ایک بند میں غالب کو جرمنی کے یگانہ روزگار مفکر و شاعر گوئٹے کا ہم نوا قرار دیا ہے۔ ایک عرصے بعد پیام مشرق کے تمہیدی اشعار میں خود اپنا اور گوئٹے کا مقابلہ کیا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ میں بھی تمہاری طرح کا مفکر اور صاحب بصیرت و وجدان شاعر ہوں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ:
من و میدم از زمین مردہ
میں ایک مردہ قوم میں پیدا ہوا جو فقدان حیات کی وجہ سے میری قدر شناس نہیں اور تو نے ایک زندہ قوم میں جنم لیا۔
اگر غالب اور اقبال دونوں گوئٹے کے مماثل اور اس کے ہم نوا ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ دونوں بھی باہم ہم رنگ و ہم آہنگ ہوں گے۔ اقبال کی مماثلت غالب سے کس چیز میں ہے،وہ اسی نظم کے ایک بند سے واضح ہو جاتی ہے:
لطف گویائی میں تیری ہم سری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں
ہائے! اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سرزمیں
آہ! اے نظارہ آموز نکتہ ہیں
گیسوے اُردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ ہے
اچھی شاعری کیلئے خالی پرواز تخیل کافی نہیں،اس کے ساتھ فکر حقیقت رس بھی ہونا چاہئے۔
(جاری ہے)
یہ دونوں چیزیں غالب میں ہم آغوش پائی جاتی ہیں اور انہی دو صفات کی دل کش آمیزش نے اقبال کے کلام میں دل رسی پیدا کی ہے۔ انسانی روح کو گرمانے والی ایک تیسری چیز بھی ہے جس کیلئے کبھی درد دل اور کبھی سوز قلب اور کبھی عشق کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور یہ کیفیت ترقی کرکے جنون کی ہم رنگ ہو جاتی ہے۔
غالب کے ہاں یہ چیز بہت نمایاں نہیں لیکن اس کے جن اشعار میں یہ ملتی ہے وہ فکر و تخیل کے ساتھ مل کر روح انسانی میں کبھی ہیجان و بے تابی اور کبھی سوز و گداز پیدا کرتے ہیں،عشق حقیقی میں سرمست صوفیا کے ہاں اس کا بہت غلبہ ہوتا ہے۔
مولانا روم کے دیوان موسوم بہ دیوان شمس تبریز میں جو وجد و حال سے لبریز غزلیں ہیں وہ صاحب حال صوفی ہی کے قلب سے نکل سکتی ہیں اس بارے میں غالب کے ہاں جو کمی ہے وہ اقبال کے کلام میں بہت کچھ پوری ہو جاتی ہے اور بہت سی غزلوں اور قطعات میں وہ سنائی و عطار و رومی کی صف میں دوش بدوش کھڑا دکھائی دیتا ہے۔
جہاں تک عشق مجازی کا تعلق ہے ان صوفیائے کبار نے یا تو اس میں قدم ہی نہیں رکھا یا بقول عارف رومی ”کردے و گذشتے“ کے اصل کے مطابق جلد مجاز سے حقیقت کی طرف عبور کر گئے ہیں۔
المجاز قنطرة الحقیقتہ… غالب کے ہاں آخر تک مجاز و حقیقت کی آمیزش چلی گئی ہے اور جہاں تک عشق حقیقی کا تعلق ہے وہ صوفی نہیں بلکہ متصوف ہے جو بربنائے تفکر تصوف کا دلدادہ اور بحیثیت نظریہ حیات وحدت وجود کا قائل ہے۔ اقبال کے شباب میں رندی اور عشق مجازی کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں لیکن اس نے کبھی ہوس محبت کو اپنے نفس پر مسلط نہیں ہونے دیا،خود ہی اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ ”دل بکسے نہ باختہ“ ، اقبال نے شروع سے آخر تک عشق کے جو گن گائے ہیں اس کی مثال شاید دنیا کے کسی ادب میں نہ ملے لیکن یہ عشق حیات و کائنات کی یک اساسی اور نفسیاتی کیفیت ہے،یہ حیات علی الاطلاق کا عشق ہے جو افراد و اشیا سب پر پھیلا ہوا ہے،لیکن کوئی ایک فرد اس کا مرکز یا مطمح نظر نہیں۔
اس کا عشق فرد سے گزر کر ملت کا عشق بن جاتا ہے،اس کے بعد وہ تمام نوع انسان پر بلا امتیاز مذہب و ملت پھیل جاتا ہے۔ آخر میں تمام حیات و کائنات اس میں غرق ہو جاتی ہے،مجاز سے حقیقت کی ترقی نفوس عالیہ میں اسی انداز کی ہوتی ہے۔ عشق کی اس حالت میں کائنات کی ہر چیز زندہ اور حسن و عشق سے مرتعش معلوم ہوتی ہے،احترام حیات،احترام کائنات بن جاتا ہے۔
میر درد کا یہ شعر اسی لطیف احساس کو بیان کرتا ہے:
آہستہ سے چل میان کوہسار
ہر سنگ دکان شیشہ گر ہے
آتے ہیں مری نظر میں سب خوب
جو عیب ہے پردہٴ ہنر ہے
غالب کے ہاں بھی بعض اشعار ملتے ہیں جن میں کائنات کے تمام ذرے نفوس اور عشاق کے قلوب دکھائی دیتے ہیں:
ذرہ ذرہ ساغر میخانہ نیرنگ ہے
دیدہ مجنوں بہ چشمکہائے لیلیٰ آشنا
از مہر تا بہ ذرہ، دل و دل ہے آئینہ
طوطی کوشش جہت میں مقابل ہے آئینہ
اے تو کہ ہبچ ذرہ را جز بہ رہ تو روئے نیست
در طلبت تواں گرفت بادیہ را بہ رہبری
اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ شاعری کے بعض پہلوؤں میں غالب اور اقبال میں مماثلت پائی جاتی ہے،لیکن اقبال کے کلام میں اور بھی بہت کچھ ہے جو غالب میں نہیں مل سکتا اور اگر کہیں ملتا ہے تو وہ تفکر اور تاثر کی ہلکی سی لہر ہوتی ہے جو تلاطم خیز نہیں ہو سکتی یا تخیل کی پرواز ہوتی ہے جو شاخ سدرہ تک نہیں پہنچتی۔
اقبال داغ کی تقلید سے تو بہت جلد گزر گیا لیکن غالب کا اثر زیادہ دیر پا تھا۔ افسوس ہے کہ اقبال کا وہ کلام جس میں غالب کا انداز تخیل تھا بانگ درا میں شامل نہیں کیا گیا،جس طرح کہ غالب نے وہ اشعار اُردو دیوان میں شامل نہیں کئے تھے جن میں بیدل کے پیچ در پیچ تخیلات کی بھول بھلیاں تھیں۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں انہوں نے جو نظمیں پڑھیں ان میں جا بجا غالب کا انداز تخیل اور اسلوب بیان پایا جاتا ہے۔
الفاظ،بندشیں،ترکیبیں،اضافتیں غالب سے بہت کچھ مماثل معلوم ہوتی ہیں:
نہیں منت کش تاب شنیدن داستان میری
خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زبان میری
یا نالہ یتیم کا بہ بند جو ۱۸۹۹ء میں انجمن کے جلسے میں پڑھی گئی:
آمد بوے نسیم گلشن رشک رام
ہو نہ مرہون سماعت جس کی آواز قدم
لذت رقص شعاع آفتاب صبحدم
یا صدائے نغمہ مرغ سحر کا زیر و بم
رنگ کچھ شہر خموشاں میں جما سکتے ہیں
خفتگان کنج مرقد کو جگا سکتے ہیں
حضرت اقبال آخر تک غالب کے مداح رہے اور وہ اس لئے کہ وہ بھی اقبال کی طرح ایک مفکر شاعر تھا روایتی اور تقلیدی شاعری کے پیچ میں وہ عرفی کی طرح یا فیضی کی طرح بلند حکیمانہ باتیں کہہ جاتا،اقبال جیسے کائناتی عشق کی تڑپ اس میں بھی کہیں کہیں ملتی ہے،اگرچہ وہ آخر تک سفلی اور علوی جذبات کی کشمکش میں مبتلا رہا اور اپنی آرزو میں کوئی ہم آہنگی پیدا نہ کر سکا،اس کی آخر تک یہی کیفیت رہی:
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
سراپا رہن عشق و ناگزیر الفت ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
اقبال کیلئے بھی حیات،عشق و شوق و آرزو ہے لیکن وہ بہت جلد اسفل سے اعلیٰ کی طرف صعود کر گیا اور وحدت نظریہ حیات نے آرزوؤں کی کثرت میں بھی وحدت پیدا کر دی۔
اضطراب تمنا کے باوجود اس کو اطمینان حاصل ہو گیا کہ اس کا قدم جادہ حقیقت پر ہے۔ غالب کے ہاں بھی آرزو کی نفسیات اور اس کا گہرا فلسفہ جا بجا ملتا ہے۔ ایک شعر جو اس کے منتخب دیوان میں درج نہیں لیکن بھوپال والے نسخے میں موجود ہے،ایسا کہا گیا ہے کہ اقبال بھی اس پر وجد کرنے لگے۔
اقبال نے اپنا یہ خیال کئی اشعار میں بیان کیا ہے کہ عالم آزروئے حیات ہی کی پیداوار اور تمنائے وجود کا مظہر ہے۔
یہ نبات و جماد و نجوم کا جہان کا مخلوقات نہیں اور نہ ہی آخر تک کا کوئی ایک معین عالم ہے۔ خلاق فطرت کے ضمیر میں لامتناہی عالم مضمر ہیں اور انسان کی خودی بھی اسی لامتناہی تمنائے حیات سے بہرہ اندوز ہو کر کئی اور عوالم پیدا کر سکتی ہے اور کئی دیگر عوالم میں قدم رکھ سکتی ہے،جس کا کوئی وہم و گمان انسان کو موجود حالت میں نہیں ہو سکتا،دیکھئے اسی خیال کو غالب نے کس بلیغ انداز میں پیش کیا ہے:
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا