Episode 97 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 97 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اقبال نے جو لائحہ عمل ابتدا میں اپنے لئے تجویز کیا تھا آخر تک اس پر عمل کیا ہے۔ اسلامی فرقوں کی لاطائل بحثوں میں اقبال کبھی نہیں پڑا۔ فقیہانہ مناظرہ اس نے کبھی نہ کیا اور بے شمار لاحاصل پرانی داستانیں،جو مسلمانوں کا سرمہ ادب اور گنجینہ مواعظ بن گئی ہیں ان کو اقبال نے یک سر ترک کر دیا۔
اقبال نے اپنے کلام میں جابجا اپنی سیرت اور میلانات کا تجزیہ کیا ہے لیکن کچھ نظمیں ایسی ہیں جن میں عام محاورے کے مطابق اپنا کچا چٹھا پیش کر دیا ہے۔
بانگ درا میں زاہد اور رندی کے عنوان سے جو نظم ہے اس میں بظاہر ایک مولوی صاحب اقبال کے اندر متضاد نما میلانات دیکھ کر اور اس کی سیرت ناقابل فہم سمجھ کر،معترضانہ انداز میں بات کر رہے ہیں،لیکن اقبال نے مولوی صاحب کے بیان میں سے کسی بات کی تردید نہیں کی۔

(جاری ہے)

مولوی صاحب نے جو کچھ کہا وہ نوجوان اقبال کی زندگی میں کلاً یا جزاً موجود تھا۔ اقبال کے خلوص اور صاف گوئی کی داد دینی چاہئے کہ سب کچھ سن کر مولوی صاحب سے اتفاق ہی کیا کہ واقعی یہ سب باتیں یک جا میری زندگی اور میری طبیعت میں موجود ہیں۔

میں خود بھی ابھی حقیقت سے شناسا نہیں ہوں:
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
اقبال نے خود اپنے آپ کو اس نظم میں رند کہا ہے۔ رند کے صفات جو فارسی اور اُردو ادب میں ملتے ہیں وہ یہ ہیں کہ وہ ظواہر میں شریعت کا پابند معلوم نہیں ہوتا۔ عاشق مزاج ہے۔ ننگ و نام کی پروا نہیں کرتا۔ اس کی طبیعت میں مکروہات سے کچھ گریز دکھائی نہیں دیتا۔
اقبال کی زندگی میں دور شباب میں ان تمام صفات کا شائبہ موجود تھا۔ جو باتیں مولوی صاحب نے کہیں وہ یہ ہیں کہ ہندو کو کافر نہیں سمجھتا۔ یہ درست بات تھی۔ اس نے موحد اور صوفی منش ہندوؤں کی تعریف میں نظمیں لکھی ہیں اور آخری دور میں بھی برتری ہری کا دل سے مداح تھا اور اسے عارف سمجھتا تھا۔ مولوی صاحب نے یہ بھی کہا کہ اقبال کی طبیعت میں تشیع بھی دکھائی دیتا ہے اور اس کا مذہب حضرت علی کی فضیلت کے بارے میں تفصیلی معلوم ہوتا ہے۔
یہ بات بھی غلط نہ تھی۔ اس دور میں طبیعت کا یہی میلان تھا۔ بعض حضرات نے تو اس کو آخر میں بھی شیعہ ہی سمجھا ہے اور اہل بیت کی محبت میں اس نے جو اشعار کہے ہیں ان کو ثبوت میں پیش کر دیتے ہیں،لیکن اہل بیت کی محبت تو شیعہ،سنی سب کے دلوں میں برابر ہے خواہ اس کے اظہار کے طریقے مختلف ہوں۔ ایام شباب کی ایک نظم میں اقبال کا ایک شعر تھا،جو انہوں نے بعد میں ساقط کر دیا،جس میں کمال درجے کا غلو ہے کہ محمد رسول اللہ کی پرستش خدا کی طرح کی جائے اور حضرت علی کو نبی کا رتبہ دے دیا جائے:
نجف میرا مدینہ ہے، مدینہ ہے مرا کعبہ
میں بندہ اور کا ہوں امت شاہ ولایت ہوں
بعض اوقات اقبال جیسا محتاط شاعر بھی جوش اور غلو میں کیا کیا کہہ جاتا ہے،جسے بعد میں اس کی عقل سلیم رد کر دیتی ہے،لیکن تمام عمر میں اقبال نے شیعیت کو کسی رنگ میں بھی درست نہیں سمجھا۔
ایام شباب کی یہ ہلکی ہلکی لہریں پھر اس کے دریائے طبیعت میں کبھی ابھرتی ہوئی دکھائی نہیں دیں۔ مولوی صاحب کو اس پر بھی اعتراض ہے کہ اقبال کو موسیقی سے رغبت ہے۔ یہ بھی صحیح بات تھی۔ شعر میں موسیقی سموئی ہوئی ہے۔ کون تلمیذ الرحمن شاعر ایسا ہو سکتا ہے جس کی روح میں موسیقی موجود نہ ہو۔ اقبال اچھا گانا سننے کے شائق تھے اور خود بھی اچھے سروں میں گا سکتے تھے۔
لیکن بقول عارف رومی:
بر سماع راست ہر کس چیز نیست
طمعہ ہر مرغکے انجیر نیست
ایام شباب میں اقبال کو رقص و سرود کی محفلوں سے گریز نہ تھا اور ان کے ایک دوست،جو ابھی تک بقیہ حیات ہیں،اپنے گھر پر اس کا انتظام کرتے تھے،لیکن یہ طوائفوں کا گانا سننے والا اقبال گانا سنتے سنتے کسی اور عالم میں بھی گم ہو جاتا تھا اور علی الصباح بڑے سوز و گداز سے قرآن کی تلاوت کرتا تھا:
رندی سے بھی آگاہ، شریعت سے بھی واقف
پوچھو جو تصوف کی، تو منصور کا ثانی
اقبال کی طبیعت میں اس دور میں رندی،تصوف اور حکمت باہم برسر پیکار تھے۔
کسی دوسرے ظاہر پرست ملا کی زبانی اقبال نے اس تضاد کا پورا نقشہ دنیا کے سامنے رکھ دیا کہ یہ سب باتیں مجھ میں موجود ہیں،اب آپ کا جو جی چاہے میری نسبت رائے قائم کر لیجئے لیکن اقبال ابھی خود اپنے آپ کو نہیں سمجھتا تو دوسرا اسے کیا سمجھے گا۔
اقبال کی شاعری کا شہرہ یک بیک بہت عالم گیر ہو گیا۔ اس کے افکار میں جدت تھی،طرز کلام میں لذت تھی،اعلیٰ درجے کے قومی اور روحانی جذبات اور حکمت کے جواہر ریزے اس کے اشعار میں بکھرے پڑے تھے۔
اس کے علاوہ وہ اشعار ایسے ترنم سے پڑھتے تھے کہ سننے والوں کی روح وجد میں آ جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے لوگوں نے ان کی نقالی شروع کر دی،لیکن کہیں بھی نقل اصل کو نہ پہنچ سکی۔ کثرت سے نوجوان اس کی لے میں شعر پڑھنے لگے۔ اس کیفیت کے متعلق اقبال نے تصویر درد میں اشارہ کیا ہے:
اٹھائے کچھ ورق لالے نے کچھ نرگس نے کچھ گل نے
چمن میں ہر طرف بکھری ہوئی ہے داستاں میری
اڑا لی قمریوں نے طوطیوں نے عندلیبوں نے
چمن والوں نے مل کر لوٹ لی طرز فغاں میری
حسن اور عشق تو شاعر اور شاعری کا خمیر ہیں۔
خواہ وہ عشق الٰہی ہو،خواہ عشق عالم،خواہ عشق آدم۔ یہ جوہر اقبال کی طبیعت اور اس کے کلام میں شروع میں بھی نمایاں ہے،وسط میں بھی اور دور آخر میں بھی۔ آخر میں تو شراب دو آتشہ بلکہ سہ آتشہ ہو گئی ہے۔ لیکن ایام شباب میں اقبال کا ذوق سلیم بھی حسن و عشق کی کشش سے کچھ کم نہ تھا۔ مشرق تہذیب و ادبیات کو وہ ایک مشرقی استاد کامل مولانا میر حسن سے حاصل کرتا ہے اور مغربی فلسفہ آرنلڈ جیسے باکمال مغربی استاد سے۔
مولانا میر حسن کی شان میں اقبال کی کوئی مستقل نظم نہیں،لیکن دل میں اس استاد سے عقیدت ہمیشہ استوار رہی۔ آرنلڈ کے لاہور سے رخصت ہوتے ہوئے کیا حسرت ناک اشعار لکھے ہیں۔ اس دور میں اقبال ابھی تک مغرب اور مغربی فلسفے سے مایوس نہیں ہوا تھا۔ ابھی تک وہ اس سے حقیقت رسی کی امید رکھتا تھا۔
اولیاء کرام سے اقبال کی عقیدت کچھ اسے ورثے میں ملی تھی اور کچھ اس کی اپنی طبیعت اور نظریہ حیات کی بدولت تھی۔
یورپ جاتے ہوئے درگاہ حضرت محبوب الٰہی پر عقیدت کے جو پھول چڑھائے ہیں وہ التجائے مسافر کی نظم میں موجود ہیں۔ اس دور میں اقبال کو اپنے اندر دو قسم کے احساسات دکھائی دیتے ہیں۔ ایک احساس یہ ہے کہ ارباب علم اور اہل دل سے فیض حاصل کرنا چاہئے،خواہ وہ مشرق میں ہوں،خواہ مغرب میں۔ کوئی امتیاز ملت نہیں،لیکن اس کے ساتھ ہی یہ احساس بھی ہے کہ فکر و نظر کے لحاظ سے کچھ تنہا ہی ہوں۔
مجھے اپنا راستہ خود تلاش کرنا پڑے گا:
تراش از تیشہ خود جادہ خویش
براہ دیگراں رفتن عذاب است
اس احساس نے کبھی کسی دور میں اقبال کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ابتدائی غزلوں میں ایک یہ شعر ملتا ہے:
کارواں سے نکل گیا آگے
مثل آوازہ در ہوں میں
کسی اور شاعر کا اسی انداز کا شعر ہے:
از آنکہ پیروی خلق گمرہی آرد
نے رویم بہ راہے کہ کارواں رفتہ است
یورپ جاتے ہوئے فرنگ سے حصول علم کی تمنا کا اظہار بھی کرتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ کسی استاد کی شاگردی اور دوسروں سے اکتساب کے باوجود مجھے جو کچھ حاصل ہے یا ہوگا وہ اس مبدء فیاض سے ہوگا جس سے براہ راست فیضان کی توقع ہے:
چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے
شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجکو
نظر ہے ابر کرم پر، درخت صحرا ہوں
کیا خدا نے نہ محتاج باغبان مجکو
اس کے بعد وہ آرزوئیں ہیں جو اقبال کی سیرت اور اس کے مقصود حیات پرروشنی ڈالتی ہیں۔
الٰہی! مجھے ایسا نردبان عطا ہو کہ میں خاک سے افلاک کی طرف عروج کر سکوں۔ اپنے ہم سفروں سے اس قدر آگے ہو جاؤں کہ قافلے والے مجھے منزل مقصود سمجھ لیں۔ میری زبان قلم سے کسی کا دل نہ دکھے۔ دلوں کو چاک کرنے والی فغاں مجھے عطا ہو۔ اس کے آگے مادر و پدر کی محبت،جس نے اقبال کی جسمانی اور روحانی پرورش کی،اس کا موثر بیان ہے۔ اپنے برادر بزرگ کے متعلق اظہار تشکر ہے جس کی شفقت اقبال پر مادر و پدر سے کم نہ تھی۔
مولانا میر حسن کے فیضان اور احسان کا بھی اقرار ہے۔ اقبال اپنے تئیں بندہ شاکر سمجھتا تھا اور درحقیقت یہ اس کی طبیعت کا ایک قابل قدر عنصر تھا:
وہ شمع بارگہ خاندان مرتضوی
رہے گا مثل حرم جس کا آستاں مجکو
نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی
بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجکو
اقبال خود اپنی سیرت کے متعلق کیا رائے رکھتا ہے اس کا ثبوت جا بجا اس کی آرزوؤں سے ملتا ہے اور یہ نفسانی حقیقت ہے کہ ہر سیرت کی مخصوص تعمیر مخصوص آرزوؤں سے ہوتی ہے۔
ہر انسان کی اصلیت وہی ہے جو اس کی آرزوؤں کی ماہیت ہے۔ اگرچہ یہ ہو سکتا ہے کہ خارجی حوادث اور باطنی مزاحمتیں ان میں بعض کو وجود کا جامہ نہ پہنا سکیں۔
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدہٴ بے حجابی
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
اس دور میں مسلسل خود اپنی حقیقت کی تلاش میں ہے:
ڈھونڈتا پھرتا ہوں اے اقبال اپنے آپ کو
آپ ہی گویا مسافر آپ ہی منزل ہو میں
۱۔
اس شعر کی اقبال کی اپنی شرح ایک صاحب کے سوال کے جواب میں پہلے درج ہو چکی ہے۔
اقبال کو فطرت نے نہ مقلد بنایا تھا اور نہ ظاہر پرست۔ وہ کورانا تقلید سے ہمیشہ گریزاں رہا۔ آخر تک اس کا یہی عقیدہ رہا کہ حقیقت رسی خواہ علم کی بدولت حاصل ہو اور خواہ عشق کا فیضان ہو،تقلید سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ وہ جب واعظ اور صوفی کی روایتی اور تقلیدی زندگی پر اعتراض کرتا ہے تو درحقیقت ان کے مقابلے میں اپنی سیرت کو پیش کر رہا ہے جو تقلید سے گریزاں اور تحقیق کی طرف مائل ہے۔
تقلید کی روش سے تو بہتر ہے خود کشی
رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
مانند خامہ تیری زبان پر ہے حرف غیر
بیگانہ شے پہ نازش بیجا بھی چھوڑ دے
ہے عاشقی میں رسم الگ سب سے بیٹھنا
بت خانہ بھی، حرم بھی، کلیسا بھی چھوڑ دے
مقطع میں واعظ سے بغض للہ کو ایک عجیب شوخ انداز میں پیش کیا ہے:
واعظ ثبوت لائے جو مے کے جواز میں
اقبال کو یہ ضد ہے کہ پینا بھی چھوڑ دے

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط