Episode 93 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 93 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

مسلمان حافظ کو ولی اللہ اور لسان الغیب سمجھتے ہیں اور قرآن کریم کی طرح حافظ کے دیوان سے فال نکالتے ہیں۔ اس کی شراب کو شراب معنوی سمجھتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کا مجاز حقیقت کا پردہ دار ہے۔ لیکن مجاز میں حقیقت کی جھلک دیکھنے والے کم ہیں اور عشق کو ہوس بنانے والے زیادہ۔ اگر کوئی لذت پرست شخص حافظ علیہ الرحمتہ کا کلام پڑھے تو اس کو اپنی لذت پرستی یا جھوٹی مستی کیلئے بہت کچھ جواز مل جائے گا۔
اقبال کا رویہ دیوان حافظ کے بارے میں اورنگ زیب عالمگیر کے زاویہ نگاہ کے مشابہ ہے،جس کے متعلق روایت ہے کہ وہ لوگوں کو دیوان حافظ کے پڑھنے سے روکتا تھا۔ اگرچہ اس روایت کے ساتھ یہ بھی ہے کہ خود اسے اپنے تکیہ کے نیچے رکھتا تھا۔ جب لوگوں کی طرف سے لے دے ہوئی تو اقبال نے حافظ پر جو تنقید کی تھی،اس کو دوسرے ایڈیشن سے خارج کر دیا۔

(جاری ہے)

اقبال کہتا ہے کہ عرب کے کلام میں حقیقت پروری اور ہمت افزائی تھی۔

اس میں صحرا کی گرمی اور باد صرصر کی تندی تھی۔ عجمی افکار و جذبات نے اسلامی ادب کو زندگی کی قوتوں سے بیگانہ کر دیا۔ نقد سخن کو ہمیشہ معیار زندگی پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح علم برائے علم ایک لایعنی شغل ہے اسی طرح فن براے فن بھی نخل حیات کی ایک بریدہ اور افسردہ شاخ ہے۔
اسلامی ادبیات کی تنقید کے بعد اقبال نے تربیت خودی کے تین مراحل بیان کئے ہیں۔
پہلا مرحلہ اطاعت ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کی خودی خود سری نہیں ہے۔ حکمرانی کیلئے پہلے حکم برداری کی مشق مسلم ہے۔ جس نے خود اطاعت کی مشق نہ کی ہو وہ دوسروں سے اطاعت طلب کرنے کا حق بھی نہیں رکھتا۔ انسان کو خدا اختیار و ورزی کی مشق کرانا چاہتا ہے تاکہ وہ فطرت کے جبر سے نکل کر اپنے اختیار سے فضیلت کوش اور خدا طلب بن سکے۔ اصل مقصد اطاعت کو اختیاری بنانا ہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ جبر کو اختیار میں بدلنا ہے۔ ایک عارف کا قول ہے کہ ہمیں اختیار اس لئے عطا کیا گیا ہے کہ ہم اپنے اختیار کو خدا کے اختیار کا ہم کنار کرکے جبر و اختیار کا تضاد محو کر دیں۔ فرمان پذیری کسی غیر کی نہیں بلکہ اپنی فطرت کے نصب العین کی ہے۔ اسی مضمون کو اقبال نے اس شعر میں ادا کیا ہے:
در اطاعت کوش اے غفلت شعار
می شود از جبر پیدا اختیار
جب انسان اپنے اختیار سے اپنی سیرت کو مستحکم کر چکتا ہے تو وہ ایک منظم آئین کے ماتحت عمل کرتی ہے۔
بالفاظ دیگر اس میں ایک اختیاری جبر پیدا ہو جاتا ہے۔ باقی تمام کائنات بھی آئین پر قائم ہے،لیکن اس میں آئین سے سرگردانی کی کوئی طاقت یا میلان نہیں۔ بقول مرزا غالب:
گر چرخ فلک گردی سر بر خط فرماں نہ
ور گوے زمیں باشی وقف خم چوگان شو
اسی طرح ضبط نفس سے نفس کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ خواہشوں کے تھپیڑے کھاتے رہنے سے نفس اور جسم کی قوتیں منتشر ہو جاتی ہیں اور کسی ایک مرکز پر ان کو مرکز کرنے سے کرنوں میں جو حدت پیدا ہو سکتی ہے،نفس اس قوت اور حرارت سے محروم رہتا ہے۔
اقبال کے ہاں خودی کا تصور درحقیقت قرآن کریم کے نیابت الٰہی کے تصور کا آئینہ ہے۔ خدا کی ذات لامتناہی قوتوں کا سرچشمہ ہے۔ خدا کی مشیت اور قوتوں کے سامنے خاک و افلاک،ذرہ و خورشید،سب سر بسجود ہیں۔ قرآن کریم میں جس نصب العینی آدم کا تصور پیش کیا گیا ہے وہ بھی مسجود ملائک ہے۔ اس ظاہری تضاد سے توحید میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ جب کسی بادشاہ کا وزیر یا نائب پوری طرح اس کی سیاست کو سمجھنے والا اور تہ دل سے اس کے احکام کو بجا لانے والا ہو تو اگرچہ سرچشمہ اقتدار بادشاہ ہوتا ہے لیکن رعایا کو نائب کی اطاعت اس طرح کرنی پڑتی ہے جس طرح بادشاہ کی۔
انسان کا نصب العین یہ ہے کہ شمس و قمر شجر و حجر اور کائنات کی وہ قوتیں جنہیں ملائکہ کہتے ہیں،سب کے سب اس کیلئے مسخر ہوں اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ وہ مشیت ایزدی کے عرفان سے اپنی خودی کو استوار کرتا چلا جائے اس کی قوت تسخیر کی کوئی حد نہ ہو گی۔ نباتات و حیوانات اور اجرام فلکیہ پر اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ ملائکہ،انبیا اور آخر میں خدا کے ساتھ ہم کنار ہو سکے گا۔
یہی وہ مقام ہے جس کی نسبت اقبال کہتا ہے کہ:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
یہ نائب حق ترقی کرتا ہوا،جزو کل سے آگاہ ہوتا ہوا،قائم بامر اللہ ہو جائے گا۔ اس نائب حق یہ خلیفة اللہ کی فطرت صرف موجودہ عالموں ہی کی تسخیر نہیں کرے گی بلکہ وہ خدا کی خلاقی سے بہرہ اندوز ہو کر،ہژدہ ہزار جدید عوالم بھی وجود میں لا سکے گا۔
اس کی فطرت لامتناہی ممکنات سے لبریز ہو گی جو نمود کیلئے بیتاب ہوں گے:
فطرتش معمور و می خواہد نمود
عالمے دیگر بیارد در وجود
صد جہاں مثل جہان جزو و کل
روید از کشت خیال او چو گل
ایک نقاد نے کہا ہے کہ اقبال نے نیابت الٰہی کے پردے میں انسان کو خدا بنا دیا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال نے جوش میں آکر ایسے اشعار لکھے ہیں جہاں انسانیت اور الوہیت کے ڈانڈے ملے ہوئے معلوم ہوتے ہیں:
از قم او خیزد اندر گور تن
مردہ جانہا چوں صنوبر در چمن
ذات او توجیہ ذات عالم است
از جلال او نجات عالم است
جلوہ ہا خیزد ز نقش پاے او
صد کلیم آوارہ سیناے او
ایسے اشعار سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔
قرآن کریم میں ایسے اشارے موجود ہیں کہ عبودیت میں کامل ہو کر اور خدا کی ذات کو اپنی ذات میں سمو کر،بندہ جو فعل کرتا ہے اس کے اس فعل میں اور خدا کے فعل میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ ”مارمیت“ کی آیت کے علاوہ بھی اور کئی آیات اس نظریے کے ثبوت میں پیش کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ قدیم اسلامی تعلیم کے مطابق انسان کا فرق یہ ہے کہ وہ اخلاق الہیہ اپنے اندر پیدا کرنے کی سعی بلیغ کرے۔
اخلاق الہیہ،صفات الہیہ ہی ہیں اور صفات کو ذات سے جدا نہیں کر سکتے۔ اس مسئلے کو اقبال کے مرشد رومی نے ایک تشبیہ سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ لوہا آگ میں پڑ کر آگ کا ہم شکل اور بہت حد تک اس کا ہم صفت ہو جاتا ہے۔ بہت سے کام جو آگ کر سکتی ہے وہ ایسی حالت میں لوہا بھی کر سکتا ہے۔ لوہا ایسی حالت میں اگر ’من آتشم‘ کہہ اٹھے تو غلط نہ ہوگا۔
اگرچہ اس ہم صفتی کے باوجود خدا اور ”تخلقوا باخلاق اللہ“ پر کاملاً عمل کرنے والے بندے میں پھر بھی خالق و مخلوق کا ذاتی امتیاز باقی رہے گا۔ یہ نائب حق کسی بنے بنائے عالم کے ساتھ توافق کی کوشش ہی میں نہیں لگا رہتا،وہ شکوہ فلک میں آہ و زاری نہیں کرتا رہتا،بلکہ زمین و آسمان کو متزلزل کرکے ”فلک راسقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم“ کیلئے بھی آمادہ ہوتا ہے:
گر نہ سازد با مزاج او جہاں
می شود جنگ آزما با آسماں
بر کند بنیاد موجودات را
می دہد ترکیب نو ذرات را
گردش ایام را برہم زند
چرخ نیلی فام را برہم زند
مغرب میں اقبال کے شباب سے کسی قدر پیشتر نطشے نے بڑے زور شور سے فوق البشر کا تخیل نیم شاعرانہ،نیم حکیمانہ اور کسی قدر مجذوبانہ انداز میں پیش کیا تھا۔
جس کا لب لباب یہ ہے کہ موجودہ نوع انسان ایک بہت گئی گزری مخلوق ہے۔ عجز و انکسار کی مذہبی اور اخلاقی تعلیم نے اس کے اقدار حیات کو پلٹ کر انسان کو راضی بہ تذلل اور مائل بہ انحطاط کر دیا ہے۔ فعلیت کی بجائے انفعال کو سراہا جاتا ہے۔ تنازع للبقا میں حیوانی انواع محض افزائش قوت کے اصول پر عمل کرتی ہوئی امیبا سے انسان تک ترقی کر چکی ہیں۔
زندگی سراسر ایک پیکار ہے۔ قوت زندگی کی ایک اساسی قدر ہے۔ ضعیف پروری سے زندگی کے عناصر سست پڑ جاتے ہیں۔ رحم کوئی فضیلت نہیں بلکہ حیات کش ہونے کی وجہ سے ایک مذموم صفت ہے،جو کمزوروں کی اخلاقیات نے اپنی حفاظت کیلئے ایجاد کی ہے۔ رحمان و رحیم خدا بھی بے کار ہے اور رحیم انسان بھی غلامانہ ذہنیت رکھتا ہے۔ موجودہ نوع انسان کو چاہئے کہ اپنے آپ کو منسوخ کرکے ایک نئی نوع کے خواص پیدا کرے۔
زندگی کو فوق البشر انسان کا انتظار ہے،جس کی اخلاقیات موجودہ اخلاقیات سے بالکل برعکس ہوں گی۔ وہ تمام اقدار حیات کی نئی تقدیر کرے گا اور اپنی قوتوں میں اضافہ کرنے میں وہ تیع بے دریغ ہوگا۔ وہ زندگی سے فرار نہیں کرے گا بلکہ اس کا مقابلہ کرکے اپنے ممکنات کو معرض شہود میں لائے گا۔ وہ سخت کوش ہو گا،مشکل پسند ہوگا اور خطرات سے غذا حاصل کرے گا۔
نطشے خدا کا منکر تھا اور تمسخر سے کہتا تھا کہ لوگوں کو ابھی تک یہ خبر نہیں پہنچی کہ خدا مر چکا ہے۔ اس کے ہاں نفس یا روح کا تصور بھی اس سے زیادہ نہیں کہ وہ مادی یا جسمانی یا حیوانی قوتوں کا مظہر ہے۔ حقیقت میں اس کو شکایت یہ تھی کہ انسان اچھا حیوان نہیں رہا۔ اچھا حیوان ہو تو شیر کی طرح ہو،جس کے دین میں قوت کے سوا اور کوئی آئین نہیں۔ عجز و انکسار کی تعلیم بکروں کی ایجاد ہے،تاکہ شیروں کے دانت خالص گیاہ خودی کرتے کرتے اپنی تیزی کھو بیٹھیں اور کمزور حیوانوں کو اس طرح شیروں کے جور و تظلم سے نجات مل جائے۔

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط