Episode 10 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 10 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

ایک بند میں غالب کو جرمنی کے یگانہ روزگار مفکر و شاعر گوئٹے کا ہم نوا قرار دیا ہے۔ ایک عرصے بعد پیام مشرق کے تمہیدی اشعار میں خود اپنا اور گوئٹے کا مقابلہ کیا ہے جس کا لب لباب یہ ہے کہ میں بھی تمہاری طرح کا مفکر اور صاحب بصیرت و وجدان شاعر ہوں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ:
من و میدم از زمین مردہ
میں ایک مردہ قوم میں پیدا ہوا جو فقدان حیات کی وجہ سے میری قدر شناس نہیں اور تو نے ایک زندہ قوم میں جنم لیا۔
اگر غالب اور اقبال دونوں گوئٹے کے مماثل اور اس کے ہم نوا ہیں تو ظاہر ہے کہ یہ دونوں بھی باہم ہم رنگ و ہم آہنگ ہوں گے۔ اقبال کی مماثلت غالب سے کس چیز میں ہے،وہ اسی نظم کے ایک بند سے واضح ہو جاتی ہے:
لطف گویائی میں تیری ہم سری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں
ہائے! اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سرزمیں
آہ! اے نظارہ آموز نکتہ ہیں
گیسوے اُردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ ہے
اچھی شاعری کیلئے خالی پرواز تخیل کافی نہیں،اس کے ساتھ فکر حقیقت رس بھی ہونا چاہئے۔

(جاری ہے)

یہ دونوں چیزیں غالب میں ہم آغوش پائی جاتی ہیں اور انہی دو صفات کی دل کش آمیزش نے اقبال کے کلام میں دل رسی پیدا کی ہے۔ انسانی روح کو گرمانے والی ایک تیسری چیز بھی ہے جس کیلئے کبھی درد دل اور کبھی سوز قلب اور کبھی عشق کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اور یہ کیفیت ترقی کرکے جنون کی ہم رنگ ہو جاتی ہے۔
 غالب کے ہاں یہ چیز بہت نمایاں نہیں لیکن اس کے جن اشعار میں یہ ملتی ہے وہ فکر و تخیل کے ساتھ مل کر روح انسانی میں کبھی ہیجان و بے تابی اور کبھی سوز و گداز پیدا کرتے ہیں،عشق حقیقی میں سرمست صوفیا کے ہاں اس کا بہت غلبہ ہوتا ہے۔
مولانا روم کے دیوان موسوم بہ دیوان شمس تبریز میں جو وجد و حال سے لبریز غزلیں ہیں وہ صاحب حال صوفی ہی کے قلب سے نکل سکتی ہیں اس بارے میں غالب کے ہاں جو کمی ہے وہ اقبال کے کلام میں بہت کچھ پوری ہو جاتی ہے اور بہت سی غزلوں اور قطعات میں وہ سنائی و عطار و رومی کی صف میں دوش بدوش کھڑا دکھائی دیتا ہے۔
 جہاں تک عشق مجازی کا تعلق ہے ان صوفیائے کبار نے یا تو اس میں قدم ہی نہیں رکھا یا بقول عارف رومی ”کردے و گذشتے“ کے اصل کے مطابق جلد مجاز سے حقیقت کی طرف عبور کر گئے ہیں۔
المجاز قنطرة الحقیقتہ… غالب کے ہاں آخر تک مجاز و حقیقت کی آمیزش چلی گئی ہے اور جہاں تک عشق حقیقی کا تعلق ہے وہ صوفی نہیں بلکہ متصوف ہے جو بربنائے تفکر تصوف کا دلدادہ اور بحیثیت نظریہ حیات وحدت وجود کا قائل ہے۔ اقبال کے شباب میں رندی اور عشق مجازی کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں لیکن اس نے کبھی ہوس محبت کو اپنے نفس پر مسلط نہیں ہونے دیا،خود ہی اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ ”دل بکسے نہ باختہ“ ، اقبال نے شروع سے آخر تک عشق کے جو گن گائے ہیں اس کی مثال شاید دنیا کے کسی ادب میں نہ ملے لیکن یہ عشق حیات و کائنات کی یک اساسی اور نفسیاتی کیفیت ہے،یہ حیات علی الاطلاق کا عشق ہے جو افراد و اشیا سب پر پھیلا ہوا ہے،لیکن کوئی ایک فرد اس کا مرکز یا مطمح نظر نہیں۔
 اس کا عشق فرد سے گزر کر ملت کا عشق بن جاتا ہے،اس کے بعد وہ تمام نوع انسان پر بلا امتیاز مذہب و ملت پھیل جاتا ہے۔ آخر میں تمام حیات و کائنات اس میں غرق ہو جاتی ہے،مجاز سے حقیقت کی ترقی نفوس عالیہ میں اسی انداز کی ہوتی ہے۔ عشق کی اس حالت میں کائنات کی ہر چیز زندہ اور حسن و عشق سے مرتعش معلوم ہوتی ہے،احترام حیات،احترام کائنات بن جاتا ہے۔
میر درد کا یہ شعر اسی لطیف احساس کو بیان کرتا ہے:
آہستہ سے چل میان کوہسار
ہر سنگ دکان شیشہ گر ہے
آتے ہیں مری نظر میں سب خوب
جو عیب ہے پردہٴ ہنر ہے
غالب کے ہاں بھی بعض اشعار ملتے ہیں جن میں کائنات کے تمام ذرے نفوس اور عشاق کے قلوب دکھائی دیتے ہیں:
ذرہ ذرہ ساغر میخانہ نیرنگ ہے
دیدہ مجنوں بہ چشمکہائے لیلیٰ آشنا
از مہر تا بہ ذرہ، دل و دل ہے آئینہ
طوطی کوشش جہت میں مقابل ہے آئینہ
اے تو کہ ہبچ ذرہ را جز بہ رہ تو روئے نیست
در طلبت تواں گرفت بادیہ را بہ رہبری
اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ شاعری کے بعض پہلوؤں میں غالب اور اقبال میں مماثلت پائی جاتی ہے،لیکن اقبال کے کلام میں اور بھی بہت کچھ ہے جو غالب میں نہیں مل سکتا اور اگر کہیں ملتا ہے تو وہ تفکر اور تاثر کی ہلکی سی لہر ہوتی ہے جو تلاطم خیز نہیں ہو سکتی یا تخیل کی پرواز ہوتی ہے جو شاخ سدرہ تک نہیں پہنچتی۔
اقبال داغ کی تقلید سے تو بہت جلد گزر گیا لیکن غالب کا اثر زیادہ دیر پا تھا۔ افسوس ہے کہ اقبال کا وہ کلام جس میں غالب کا انداز تخیل تھا بانگ درا میں شامل نہیں کیا گیا،جس طرح کہ غالب نے وہ اشعار اُردو دیوان میں شامل نہیں کئے تھے جن میں بیدل کے پیچ در پیچ تخیلات کی بھول بھلیاں تھیں۔ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں انہوں نے جو نظمیں پڑھیں ان میں جا بجا غالب کا انداز تخیل اور اسلوب بیان پایا جاتا ہے۔
الفاظ،بندشیں،ترکیبیں،اضافتیں غالب سے بہت کچھ مماثل معلوم ہوتی ہیں:
نہیں منت کش تاب شنیدن داستان میری
خموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زبان میری
یا نالہ یتیم کا بہ بند جو ۱۸۹۹ء میں انجمن کے جلسے میں پڑھی گئی:
آمد بوے نسیم گلشن رشک رام
ہو نہ مرہون سماعت جس کی آواز قدم
لذت رقص شعاع آفتاب صبحدم
یا صدائے نغمہ مرغ سحر کا زیر و بم
رنگ کچھ شہر خموشاں میں جما سکتے ہیں
خفتگان کنج مرقد کو جگا سکتے ہیں
حضرت اقبال آخر تک غالب کے مداح رہے اور وہ اس لئے کہ وہ بھی اقبال کی طرح ایک مفکر شاعر تھا روایتی اور تقلیدی شاعری کے پیچ میں وہ عرفی کی طرح یا فیضی کی طرح بلند حکیمانہ باتیں کہہ جاتا،اقبال جیسے کائناتی عشق کی تڑپ اس میں بھی کہیں کہیں ملتی ہے،اگرچہ وہ آخر تک سفلی اور علوی جذبات کی کشمکش میں مبتلا رہا اور اپنی آرزو میں کوئی ہم آہنگی پیدا نہ کر سکا،اس کی آخر تک یہی کیفیت رہی:
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
سراپا رہن عشق و ناگزیر الفت ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا
اقبال کیلئے بھی حیات،عشق و شوق و آرزو ہے لیکن وہ بہت جلد اسفل سے اعلیٰ کی طرف صعود کر گیا اور وحدت نظریہ حیات نے آرزوؤں کی کثرت میں بھی وحدت پیدا کر دی۔
اضطراب تمنا کے باوجود اس کو اطمینان حاصل ہو گیا کہ اس کا قدم جادہ حقیقت پر ہے۔ غالب کے ہاں بھی آرزو کی نفسیات اور اس کا گہرا فلسفہ جا بجا ملتا ہے۔ ایک شعر جو اس کے منتخب دیوان میں درج نہیں لیکن بھوپال والے نسخے میں موجود ہے،ایسا کہا گیا ہے کہ اقبال بھی اس پر وجد کرنے لگے۔
 اقبال نے اپنا یہ خیال کئی اشعار میں بیان کیا ہے کہ عالم آزروئے حیات ہی کی پیداوار اور تمنائے وجود کا مظہر ہے۔
یہ نبات و جماد و نجوم کا جہان کا مخلوقات نہیں اور نہ ہی آخر تک کا کوئی ایک معین عالم ہے۔ خلاق فطرت کے ضمیر میں لامتناہی عالم مضمر ہیں اور انسان کی خودی بھی اسی لامتناہی تمنائے حیات سے بہرہ اندوز ہو کر کئی اور عوالم پیدا کر سکتی ہے اور کئی دیگر عوالم میں قدم رکھ سکتی ہے،جس کا کوئی وہم و گمان انسان کو موجود حالت میں نہیں ہو سکتا،دیکھئے اسی خیال کو غالب نے کس بلیغ انداز میں پیش کیا ہے:
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط