Episode 90 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 90 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

افلاطون کے ہاں موج متحرک ہے،لیکن موج کا عقلی تصور ساکن ہے اور یہ ساکن عقلی تصور متحرک موج کے مقابلے میں زیادہ حقیقی ہے۔
تمون کے مقابلے میں اس کا محض تصور قائم کرنا ایک الٰہی انداز ہے۔ عاقل کا وظیفہ حیات یہی ہونا چاہئے کہ وہ خود تھپیڑے نہ کھائے بلکہ عقل کے ساحل پر بیٹھا ہوا سبکسار ہو کر اس کے متغیر اور غیر متموج تصور میں اپنے تئیں کھو کر اپنی حقیقت کو پائے۔
اقبال کے ہاں زندگی مقدم ہے اور عقل موخر۔ زندگی جو کچھ پیدا کرتی ہے عقل بعد میں اس کا جائزہ لے کر اس میں قواعد و ضوابط کو ڈھونڈتی ہے۔ حریم حیات میں عقل حلقہ بیرون در ہے۔ وہ آسان سے دور نہیں ہے،لیکن اس کی تقدیر میں حضور نہیں ہے۔ زندگی آپ اپنا نور پیدا کرتی ہے،لیکن اس کو اگر عقل نار حیات سے الگ کرکے ایک ازلی مجرد حقیقت سمجھ لے تو معقولات ظلمت کدہ بن جاتے ہیں۔

(جاری ہے)

زندگی کا آب حیات تاریکی میں گم ہو جاتا ہے۔ اسی لئے اقبال افلاطون کی بابت کہتا ہے کہ:
رخش اور در ظلمت معقول گم
در کہستان وجود افگندہ سم
آنچناں افسون نا محسوس خورد
اعتبار از دست و چشم وگوش برد
اقبال کہتا ہے کہ محسوس کو نامحسوس کے مقابلے میں بے حقیقت قرار دینا انسان کو عالم رنگ و بو سے بے تعلق کر دیتا ہے۔ اسی سے فرار اور گریز پیدا ہوتا ہے اور رہبانیت کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔
جس کی نفس کشی حیات کشی کے مرادف ہے اور اسی لئے اسلام نے مرد مومن کو اس سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم ہے کہ مظاہر و حوادث انفس و آفاق آیات اللہ ہیں۔ یہ سراسر حقیقت ہیں نہ باطل ہیں نہ فریب ادراک! اور نہ اس سے گریز کر کے عرفان خدا حاصل ہو سکتا ہے۔ تصوف کے ایک اور حصے پر افلاطونی رنگ چڑھ گیا اور صوفی نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ:
چشم بند و لب و بند و گوش بند
گر نہ بینی نور حق بر من بخند
اقبال اس افلاطونی تصوف کے خلاف آواز بلند کرتا ہے جو عالم محسوسات کو مایا قرار دے اور خلقت کو باطل ٹھیرائے:
بر تخیلہاے ما فرماں رواست
جام او خواب آور و گیتی رباست
گو سفندے در لباس آدم است
حکم او بر جان صوفی محکم است
مسلمانوں کے متصوفانہ فلسفے نے افلاطون کے اعیان ثابتہ یا ازلی غیر متغیر معقولات کو اپنے فکر کا جزو لاینفک بنا لیا جس کا نتیجہ اقبال کے نزدیک یہ ہوا کہ صوفی بھی ہنگامہ وجود کا منکر اور اعیان نامشہود کا پرستار ہو کر بود کو نابود اور نابود کوبود کہنے لگا۔
لیکن اس قسم کا گیتی گریز تصور خود سقراط،افلاطون اور ارسطو کی زندگیوں پر کوئی سلبی اثر نہ ڈال سکا۔ یہ تینوں مفکرین،اخلاقیات اور سیاسیات پر گہری بحثیں کرتے رہے اور اپنے اپنے انداز میں کوشاں رہے کہ معاشرے کو زیادہ عاقلانہ اور عادلانہ اصول پر از سر تعمیر کیا جائے۔
جماعت کی حکمرانی اور نگرانی سقراط اور افلاطون ایک ایسے منتخب گروہ کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جو عقل اور ایمان کے کماحقہ تحقق کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ سے تزکیہ نفس کر چکے ہوں۔
اقبال نے اسرار خودی میں افلاطون کے نظریہ حیات کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ افلاطون کے وسیح عالم فکر کا فقط ایک پہلو ہے۔ جو قارئین افلاطون کی زندگی اور اس کی وسعت فکر سے نا آشنا ہیں ان کو اسرار خدی کے اشعار سے یہ مغالطہ ہو سکتا ہے کہ افلاطون فرد اور جماعت کے مسائل اور معاملات کو بے حقیقت سمجھتا ہے اور عالم انسان کو اعیان ثابتہ یا مجرد کی افیون کھلا کر بے حس اور بے عمل بنانا چاہتا ہے۔
تاریخی لحاظ سے واقعات اس کے بالکل برعکس رہے ہیں۔ اس مختصر سی تمہید میں اس کی گنجائش نہیں کہ اس حقیقت کو کھول کر بیان کیا جائے کہ افلاطون سے لے کر آخری معاشرتی انقلاب،یعنی اشتراکیت تک،سوسائٹی کو نئے سانچوں میں ڈھالنے کی جو فکری یا عملی کوششیں ہوئی ہیں وہ کم و بیش افلاطونی افکار سے متاثر ہیں۔ اقبال نے ایام شباب میں اپنے متعلق یہ لکھا تھا:
اٹھائے کچھ ورق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گل نے،
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستان میری
اڑا لی قمریوں نے، طوطیوں نے، عندلیبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری
بعینہ یہی کچھ افلاطون کے ساتھ ہوا۔
مشرق فلسفے کے متعلق تو یہ کہنا درست ہو گا کہ وہ تمام کا تمام دنیا سے گریز کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن مغرب کے عظیم نظامات فکر کے متعلق ہانرش رکرٹ جیسے جرمن مفکر اور وہائٹ ہیڈ جیسے انگریزی فلسفی کی رائے ہے کہ یہ سب کے سب افلاطون ہی کی تشریحات ہیں۔ مارکس،لینن،مسولینی اور ہٹلر جیسے معاشرتی انقلاب کے آرزو مند اور اپنے عمل سے دنیا کو تہ و بالا کرنے والے،خواہ اس کا نتیجہ تخریب ہو یا تعمیر،افلاطون ہی کی کتاب سے کچھ کچھ ورق اڑاتے رہے ہیں۔
دوسری طرف رومن کیتھولک کلیسا کی تنظیم بھی بہت کچھ اس کے افکار کا عکس ہے۔ سقراط جس کی زبان سے افلاطون نے اپنا نظریہ حیات بیان کیا ہے،اصلاح معاشرت کی کوشش سے شہید ہو گیا۔ میری ناچیز رائے یہ ہے کہ اقبال نے افلاطون کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اقبال نے فقط یہ دیکھا کہ افلاطونی افکار کا اثر بعض لوگوں پر اچھا نہیں ہوا اور اس کے نظریہ وجود سے فرار عین الحیات کا نتیجہ از روے منطق حاصل ہوتا ہے۔
جس قسم کے حیات گریز تصوف کو اقبال نے مسلمانوں کیلئے افیون قرار دیا وہ افلاطون سے کہیں زیادہ قلاطینوس اسکندری سے حاصل کردہ ہے،جس کے افکار کا اسلامی فلسفہ اشراق اور عیسوی تصوف پر گہرا نقش نمایاں ہے۔ افلاطون راہب نہیں تھا اور نہ زندگی کے تمام پہلوؤں سے متوازی اور متناسب طور پر لطف اٹھانے والے یونانی اس مزاج کے تھے۔ وہ خود بھی اپنے مجرد تصورات میں گم ہو کر علائق حیات سے بے تعلق نہیں ہوا۔
اس کا گھر ایتھنیا کی تمام علمی زندگی کا مرکز تھا۔ ایسے شخص کے متعلق جو عدل کا ایک انقلابی تصور قائم کرکے اس کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں سائرا کیوز کی ریاست سے خارج کیا گیا ہو اور بحری ڈاکوؤں کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا ہو،یہ کہنا ناانصافی معلوم ہوتی ہے کہ:
ذوق روئیدن ندارد دانہ اش
از طپیدن بے خبر پروانہ اش
راہب ما چارہ غیر از رم نداشت
طات غوغاے این عالم نداشت
دل بسوز شعلہ افسردہ بست
نقش آں دنیاے افیون خوردہ بست
حقیقت یہ ہے کہ اس نے زندہ قوموں کو ذوق عمل سے محروم نہیں کیا اور نہ تندرست ملتوں کو مسموم کیا بلکہ جو قومیں مختلف اسباب سے زندگی سے محروم اور بے عملی یا بدعملی سے مسموم ہو چکی تھیں،انہوں نے افلاطونی افکار کی انحطاط انگیز تاویل کر لی۔
افلاطونی فلسفے کا بھی اسی قسم کا حشر ہوا جو اسلام میں نظریہ تقدیر کا ہوا۔ جب تک مومنوں میں قوت ایمان،قوت عمل اور تنظیم حیات صالحہ موجود تھی اس وقت تک تقدیر کا تصور ان کی قوت عمل و ایثار کو تقویت پہنچاتا تھا۔ اس کے بعد عشرت پسندوں اور تن آسانوں نے ترک سعی کو توکل سمجھ لیا اور سب کچھ مقدر ہونے کی وجہ سے سعی کو بے کار جاننے لگے۔ اس میں قرآن کریم کی تعلیم تقدیر کا قصور نہ تھا بے عملی نے اپنی غلط تاویلوں کو اسلام بنا لیا تھا۔
اقبال کے معاصرین میں خودی کے فلسفے کو پیش کرنے والے اور بھی اکابر مفکرین ہیں جن کے افکار سے اقبال پوری طرح آشنا تھا۔ ان میں سے بعض کا مداح اور بعض سے کم و بیش متاثر بھی تھا۔ نطشے،فشٹے،برگساں اور ولیم جیمز کے نظریات ماہیت وجود بہت کچھ وہی ہیں جو اقبال کی تعلیم میں بھی ملتے ہیں۔ اس سے بعض نقادوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ اقبال ان کا مقلد تھا۔
یہ صحیح ہے کہ اقبال نے ان مفکرین سے بہت کچھ حاصل کیا لیکن یہ اقبال کے کمال پر کوئی دھبا نہیں۔ اقبال ان سب سے کسی ایک پہلو میں متفق ہے اور کسی دوسرے اساسی پہلو میں شدید اختلاف رائے بھی رکھتا ہے۔ جہاں تک نطشے کا تعلق ہے،میں اس کے متعلق اپنے مقالے،نطشے رومی اور اقبال“ (مطبوعہ انجمن ترقی اُردو) میں مبسوط بحث کر چکا ہوں جسے یہاں دہرایا نہیں چاہتا۔
اقبال کا ایک مخصوص انداز فکر اور نظریہ حیات تھا۔ اس نخل کی پرورش اس نے مختلف عناصر سے کی۔ ان میں سے کچھ عناصر خاص قرآنی تعلیم کے ہیں۔ کچھ رومی کی صوفیانہ تاویل اور روحانی تجربے کے،کچھ مغرب کے ان مفکرین کے افکار کے،جن کا اقبال ہم نوا ہے یا جو اقبال کے ہم عصر ہیں۔ اقبال کا مغربی فلسفے کا مطالعہ نہایت وسیع اور گہرا تھا۔ اس میں سے جو کچھ اس کے خاص فلسفہ حیات کے مطابق اس نے اخذ کیا اور جو کچھ اس سے متخالف تھا اس کو رد کر دیا۔
اقبال جیسے کسی مفکر کا کلام ہو یا مذہبی صحیفہ ہو،اس کی خوبی اور کمال یہ نہیں ہوتا کہ اس میں وہ باتیں درج ہیں جو دوسروں نے نہ کہی ہوں،پہلی تعلیموں کے پیش بہا عناصر اس میں موجود ہوتے ہیں۔ لیکن ان کی ترکیب ایک نئے حیات آفرین انداز سے ہوتی ہے۔ سنگ و چوب و خشت ہر تعمیر میں کم و بیش ایک ہی قسم کے ہوتے ہیں،لیکن مہندس اور معمار کا کمال اپنے ہنر اور تصور سے اس میں مخصوص قسم کی آسائش اور زیبائش پیدا کر دیتا ہے۔
گوئٹے نے ایکٹرمن سے دوران گفتگو میں ایک مرتبہ کہا کہ ”لوگ بڑے بڑے مفکرین کے افکار تجزیہ کرنے لگ جاتے ہیں اور الگ الگ عناصر کا ماخذ بتانا ان کا شیوہ تحقیق ہوتا ہے،لیکن کیا اس سے ایک بڑے فنکار یا مفکر کی انفرادی شخصیت یا اس کی مخصوص ایچ کا اندازہ ہوسکتا ہے؟ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص گوئٹے کی تحلیل اور تجزیہ اس طرح کرے کہ اس نے اتنے بکرے،اتنی سبزی ترکاری اور اتنی گندم کھائی۔ ان سب کو ملا کر گوئٹے بن گیا۔ لہٰذا گوئٹے کی ماہیت سمجھ میں آ گئی“۔

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط