مسلمان حافظ کو ولی اللہ اور لسان الغیب سمجھتے ہیں اور قرآن کریم کی طرح حافظ کے دیوان سے فال نکالتے ہیں۔ اس کی شراب کو شراب معنوی سمجھتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کا مجاز حقیقت کا پردہ دار ہے۔ لیکن مجاز میں حقیقت کی جھلک دیکھنے والے کم ہیں اور عشق کو ہوس بنانے والے زیادہ۔ اگر کوئی لذت پرست شخص حافظ علیہ الرحمتہ کا کلام پڑھے تو اس کو اپنی لذت پرستی یا جھوٹی مستی کیلئے بہت کچھ جواز مل جائے گا۔
اقبال کا رویہ دیوان حافظ کے بارے میں اورنگ زیب عالمگیر کے زاویہ نگاہ کے مشابہ ہے،جس کے متعلق روایت ہے کہ وہ لوگوں کو دیوان حافظ کے پڑھنے سے روکتا تھا۔ اگرچہ اس روایت کے ساتھ یہ بھی ہے کہ خود اسے اپنے تکیہ کے نیچے رکھتا تھا۔ جب لوگوں کی طرف سے لے دے ہوئی تو اقبال نے حافظ پر جو تنقید کی تھی،اس کو دوسرے ایڈیشن سے خارج کر دیا۔
(جاری ہے)
اقبال کہتا ہے کہ عرب کے کلام میں حقیقت پروری اور ہمت افزائی تھی۔
اس میں صحرا کی گرمی اور باد صرصر کی تندی تھی۔ عجمی افکار و جذبات نے اسلامی ادب کو زندگی کی قوتوں سے بیگانہ کر دیا۔ نقد سخن کو ہمیشہ معیار زندگی پر پرکھنے کی ضرورت ہے۔ جس طرح علم برائے علم ایک لایعنی شغل ہے اسی طرح فن براے فن بھی نخل حیات کی ایک بریدہ اور افسردہ شاخ ہے۔
اسلامی ادبیات کی تنقید کے بعد اقبال نے تربیت خودی کے تین مراحل بیان کئے ہیں۔
پہلا مرحلہ اطاعت ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کی خودی خود سری نہیں ہے۔ حکمرانی کیلئے پہلے حکم برداری کی مشق مسلم ہے۔ جس نے خود اطاعت کی مشق نہ کی ہو وہ دوسروں سے اطاعت طلب کرنے کا حق بھی نہیں رکھتا۔ انسان کو خدا اختیار و ورزی کی مشق کرانا چاہتا ہے تاکہ وہ فطرت کے جبر سے نکل کر اپنے اختیار سے فضیلت کوش اور خدا طلب بن سکے۔ اصل مقصد اطاعت کو اختیاری بنانا ہے۔
دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ جبر کو اختیار میں بدلنا ہے۔ ایک عارف کا قول ہے کہ ہمیں اختیار اس لئے عطا کیا گیا ہے کہ ہم اپنے اختیار کو خدا کے اختیار کا ہم کنار کرکے جبر و اختیار کا تضاد محو کر دیں۔ فرمان پذیری کسی غیر کی نہیں بلکہ اپنی فطرت کے نصب العین کی ہے۔ اسی مضمون کو اقبال نے اس شعر میں ادا کیا ہے:
در اطاعت کوش اے غفلت شعار
می شود از جبر پیدا اختیار
جب انسان اپنے اختیار سے اپنی سیرت کو مستحکم کر چکتا ہے تو وہ ایک منظم آئین کے ماتحت عمل کرتی ہے۔
بالفاظ دیگر اس میں ایک اختیاری جبر پیدا ہو جاتا ہے۔ باقی تمام کائنات بھی آئین پر قائم ہے،لیکن اس میں آئین سے سرگردانی کی کوئی طاقت یا میلان نہیں۔ بقول مرزا غالب:
گر چرخ فلک گردی سر بر خط فرماں نہ
ور گوے زمیں باشی وقف خم چوگان شو
اسی طرح ضبط نفس سے نفس کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے۔ خواہشوں کے تھپیڑے کھاتے رہنے سے نفس اور جسم کی قوتیں منتشر ہو جاتی ہیں اور کسی ایک مرکز پر ان کو مرکز کرنے سے کرنوں میں جو حدت پیدا ہو سکتی ہے،نفس اس قوت اور حرارت سے محروم رہتا ہے۔
اقبال کے ہاں خودی کا تصور درحقیقت قرآن کریم کے نیابت الٰہی کے تصور کا آئینہ ہے۔ خدا کی ذات لامتناہی قوتوں کا سرچشمہ ہے۔ خدا کی مشیت اور قوتوں کے سامنے خاک و افلاک،ذرہ و خورشید،سب سر بسجود ہیں۔ قرآن کریم میں جس نصب العینی آدم کا تصور پیش کیا گیا ہے وہ بھی مسجود ملائک ہے۔ اس ظاہری تضاد سے توحید میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا۔ جب کسی بادشاہ کا وزیر یا نائب پوری طرح اس کی سیاست کو سمجھنے والا اور تہ دل سے اس کے احکام کو بجا لانے والا ہو تو اگرچہ سرچشمہ اقتدار بادشاہ ہوتا ہے لیکن رعایا کو نائب کی اطاعت اس طرح کرنی پڑتی ہے جس طرح بادشاہ کی۔
انسان کا نصب العین یہ ہے کہ شمس و قمر شجر و حجر اور کائنات کی وہ قوتیں جنہیں ملائکہ کہتے ہیں،سب کے سب اس کیلئے مسخر ہوں اور یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ وہ مشیت ایزدی کے عرفان سے اپنی خودی کو استوار کرتا چلا جائے اس کی قوت تسخیر کی کوئی حد نہ ہو گی۔ نباتات و حیوانات اور اجرام فلکیہ پر اقتدار حاصل کرنے کے بعد وہ ملائکہ،انبیا اور آخر میں خدا کے ساتھ ہم کنار ہو سکے گا۔
یہی وہ مقام ہے جس کی نسبت اقبال کہتا ہے کہ:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
یہ نائب حق ترقی کرتا ہوا،جزو کل سے آگاہ ہوتا ہوا،قائم بامر اللہ ہو جائے گا۔ اس نائب حق یہ خلیفة اللہ کی فطرت صرف موجودہ عالموں ہی کی تسخیر نہیں کرے گی بلکہ وہ خدا کی خلاقی سے بہرہ اندوز ہو کر،ہژدہ ہزار جدید عوالم بھی وجود میں لا سکے گا۔
اس کی فطرت لامتناہی ممکنات سے لبریز ہو گی جو نمود کیلئے بیتاب ہوں گے:
فطرتش معمور و می خواہد نمود
عالمے دیگر بیارد در وجود
صد جہاں مثل جہان جزو و کل
روید از کشت خیال او چو گل
ایک نقاد نے کہا ہے کہ اقبال نے نیابت الٰہی کے پردے میں انسان کو خدا بنا دیا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال نے جوش میں آکر ایسے اشعار لکھے ہیں جہاں انسانیت اور الوہیت کے ڈانڈے ملے ہوئے معلوم ہوتے ہیں:
از قم او خیزد اندر گور تن
مردہ جانہا چوں صنوبر در چمن
ذات او توجیہ ذات عالم است
از جلال او نجات عالم است
جلوہ ہا خیزد ز نقش پاے او
صد کلیم آوارہ سیناے او
ایسے اشعار سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔
قرآن کریم میں ایسے اشارے موجود ہیں کہ عبودیت میں کامل ہو کر اور خدا کی ذات کو اپنی ذات میں سمو کر،بندہ جو فعل کرتا ہے اس کے اس فعل میں اور خدا کے فعل میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ ”مارمیت“ کی آیت کے علاوہ بھی اور کئی آیات اس نظریے کے ثبوت میں پیش کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ قدیم اسلامی تعلیم کے مطابق انسان کا فرق یہ ہے کہ وہ اخلاق الہیہ اپنے اندر پیدا کرنے کی سعی بلیغ کرے۔
اخلاق الہیہ،صفات الہیہ ہی ہیں اور صفات کو ذات سے جدا نہیں کر سکتے۔ اس مسئلے کو اقبال کے مرشد رومی نے ایک تشبیہ سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ لوہا آگ میں پڑ کر آگ کا ہم شکل اور بہت حد تک اس کا ہم صفت ہو جاتا ہے۔ بہت سے کام جو آگ کر سکتی ہے وہ ایسی حالت میں لوہا بھی کر سکتا ہے۔ لوہا ایسی حالت میں اگر ’من آتشم‘ کہہ اٹھے تو غلط نہ ہوگا۔
اگرچہ اس ہم صفتی کے باوجود خدا اور ”تخلقوا باخلاق اللہ“ پر کاملاً عمل کرنے والے بندے میں پھر بھی خالق و مخلوق کا ذاتی امتیاز باقی رہے گا۔ یہ نائب حق کسی بنے بنائے عالم کے ساتھ توافق کی کوشش ہی میں نہیں لگا رہتا،وہ شکوہ فلک میں آہ و زاری نہیں کرتا رہتا،بلکہ زمین و آسمان کو متزلزل کرکے ”فلک راسقف بشگافیم و طرح دیگر اندازیم“ کیلئے بھی آمادہ ہوتا ہے:
گر نہ سازد با مزاج او جہاں
می شود جنگ آزما با آسماں
بر کند بنیاد موجودات را
می دہد ترکیب نو ذرات را
گردش ایام را برہم زند
چرخ نیلی فام را برہم زند
مغرب میں اقبال کے شباب سے کسی قدر پیشتر نطشے نے بڑے زور شور سے فوق البشر کا تخیل نیم شاعرانہ،نیم حکیمانہ اور کسی قدر مجذوبانہ انداز میں پیش کیا تھا۔
جس کا لب لباب یہ ہے کہ موجودہ نوع انسان ایک بہت گئی گزری مخلوق ہے۔ عجز و انکسار کی مذہبی اور اخلاقی تعلیم نے اس کے اقدار حیات کو پلٹ کر انسان کو راضی بہ تذلل اور مائل بہ انحطاط کر دیا ہے۔ فعلیت کی بجائے انفعال کو سراہا جاتا ہے۔ تنازع للبقا میں حیوانی انواع محض افزائش قوت کے اصول پر عمل کرتی ہوئی امیبا سے انسان تک ترقی کر چکی ہیں۔
زندگی سراسر ایک پیکار ہے۔ قوت زندگی کی ایک اساسی قدر ہے۔ ضعیف پروری سے زندگی کے عناصر سست پڑ جاتے ہیں۔ رحم کوئی فضیلت نہیں بلکہ حیات کش ہونے کی وجہ سے ایک مذموم صفت ہے،جو کمزوروں کی اخلاقیات نے اپنی حفاظت کیلئے ایجاد کی ہے۔ رحمان و رحیم خدا بھی بے کار ہے اور رحیم انسان بھی غلامانہ ذہنیت رکھتا ہے۔ موجودہ نوع انسان کو چاہئے کہ اپنے آپ کو منسوخ کرکے ایک نئی نوع کے خواص پیدا کرے۔
زندگی کو فوق البشر انسان کا انتظار ہے،جس کی اخلاقیات موجودہ اخلاقیات سے بالکل برعکس ہوں گی۔ وہ تمام اقدار حیات کی نئی تقدیر کرے گا اور اپنی قوتوں میں اضافہ کرنے میں وہ تیع بے دریغ ہوگا۔ وہ زندگی سے فرار نہیں کرے گا بلکہ اس کا مقابلہ کرکے اپنے ممکنات کو معرض شہود میں لائے گا۔ وہ سخت کوش ہو گا،مشکل پسند ہوگا اور خطرات سے غذا حاصل کرے گا۔
نطشے خدا کا منکر تھا اور تمسخر سے کہتا تھا کہ لوگوں کو ابھی تک یہ خبر نہیں پہنچی کہ خدا مر چکا ہے۔ اس کے ہاں نفس یا روح کا تصور بھی اس سے زیادہ نہیں کہ وہ مادی یا جسمانی یا حیوانی قوتوں کا مظہر ہے۔ حقیقت میں اس کو شکایت یہ تھی کہ انسان اچھا حیوان نہیں رہا۔ اچھا حیوان ہو تو شیر کی طرح ہو،جس کے دین میں قوت کے سوا اور کوئی آئین نہیں۔ عجز و انکسار کی تعلیم بکروں کی ایجاد ہے،تاکہ شیروں کے دانت خالص گیاہ خودی کرتے کرتے اپنی تیزی کھو بیٹھیں اور کمزور حیوانوں کو اس طرح شیروں کے جور و تظلم سے نجات مل جائے۔