Episode 44 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 44 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اقبال نے مغرب میں حقیقت حیات سے جو بیگانگی دیکھی وہی محرومی اس کو مشرق میں بھی اور ملت اسلامیہ میں بھی نظر آتی ہے،جہاں قیس اس لئے پیدا نہیں ہو رہے کہ صحرا میں وسعت نہیں اور محمل میں لیلیٰ نہیں، یعنی دل و دماغ کے سامنے کوئی مقصود اور نصب العین نہیں جو قلب کو گرما سکے اور روح کو تڑپا سکے۔ ظاہری خول اور چھلکے نظر آتے ہیں جن کے اندر مغز نابود ہے۔
تیر ترکش کے اندر نہیں یا ہیں تو نیم کش ہیں،کیوں کہ صیاد کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کس ہدف کی طرف ان کو چلایا جائے؟
 دینی زندگی کے کچھ ظواہر ہیں جو بے گوہر صدف ہیں۔ منہ سے توحید کا کلمہ پڑھنے والے طرح طرح کی بت گری اور بت پرستی میں مبتلا ہیں۔ دیر کے نقش و نگار میں کھوئے ہوئے خدا اور خودی سے غافل ہو گئے ہیں۔

(جاری ہے)

جب ملت اسلامیہ کی اپنی یہ حالت ہے تو یہ ملت مغربیوں کی بے دینی پر کس منہ سے معترض ہو سکتی ہے؟ ملا اور صوفی اور سیاسی رہنما اور دولت میں مست افراد سب کا یہی حال ہے۔

مغربیوں نے کم از کم وہ کچھ تو کر دکھایا جو خرد کے بس کی چیز تھی۔ مشرق میں تو روحانیت کے ساتھ عقلیت کا بھی فقدان ہے۔ مغرب کو تو اپنی اصلاح کیلئے فقط اپنی عقلیت اور مادیت کی ترقی یافتہ صورتوں کو روحانیت کے زیر نگین لانا ہے،لیکن مشرق کو اپنے باطن کے ساتھ ظاہر کی درستی کا کام بھی کرنا ہے۔ زندگی کی دوڑ میں مشرق مغرب سے بہت پیچھے رہ گیا ہے،مغرب کو جتنی اصلاح کی ضرورت ہے اس سے بدرجہا زیادہ مشرق اور ملت اسلامیہ اس کی محتاج ہے جس کے عوام و خواص کا یہ حال ہے:
میر سپاہ نا سزا لشکریاں شکستہ صف
آہ! وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
تیر محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف
عشق بتاں سے ہاتھ اٹھا اپنی خودی میں ڈوب جا
نقش و نگاردیر میں خون جگر نہ کر تلف
مشرق و مغرب دونوں میں سے کسی کی صفت قابل ترجیح دکھائی نہیں دیتی تو کہہ اٹھتا ہے کہ ان دونوں تہذیبوں کی قیمت دو جو کے برابر بھی نہیں:
بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو
کہ نیرزد بجوے این ہمہ دیرینہ و نو
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں پید ا وہاں بے ذوق ہے صہبا
مغرب نے غیب کی طرف سے آنکھیں بند کرکے عالم حاضر میں تو کچھ عیش و تنعم پیدا کر لیا ہے،اس کی کوتاہی یہ ہے کہ ”ربنا اتنا فی الدنیا حسنتہ و فی الاخرة حسنتہ“ میں پہلے جزو کی تکمیل میں دوسرے حصے سے غافل ہو گیا ہے،لیکن نصف کام تو اس نے مشرق سے بہت بہتر کر ڈالا ہے۔
گو اس کے عرفان حقیقت میں یہ خامی باقی ہے کہ وہ اسی عالم کے عیش کو اپنے لئے اور آئندہ نسلوں کیلئے عیش تمام سمجھ کر اس کے دوام میں کوشاں ہے:
ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام! وائے تمنائے خام!
مشرق مدت سے فرنگ کے سیل بے پناہ میں بہہ رہا ہے،اب اقبال کی پیشن گوئی ہے:
خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے
فرنگ رہگزر سیل بے پناہ میں ہے
چلو قصہ تمام ہوا،ہم ڈوبے تھے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔
اقبال چاہتا ہے کہ یہ دونوں ڈوب کر پھر ایک تازہ انداز حیات میں ابھریں جس میں زندگی کی تمام ظاہری اور باطنی قوتیں نشوونما پا سکیں۔
اس موضوع میں ایک بات قابل توضیح باقی ہے کہ اقبال کے دل میں فرنگ کے خلاف ایسا شدید جذبہ کیوں ہے جو سینکڑوں غزلوں،نظموں،قطعوں اور رباعیوں میں بار بار ابھرتا ہے۔ اس کا سمجھنا کچھ زیادہ دشوار نہیں،اس مخالفانہ جذبے کی ایک وجہ سیاسی ہے۔
غلبہ فرنگ نے ایشیا اور افریقہ کی تمام اقوام کہن کو جو کسی زمانے میں مذاہب اور تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھیں مغلوب کر لیا،ان اقوام میں پہلے سے انحطاط موجود تھا جس کی ذمہ دار مغربی اقوام نہ تھیں،علوم و فنون مردہ ہو چکے تھے اور مطلق العنان حکومتوں کی وجہ سے رعایا میں اپنے حقوق و فرائض کا کوئی احساس نہ تھا،نہ دینی جذبہ ایسا قوی تھا جو ملتوں کو متحد کرکے آمادہ ایثار کر سکے اور نہ وہ قوم پرستی اور ملت پرستی تھی جس نے مغرب میں دین کی جگہ لے کر مغربی اقوام میں اتحاد اور قوت پیدا کر دی تھی۔
 ہر جگہ جمود اور استبداد کا دور دورہ تھا۔ جب تک مغرب کی یورش ان اقوام پر نہیں ہوئی تب تک حیات اجتماعی کے پرانے ڈھانچے قائم تھے،اگرچہ ان میں ایسی استواری نہ تھی کہ منظم اور قوی اقوام کا مقابلہ کر سکیں۔ علم و ہنر نے جو نئی قوتیں پیدا کی تھیں ان کا یہاں فقدان تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مشرق کی ایسی اقوام مٹھی بھر فرنگیوں کی حکمت اور قوت سے مفتوح و مغلوب ہو گئیں۔
ہندوستان کے تیس کروڑ انسانوں نے ایک لاکھ سے کم انگریزوں کی غلامی قبول کر لی۔ انگریزوں کی اجتماعی،معاشی اور علمی زندگی ان تمام اقوام پر فائق تھی۔ اچھے دل و دماغ کے افراد ان اقوام میں بھی خال خال موجود تھے لیکن اجتماعی زندگی بحیثیت مجموعی نہایت ضعیف اور غیر منظم تھی۔ اس تفاوت کی وجہ سے ہندوستان میں انگریزوں کی فوقیت کا سکہ دلوں پر بیٹھ گیا۔
ملک میں جو مصلحین پیدا ہوئے وہ بھی انگریزوں کی سیاسی قوت سے زیادہ ان کی تہذیب اور علوم و فنون سے مغلوب بلکہ مرعوب تھے۔ مسلمانوں میں احیائے ملت اور اصلاح قوم کا خیال سب سے پہلے سر سید احمد خان کے دل میں پیدا ہوا۔
وہ ملت کا دلدادہ اور اسلام کا شیدائی تھا،لیکن ان حالات میں مسلمانوں کے احیاء کی صورت اس کی سمجھ میں بھی یہی آئی کہ انگریزوں سے علم و فنون حاصل کئے جائیں اور ان کی تہذیب میں سے ان عناصر کو اپنایا جائے جو اسلام کے منافی نہیں بلکہ حقیقت میں اسلامی زندگی کا تقاضا ہیں۔
سرسید اور اس کے رفقا حسن الملک،چراغ علی،حالی،شبلی،نذیر احمد،مولوی ذکاء اللہ وغیرہ سر سید سے اس معاملے میں متفق تھے۔ وہ اپنی تحریروں میں جابجا اپنی تہذیب کی پستی اور فرومایگی اور مغربی تہذیب کے جمال و کمال کا بے دریغ اقرار کرتے ہیں۔ ان کی نیتیں نیک تھیں،وہ ملت کے حقیقی خیر خواہ تھے اور بہت حد تک ان کا یہ خیال درست تھا کہ مشرق کو جمود اور پستی سے نکالنے کیلئے مغربی افکار اور طریقوں کی ضرورت ہے۔
 
وہ ان چیزوں کو اسلام کے منافی نہیں سمجھتے تھے،بلکہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ملت اسلامیہ جب زندہ اور ترقی پذیر تھی تو اس میں یہی صفات پائے جاتے تھے۔ ان میں سے بعض برکات حکومت انگلشیہ کے راگ گاتے تھے اور بعض ایسے تھے جو شعوری اور غیر شعوری طور پر مغربی انداز تفکر سے علم و ادب میں نئی روح پھونکنا چاہتے تھے۔ یہ لوگ اپنی اسلامی تعلیمات،اسلامی علم و ادب اور اسلامی تاریخ کے عالم اور ادیب تھے اور غلامانہ ذہنیت کے مالک نہ تھے لیکن ایک ترقی یافتہ تہذیب و تمدن کی خوبیوں کے منکر نہ ہو سکتے تھے۔
یہ زمانہ مسلمانوں کی ملی خودی کو زور شور سے پیش کرنے کا عہد نہ تھا،چنانچہ اقبال نے بھی اس دور میں علی گڑھ کالج کے طلبہ کو جو پیغام بھیجا اس میں آخر میں یہ نصیحت کی:
بادہ ہے نیم رس ابھی، شوق ہے نارسا ابھی
رہنے دو خم کے سر پہ تم خشت کلیسیا ابھی
سید احمد خاں اسی دور میں راہی ملک بقا ہوئے لیکن ان کے رفقا جو بعد میں تا دیر زندہ رہے ان میں غلبہ فرنگ کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا۔
حالی اور شبلی آخر ایام میں انگریزوں کی حکومت سے بے زار ہونے لگے،اس کے کئی وجوہ تھے۔ ایک وجہ یہ تھی کہ انگریزی تعلیم نے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں وطنیت اور آزادی کے جذبے کی تربیت کی اور میکالے کی وہ پیش گوئی پوری ہونے لگی کہ انگریزی تعلیم کی بدولت ہندوستان میں ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ نئے تعلیم یافتہ لوگوں کے رنگ تو کالے اور سانولے ہوں گے لیکن وہ اپنی ذہنیت میں انگریز ہوں گے اور اپنے ملک کی سیاست اور معاشرے میں ویسے ہی آزاد اداروں کا تقاضا کریں گے جو انگلستان نے اپنے ارتقا میں پیدا کئے ہیں۔

 سید احمد خاں کا مقصد علی الاعلان ایسے ہی مسلمان پیدا کرنا تھا جو ذہنیت میں انگریز ہوں مگر پکے مسلمان بھی ہوں۔ ایک پوچھنے والے نے جب سید صاحب سے یہ دریافت کیا کہ آپ طلبہ کی تعلیم و تربیت کس انداز کی چاہتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اس کالج میں سے مسلمان انگریز پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ مسلمانوں کی ترقی صدیوں سے رکی ہوئی تھی،چودھویں صدی کے بعد سے مسلمانوں نے علوم و فنون میں کوئی اضافہ نہ کیا تھا،دینی علوم بھی جامد اور فرسودہ ہو گئے تھے اور ان میں نئے حالات سے توافق کی صلاحیت مفقود تھی۔
اعلیٰ تعلیم فقط مغربیوں کے ہاں سے مل سکتی تھی،تعلیم کے شائق جو کچھ تعلیم ہندوستان میں مل سکتی تھی اسے ناکافی سمجھ کر براہ راست علم کی پیاس بجھانے کیلئے یورپ چلے جاتے تھے۔ سید احمد خاں خود اپنے دونوں بیٹوں کو اپنے ہمراہ انگلستان لے گئے،جن میں سے ایک کی زندگی نے وفا نہ کی اور دوسرا سید محمود ایک یگانہ روز گار بن گیا،جو بڑے بڑے فرنگی علما کا ہم پلہ تھا۔ خود علامہ اقبال فلسفے کی اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلستان گئے اور جاتے ہوئے کہتے گئے کہ:
چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجکو

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط