اقبال نے مغرب میں حقیقت حیات سے جو بیگانگی دیکھی وہی محرومی اس کو مشرق میں بھی اور ملت اسلامیہ میں بھی نظر آتی ہے،جہاں قیس اس لئے پیدا نہیں ہو رہے کہ صحرا میں وسعت نہیں اور محمل میں لیلیٰ نہیں، یعنی دل و دماغ کے سامنے کوئی مقصود اور نصب العین نہیں جو قلب کو گرما سکے اور روح کو تڑپا سکے۔ ظاہری خول اور چھلکے نظر آتے ہیں جن کے اندر مغز نابود ہے۔
تیر ترکش کے اندر نہیں یا ہیں تو نیم کش ہیں،کیوں کہ صیاد کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کس ہدف کی طرف ان کو چلایا جائے؟
دینی زندگی کے کچھ ظواہر ہیں جو بے گوہر صدف ہیں۔ منہ سے توحید کا کلمہ پڑھنے والے طرح طرح کی بت گری اور بت پرستی میں مبتلا ہیں۔ دیر کے نقش و نگار میں کھوئے ہوئے خدا اور خودی سے غافل ہو گئے ہیں۔
(جاری ہے)
جب ملت اسلامیہ کی اپنی یہ حالت ہے تو یہ ملت مغربیوں کی بے دینی پر کس منہ سے معترض ہو سکتی ہے؟ ملا اور صوفی اور سیاسی رہنما اور دولت میں مست افراد سب کا یہی حال ہے۔
مغربیوں نے کم از کم وہ کچھ تو کر دکھایا جو خرد کے بس کی چیز تھی۔ مشرق میں تو روحانیت کے ساتھ عقلیت کا بھی فقدان ہے۔ مغرب کو تو اپنی اصلاح کیلئے فقط اپنی عقلیت اور مادیت کی ترقی یافتہ صورتوں کو روحانیت کے زیر نگین لانا ہے،لیکن مشرق کو اپنے باطن کے ساتھ ظاہر کی درستی کا کام بھی کرنا ہے۔ زندگی کی دوڑ میں مشرق مغرب سے بہت پیچھے رہ گیا ہے،مغرب کو جتنی اصلاح کی ضرورت ہے اس سے بدرجہا زیادہ مشرق اور ملت اسلامیہ اس کی محتاج ہے جس کے عوام و خواص کا یہ حال ہے:
میر سپاہ نا سزا لشکریاں شکستہ صف
آہ! وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
تیر محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف
عشق بتاں سے ہاتھ اٹھا اپنی خودی میں ڈوب جا
نقش و نگاردیر میں خون جگر نہ کر تلف
مشرق و مغرب دونوں میں سے کسی کی صفت قابل ترجیح دکھائی نہیں دیتی تو کہہ اٹھتا ہے کہ ان دونوں تہذیبوں کی قیمت دو جو کے برابر بھی نہیں:
بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو
کہ نیرزد بجوے این ہمہ دیرینہ و نو
بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے
یہاں ساقی نہیں پید ا وہاں بے ذوق ہے صہبا
مغرب نے غیب کی طرف سے آنکھیں بند کرکے عالم حاضر میں تو کچھ عیش و تنعم پیدا کر لیا ہے،اس کی کوتاہی یہ ہے کہ ”ربنا اتنا فی الدنیا حسنتہ و فی الاخرة حسنتہ“ میں پہلے جزو کی تکمیل میں دوسرے حصے سے غافل ہو گیا ہے،لیکن نصف کام تو اس نے مشرق سے بہت بہتر کر ڈالا ہے۔
گو اس کے عرفان حقیقت میں یہ خامی باقی ہے کہ وہ اسی عالم کے عیش کو اپنے لئے اور آئندہ نسلوں کیلئے عیش تمام سمجھ کر اس کے دوام میں کوشاں ہے:
ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام
وائے تمنائے خام! وائے تمنائے خام!
مشرق مدت سے فرنگ کے سیل بے پناہ میں بہہ رہا ہے،اب اقبال کی پیشن گوئی ہے:
خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے
فرنگ رہگزر سیل بے پناہ میں ہے
چلو قصہ تمام ہوا،ہم ڈوبے تھے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔
اقبال چاہتا ہے کہ یہ دونوں ڈوب کر پھر ایک تازہ انداز حیات میں ابھریں جس میں زندگی کی تمام ظاہری اور باطنی قوتیں نشوونما پا سکیں۔
اس موضوع میں ایک بات قابل توضیح باقی ہے کہ اقبال کے دل میں فرنگ کے خلاف ایسا شدید جذبہ کیوں ہے جو سینکڑوں غزلوں،نظموں،قطعوں اور رباعیوں میں بار بار ابھرتا ہے۔ اس کا سمجھنا کچھ زیادہ دشوار نہیں،اس مخالفانہ جذبے کی ایک وجہ سیاسی ہے۔
غلبہ فرنگ نے ایشیا اور افریقہ کی تمام اقوام کہن کو جو کسی زمانے میں مذاہب اور تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھیں مغلوب کر لیا،ان اقوام میں پہلے سے انحطاط موجود تھا جس کی ذمہ دار مغربی اقوام نہ تھیں،علوم و فنون مردہ ہو چکے تھے اور مطلق العنان حکومتوں کی وجہ سے رعایا میں اپنے حقوق و فرائض کا کوئی احساس نہ تھا،نہ دینی جذبہ ایسا قوی تھا جو ملتوں کو متحد کرکے آمادہ ایثار کر سکے اور نہ وہ قوم پرستی اور ملت پرستی تھی جس نے مغرب میں دین کی جگہ لے کر مغربی اقوام میں اتحاد اور قوت پیدا کر دی تھی۔
ہر جگہ جمود اور استبداد کا دور دورہ تھا۔ جب تک مغرب کی یورش ان اقوام پر نہیں ہوئی تب تک حیات اجتماعی کے پرانے ڈھانچے قائم تھے،اگرچہ ان میں ایسی استواری نہ تھی کہ منظم اور قوی اقوام کا مقابلہ کر سکیں۔ علم و ہنر نے جو نئی قوتیں پیدا کی تھیں ان کا یہاں فقدان تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مشرق کی ایسی اقوام مٹھی بھر فرنگیوں کی حکمت اور قوت سے مفتوح و مغلوب ہو گئیں۔
ہندوستان کے تیس کروڑ انسانوں نے ایک لاکھ سے کم انگریزوں کی غلامی قبول کر لی۔ انگریزوں کی اجتماعی،معاشی اور علمی زندگی ان تمام اقوام پر فائق تھی۔ اچھے دل و دماغ کے افراد ان اقوام میں بھی خال خال موجود تھے لیکن اجتماعی زندگی بحیثیت مجموعی نہایت ضعیف اور غیر منظم تھی۔ اس تفاوت کی وجہ سے ہندوستان میں انگریزوں کی فوقیت کا سکہ دلوں پر بیٹھ گیا۔
ملک میں جو مصلحین پیدا ہوئے وہ بھی انگریزوں کی سیاسی قوت سے زیادہ ان کی تہذیب اور علوم و فنون سے مغلوب بلکہ مرعوب تھے۔ مسلمانوں میں احیائے ملت اور اصلاح قوم کا خیال سب سے پہلے سر سید احمد خان کے دل میں پیدا ہوا۔
وہ ملت کا دلدادہ اور اسلام کا شیدائی تھا،لیکن ان حالات میں مسلمانوں کے احیاء کی صورت اس کی سمجھ میں بھی یہی آئی کہ انگریزوں سے علم و فنون حاصل کئے جائیں اور ان کی تہذیب میں سے ان عناصر کو اپنایا جائے جو اسلام کے منافی نہیں بلکہ حقیقت میں اسلامی زندگی کا تقاضا ہیں۔
سرسید اور اس کے رفقا حسن الملک،چراغ علی،حالی،شبلی،نذیر احمد،مولوی ذکاء اللہ وغیرہ سر سید سے اس معاملے میں متفق تھے۔ وہ اپنی تحریروں میں جابجا اپنی تہذیب کی پستی اور فرومایگی اور مغربی تہذیب کے جمال و کمال کا بے دریغ اقرار کرتے ہیں۔ ان کی نیتیں نیک تھیں،وہ ملت کے حقیقی خیر خواہ تھے اور بہت حد تک ان کا یہ خیال درست تھا کہ مشرق کو جمود اور پستی سے نکالنے کیلئے مغربی افکار اور طریقوں کی ضرورت ہے۔
وہ ان چیزوں کو اسلام کے منافی نہیں سمجھتے تھے،بلکہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ملت اسلامیہ جب زندہ اور ترقی پذیر تھی تو اس میں یہی صفات پائے جاتے تھے۔ ان میں سے بعض برکات حکومت انگلشیہ کے راگ گاتے تھے اور بعض ایسے تھے جو شعوری اور غیر شعوری طور پر مغربی انداز تفکر سے علم و ادب میں نئی روح پھونکنا چاہتے تھے۔ یہ لوگ اپنی اسلامی تعلیمات،اسلامی علم و ادب اور اسلامی تاریخ کے عالم اور ادیب تھے اور غلامانہ ذہنیت کے مالک نہ تھے لیکن ایک ترقی یافتہ تہذیب و تمدن کی خوبیوں کے منکر نہ ہو سکتے تھے۔
یہ زمانہ مسلمانوں کی ملی خودی کو زور شور سے پیش کرنے کا عہد نہ تھا،چنانچہ اقبال نے بھی اس دور میں علی گڑھ کالج کے طلبہ کو جو پیغام بھیجا اس میں آخر میں یہ نصیحت کی:
بادہ ہے نیم رس ابھی، شوق ہے نارسا ابھی
رہنے دو خم کے سر پہ تم خشت کلیسیا ابھی
سید احمد خاں اسی دور میں راہی ملک بقا ہوئے لیکن ان کے رفقا جو بعد میں تا دیر زندہ رہے ان میں غلبہ فرنگ کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا۔
حالی اور شبلی آخر ایام میں انگریزوں کی حکومت سے بے زار ہونے لگے،اس کے کئی وجوہ تھے۔ ایک وجہ یہ تھی کہ انگریزی تعلیم نے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں وطنیت اور آزادی کے جذبے کی تربیت کی اور میکالے کی وہ پیش گوئی پوری ہونے لگی کہ انگریزی تعلیم کی بدولت ہندوستان میں ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ نئے تعلیم یافتہ لوگوں کے رنگ تو کالے اور سانولے ہوں گے لیکن وہ اپنی ذہنیت میں انگریز ہوں گے اور اپنے ملک کی سیاست اور معاشرے میں ویسے ہی آزاد اداروں کا تقاضا کریں گے جو انگلستان نے اپنے ارتقا میں پیدا کئے ہیں۔
سید احمد خاں کا مقصد علی الاعلان ایسے ہی مسلمان پیدا کرنا تھا جو ذہنیت میں انگریز ہوں مگر پکے مسلمان بھی ہوں۔ ایک پوچھنے والے نے جب سید صاحب سے یہ دریافت کیا کہ آپ طلبہ کی تعلیم و تربیت کس انداز کی چاہتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اس کالج میں سے مسلمان انگریز پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ مسلمانوں کی ترقی صدیوں سے رکی ہوئی تھی،چودھویں صدی کے بعد سے مسلمانوں نے علوم و فنون میں کوئی اضافہ نہ کیا تھا،دینی علوم بھی جامد اور فرسودہ ہو گئے تھے اور ان میں نئے حالات سے توافق کی صلاحیت مفقود تھی۔
اعلیٰ تعلیم فقط مغربیوں کے ہاں سے مل سکتی تھی،تعلیم کے شائق جو کچھ تعلیم ہندوستان میں مل سکتی تھی اسے ناکافی سمجھ کر براہ راست علم کی پیاس بجھانے کیلئے یورپ چلے جاتے تھے۔ سید احمد خاں خود اپنے دونوں بیٹوں کو اپنے ہمراہ انگلستان لے گئے،جن میں سے ایک کی زندگی نے وفا نہ کی اور دوسرا سید محمود ایک یگانہ روز گار بن گیا،جو بڑے بڑے فرنگی علما کا ہم پلہ تھا۔ خود علامہ اقبال فلسفے کی اعلیٰ تعلیم کیلئے انگلستان گئے اور جاتے ہوئے کہتے گئے کہ:
چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجکو