Episode 116 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 116 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

عصر حاضر میں فانی بدایوانی غزل کا استاد تھا۔ اس کی تمام شاعری میں حرمان و حسرت و یاس کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے دوست جوش میلح آبادی نے اس کے سامنے ایک روز کہا کہ بھائی تمام دنیا تمہارے لئے ایک امام باڑا ہے جس کے اندر تم ایک تعزیہ معلوم ہوتے ہو۔ ایسے شعرا کیلئے زندگی کی حقیقت دکھ کے سوا کچھ نہیں۔ اس شاعری پر ہندی فلسفے اور مذہب کا گہرا اثر ہے جو تمام زندگی کو ایک سزا یا دھوکا سمجھتا ہے۔
حکمت اور گیان کا کام راہ گریز دریافت کرنا ہے جو راہ عمل نہیں،کیوں کہ نیک و بد دونوں اعمال کی بدولت انسان اواگون کے چکر میں سے نہیں نکل سکتا۔ اقبال جیسے شاعر جب سوز حیات ابدی کا ذکر کرتے ہیں تو وہ میر اور فانی کی نالہ کشی نہیں ہوتی۔ اقبال نے تمام اُردو اور فارسی شاعری کا رخ پلٹ دیا اور یہ ایک ایسا عظیم الشان کارنامہ ہے کہ اگر اس نے حکمت کے اور بیش بہا موتی اپنے کلام میں نہ بھی بکھیرے ہوتے تو بھی یہ اکیلا کارنامہ اپنی ملت اور نوع انسان پر ایک بڑا احسان شمار ہوتا۔

(جاری ہے)

اچھا ہنر وہ ہے جس سے بقول ٹینی سن ملتوں کے قلوب استوار ہوں اور جو قوموں کا رخ انحطاط سے عروج کی طرف پلٹ دے۔ فنون لطیفہ کے عنوان سے جو پانچ اشعار ہیں اسی نظریہ ہنر کا لب لباب پیش کرتے ہیں:
اے اہل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
مقصود ہنر سوز حیات ابدی ہے
یہ ایک نفس یا دو نفس مثل شرر کیا
جس سے دل دریا متلاطم نہیں ہوتا
اے قطرہ نیساں وہ صدف کیا وہ گہر کیا
شاعر کی نوا ہو کہ مغنی کا نفس ہو
جس سے چمن افسردہ ہو وہ باد سحر کیا
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضرب کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا
اُردو اور فارسی کا ایسا برا حال کیوں ہوا۔
موضوع سخن کے لحاظ سے شاعری کا زوال ایران سے شروع ہوا۔ وہاں قصیدہ گوئی میں ایک طرف جھوٹ کا طوفان پیدا ہوا۔ اہل ہنر نے اپنا ہنر اور اپنی خودی زر کے عوض بیچ ڈالی۔ اس کے بعد شاعری میں ہوس پرستی اور امرد پرستی کا سیلاب آیا۔ تصوف نے بہت کچھ اس کی اصلاح کی اور صوفیانہ شاعری میں عشق جنسی جذبات سے بلند ہو گیا لیکن اعلیٰ افکار اور جذبات کے ساتھ ساتھ حیات گریز نظریات بھی متصوفانہ شاعری میں داخل ہو گئے،اس لئے وہاں بھی انفعالی کیفیت کا غلبہ ہو گیا۔
اُردو شاعری کو یہ سب کچھ ورثے میں ملا اور ادھر ہندی فلسفہ تھا جو تمام زندگی کو دکھ اور دھوکا قرار دیتا تھا۔ یہ وراثت بھی اُردو شاعروں کے حصے میں آئی۔ تمام شاعری اور موسیقی اندوہگینی سے لبریز ہو گئی۔ اکثر شاعر جو زندگی کا ماتم کرتے تھے وہ ان کا کوئی ذاتی تجربہ نہ تھا،یہ زیادہ تر شاعرانہ روایات کی تقلید تھی،جیسے شراب کو نہ چھونے پر بھی شاعر خواہ مخواہ شربی بنتا ہے،اسی طرح عاشق نہ ہونے پر بھی بہ تکلف و تصنع بازاری عشق کا دعویٰ کرتا ہے۔
تصوف کے جو افکار تھے وہ بھی سب روایتی تھی۔ کئی شاعر زندگی کو ابھارنے کی کوشش کرتے تھے لیکن افکار و تاثرات میں کوئی جدت نہ تھی۔
نظیر اکبر آبادی نے روایتی شاعری کو بالاے طاق رکھ کر گرد و پیش کی زندگی کو اپنی نظر سے دیکھ کر شاعری کی تو تذکرہ نویسوں نے اس کو قابل اعتنا ہی نہ سمجھا۔ اس کی نظر بہت حکیمانہ یا صوفیانہ نہ سہی لیکن جو کچھ کہتا ہے بنظر سے دیکھ کر کہتا ہے اور وہی کچھ کہتا ہے جو محسوس کرتا ہے۔
متقدمین اور متاخرین میں سے کوئی شاعر اس کیلئے قابل نظر تقلید نمونہ نہیں۔ دور حاضر میں حقیقت پسندی اور حقیقت نگاری حالی سے قبل نظر نہیں آتی،مگر اس کو بھی صناع اور مقلد شاعری نے استاد نہ مانا۔ اقبال نے زندگی کو اپنی نظر دیکھ کر شاعری شروع کی تو عرصہ دراز تک روایت پسند اساتذہ اور زبان کے اجارہ داروں کا یہی مشغلہ رہا کہ اس کے کلام میں تذکیر و تانیث اور محاروے کے سقم تلاش کئے جائیں۔
اقبال کہتا ہے کہ ہنر میں جدت زندگی کو اپنی نظر سے دیکھنے سے پیدا ہوتی ہے۔ مقلد محض،خواہ دین میں ہو اور خواہ ہنر میں،چشمہ حیات سے سیراب نہیں ہوتا،وہ دوسروں کی زندگی میں کیا آبیاری کر سکتا ہے:
دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں ترے نور سحر سے
خورشید کرے کسب ضیا تیرے شرر سے
ظاہر تری تقدیر ہو سیماے قمر سے
دریا متلاطم ہوں تری موج گہر سے
شرمندہ ہو فطرت ترے اعجاز ہنر سے
اغیار کے افکار و تخیل کی گدائی
کیا تجھ کو نہیں اپنی خودی تک بھی رسائی؟
شاعروں کے علاوہ مصوروں کے متعلق بھی اقبال کو یہی شکایت ہے کہ یہ بھی مقلد ہی نظر آتے ہیں۔
یہ خیال درست ہے کہ آرٹ کسی قوم کی زندگی کا آئینہ ہوتا ہے،لیکن اگر کوئی ہماری مصوری کو دیکھے تو اس کو ملت کا زاویہ نگاہ،اس کی تمنائیں اور آرزوئیں کہیں نظر نہیں آتیں۔ مغرب میں نشاة ثانیہ سے قبل کلاسیکی آرٹ موجود تھا جس میں عیسوی تصورات کی آمیزش ہو گئی تھی۔ نشاة ثانیہ میں جب حیات فرنگ نے ایک نئی کروٹ لی تو ایک نیا آرٹ پیدا ہو گیا۔ مائیکل انجیلو اور ریمبرانٹ وغیرہ اس نئی زندگی کا اظہار رنگ و سنگ میں کرتے ہیں۔
اسلامی تہذیب و تمدن میں مصوری کو زیادہ فروغ حاصل نہ ہو سکا جس کے اسباب اس سے قبل بیان ہو چکے ہیں۔ عصر حاضر میں جب یہاں مصوری کی طرف توجہ ہوئی تو زیادہ تر اس میں فرنگ کے مختلف سکولوں کی کورانہ تقلید تھی۔ کچھ ایسے تھے جنہوں نے راجپوت سکول کی پیروی کی،کچھ قدیم مغل روایات کے مقلد ہو گئے،جن کی ابتدا اکبر و جہاں گیر کے ذوق سے ہوتی ہے۔ اس دور میں بھی کچھ ایرانی اساتذہ کی نقالی نظر آتی ہے۔
ہمارے زمانے میں بھی جن مصوروں نے نام پیدا کیا ہے ان کی تصویروں میں بھی اپنے وطن اور اپنی قوم کے جذبات کہیں خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ گزشتہ نصف صدی میں مغرب میں مصوری کے کچھ انوکھے سکول پیدا ہوئے،جن میں سے بعض اہل مغرب کیلئے بھی قابل فہم نہ تھے۔ وہ مصوری اپنی جنم بھوم میں بھی معما تھی۔ نقالی سے وہ معما ہمارے ہاں اور مضحکہ خیز بن گیا۔
کسی قنوطی شاعر کا شعر ہے:
اک معما ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کیا ہے کوئی خواب ہے دیوانے کا
بہت سی تصویریں جو اب نمائشوں میں لٹکاتی جاتی ہیں دیوانوں کے خواب کی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن تقلید کی انتہا یہ ہے کہ یہ سپنے بھی یہاں کے دیوانوں کے اپنے سپنے نہیں ہیں۔ بلکہ مغربی دیوانوں کے خوابوں کے خاکے ہیں۔ انسانوں کے جو نقشے ان میں نظر آتے ہیں ان کی یہ کیفیت ہے کہ ”سر لون کا،منہ پیاز کا،امچور کی گردن“۔
کسی زمانے میں ہمارے ہاں شاعری مہمل گوئی پر اتر آئی تھی اور شعر کو معما یا گورکھ دھندا بنانا استادی کا کمال شمار ہوتا تھا۔ مرزا غالب بھی ایام شباب میں اس بے راہ روی کے شکار ہوئے لیکن پختگی کے بعد سنبھل گئے۔ لوگ ایسے شعر بھی کہتے تھے اور نکتہ آفرین شارح ان کی شرح میں داد ذہانت دیتے تھے:
ٹوٹی دریا کی کلائی زلف الجھی بام میں
مورچہ مخمل میں دیکھا آدمی بادام میں
قبر تھی بام فلک پر اور سمندر جام میں
#
پہلے تو روغن گل بھینس کے انڈے سے نکال
پھر دوا جتنی ہے کل بھینس کے انڈے سے نکال
مغرب کی مصوری پر اب ایسا ہی دور آیا ہے اور ہمارے ہاں کے مصوروں نے اس کی نقالی شروع کر دی ہے۔
ایک فرنگی نقاد نے ہمارے مصوروں کی ان تصویروں کو دیکھا اور کہا کہ یہ فرنگ کے فلاں فلاں سکولوں کی کامیاب یا ناکام نقالی ہے۔ تمہارا پاکستانی آرٹ کہاں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جب تک قوم کو اپنی خودی کا احساس نہ ہو اور ہنر اس کی مخصوص تمناؤں اور زوایاے نگاہ کا آئینہ دار نہ ہو،تب تک مصوری زندگی کی ترجمان نہیں بن سکتی۔ اقبال نے ہماری موجودہ مصوری پر پانچ اشعار میں جو تنقید کی ہے اس سے ہمارے مصوروں کو اپنی حقیقت معلوم ہو جانی چاہئے:
کس درجہ یہاں عام ہوئی مرگ تخیل
ہندی بھی فرنگی کا مقلد عجمی بھی
مجھ کو تو یہی غم ہے کہ اس کے دور بہزار
کھو بیٹھے ہیں مشرق کا سرور ازلی بھی
معلوم ہیں اے مرد ہنر تیرے کمالات
صنعت تجھے آتی ہے پرانی بھی نئی بھی
فطرت کو دکھایا بھی ہے دیکھا بھی ہے تو نے
آئینہ فطرت میں دکھا اپنی خودی بھی

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط