر خردمندان مغرب کو
ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے
تدبرکی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے
سوال یہ ہے کہ اس مرد فریب جمہوریت کا طلسم مغرب میں جوں کا توں قائم ہے یا کہیں یہ طلسم ٹوٹا بھی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ جمہوریت بھی مغرب کے سیاسی اور معاشرتی ارتقا کی ایک منزل تھی۔
اس کی تعمیر میں خرابی کی ایسی صورتیں تھیں کہ وہ تادیر ایک حالت میں قائم نہ رہ سکتی تھی۔ اپنے ارتقا میں مغربی جمہوریتیں کہیں آگے بڑھیں اور بہت سی خرابیوں کو پھر رفع کرتی گئیں اور کہیں ان کے خلاف ردعمل ہوا اور گردش ایام کا پہیا الٹا پھر گیا۔ ہٹلر کی نازیت اور مسولینی کی فاشطیت نے نسلی تفوق اور قومیت کے جذبے کو ابھار کر اخوت اور مساوات کو از روئے عقیدہ بھی ٹھکرا دیا اور جمہوریت نے آمریت کی صورت اختیار کر لی جس نے تھوڑی عرصے تک قوم کو خوب ابھارا اور چمکایا،لیکن چونکہ عقیدہ باطل تھا اس لئے انجام کار اس نے یار و اغیار سب کو تباہ کرکے چھوڑا۔
روس نے بھی مغربی جمہوریت کے خلاف بغاوت کی اور محنت کشوں کی حمایت میں ایک آمرانہ نظام قائم کیا۔ اس نے بہت سے بت توڑے،لیکن انسانوں کی آزادی کو سلب کرنے اور مادیت کو دین بنانے کی وجہ سے وہ خود ایک مردم خور دیوتا بن گئی:
گو لاکھ سبک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور
اقبال نے جابجا اشتراکی انقلاب کے ایجابی پہلو کی داد دی ہے اور اسے ارتقائے انسانی کا ایک اقدام قرار دیا ہے۔
اقبال کو افسوس یہ ہے کہ اشتراکیت نے خورش،پوشش اور رہائش کے مساویانہ نظم و نسق کو مقصود حیات قرار دیا اور انسانیت و الوہیت کے رموز سے بے گانہ رہی۔ مغربی جمہوریت کے خلاف یہ ردعمل ادھورا رہ گیا۔ اشتراکیت نے اگر روحانیت کے تمام راستے روک دیئے تو یہ بھی نوع انسان کیلئے آفت بن جائے گی۔ بہرحال جو معاشی انقلاب اس کی بدولت ہوا وہ قابل ستائش ہے اور اقبال کے نزدیک انسان کی مزید ترقی کے راستے سے اس کی بدولت بہت سی رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں۔
اقبال اس سے بہت خوش نظر آتا ہے کہ محنت کشوں نے شاہی اور سرمایہ داری کا خاتمہ کر دیا اور کلیسا کے استبداد پر بھی ضرب کاری لگائی۔ اشتراکی کہتے ہیں کہ مغربی جمہوریت ادھوری تھی،ہم نے اس کو کمال تک پہنچایا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ تمہاری جمہوریت بھی انسانیت کے امتیازی جوہر کو اجاگر نہ کرنے کی وجہ سے اور حاضر پرستی اور مادہ پرستی کے سبب ابھی ادھوری ہی ہے۔
جو کچھ تم کر چکے ہو وہ خوب ہے لیکن اب اس سے آگے تو بڑھو:
افسر پادشہی رفت و بہ یغمائی رفت
نے اسکندری و نغمہ دارائی رفت
کوہکن تیشہ بدست آمد و پرویزی خواست
عشرت خواجگی و محنت لالائی رفت
یوسفی را نو اسیری بہ عزیزی بردند
ہمہ افسانہ و افسون زلیخائی رفت
راز ہائے کہ نہاں بود بازار افتاد
آں سخن سازی و آن انجمن آرائی رفت
چشم بکشائے اگر چشم تو صاحب نظر است
زندگی در پے تعمیر جہان دگر است