عصر حاضر میں مسلمانوں میں ہر قسم کی جدوجہد غائب ہو گئی تھی۔ امیر ہو یا غریب کوئی حال مست،کوئی قال مست،کوئی مال مست اور کثیر گروہ مصائب کا مقابلہ کرنے کی بجائے آفات ارضی و سماوی اور دستبرد حکام ظلام کو مشیت الٰہی سمجھ کر صابر یا آسودہٴ رسوائی۔ ایسی حالت میں سلبی اور انفعالی اخلاق کی بجائے ایجابی اور فعال اخلاق کی ضرورت تھی۔ اقبال نے اس ضرورت کو بڑی شدت سے محسوس کیا اور بڑے زور و شور سے ایجابی نفسیات و اخلاقیات کی تلقین کی۔
اخلاق کا انفعالی پہلو اگر خاص حدود کے اندر رہے اور حیات فعال کے ساتھ اپنا توازن قائم رکھے تو اس سے بھی زندگی میں خصائل محمودہ پیدا ہوتے ہیں۔ توکل،قناعت،تواضع،خاکساری،عفو و درگذر،تسلیم و رضا،حلم،بردباری یہ بھی اخلاقی زندگی کیلئے لازمی اور پاکیزہ عناصر ہیں۔
(جاری ہے)
لیکن افراد اور اقوام کی خاص حالتوں میں ان کے مقابلے میں ایجابی اخلاقیات کی تلقین ضروری ہو جاتی ہے جیسا کہ سعدی نے کہا ہے کہ تواضح اچھی چیز ہے مگر عاجزوں کے مقابلے میں گردن کشوں کو اس کی زیادہ ضرورت ہے:
تواضع ز گردن فرازان نکوست
گدا گر تواضع کند خوے اوست
چپ چاپ ظلم سہنے والا ہی ظالم کو ظالم بناتا ہے۔
دنیا میں اگر کوئی مظلوم بننے پر تیار نہ ہو تو ظالموں کا وجود بھی نہ رہے۔ ہماری قوم میں لوگ اپنے مظلوم ہونے اور بدطینت امرا یا حکام کے ظالم ہونے کی شکایت کرتے رہتے ہیں لیکن یہ عام شکایت لوگوں کو ظالموں کے خلاف جہاد کرنے پر آمادہ نہیں کرتی۔ یہ خودی کے ضعف کا نتیجہ ہے۔ اگر مظلوموں کی خودی بیدار اور آمادہ بہ ایثار ہو جائے تو چشم زون میں ظلم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
اقبال مغلوب و مظلوم و مفتوح و مایوس کو خود داری کا پیغام دیتا ہے جو افراد کے اخلاقی ضعف اور تمام امراض ملی کا علاج ہے۔ ایسی حالت میں مسکینی کی تلقین مرض میں اور اضافہ کر دے گی۔ اقبال مسلمانوں کو کہتا ہے کہ فطرت کی قوتوں کی تسخیر سے اسباب حیات میں فراوانی پیدا کرو۔ حدیث شریف میں ہے کہ منعم محتاج سے افضل ہے اور اوپر والا ہاتھ یعنی دینے والے کا ہاتھ لینے والے کے ہاتھ سے اشرف ہے۔
رسول کریم (ﷺ) نے اپنے لئے اور اپنی امت کیلئے محتاجی سے پناہ مانگی ہے اور فرمایا ہے کہ محتاجی انسان کو کفر سے بہت زیادہ قریب لے آتی ہے۔ قرآن پوچھتا ہے کہ خدا کی نعمتوں اور آرائشوں کو کس نے حرام کیا ہے اور حدیث شریف میں ہے کہ زمین کے نہاں خانوں میں سے رزق نکالنے کی کوشش کرو۔
اہل فرنگ نے یہ ہمت کی تو اس کی بدولت وہاں ہماری طرح کے بھوکے اور ننگے ناپید ہو گئے۔
بہت سی بیماریاں ناپید ہو گئیں۔ ہمارے ہاں کے سست عناصر مذہبی پیشوا اس کو محض مادی ترقی کہہ کر ٹال دیتے ہیں اور اپنے آپ کو روحانیت اور نجات کا اجارہ دار سمجھتے ہیں۔ خدا نے آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا کو سنوارنے کی تلقین کی کیوں کہ انسان آخر اس دنیا میں رہتا ہے،ایک مادی جسم رکھتا ہے اور مادی ماحول میں زندگی بسر کرتا ہے۔ انسان خالی روح کا نام نہیں جو جسم اور عالم سے بے تعلق ہو کر بھی تزکیہ اور قوت پیدا کر سکے۔
مسلمانوں میں غیر اسلامی راہبانہ تصوف کا ایسا غلبہ ہوا کہ جدوجہد غائب ہو کر خالی انفعال رہ گیا اور اس عقیدے کی تعلیم دل نشین بن گئی کہ احتیاج دولتمندی سے اور بھوک پیٹ بھر کر کھانے سے بہتر ہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ بھوکے سے نہ عبادت ہو سکتی ہے اور نہ خدمت خلق:
خداوندی روزی بحق مشتغل
پراگندہ روزی پرا گندہ دل
#
شب چو عقد نماز بر بندم
چہ خورد بامداد فرزندام
(سعدی)
خدا نے مومن کی معراج ”لاخوف علیہم و لا ہم یحزنون“ بتائی تھی کہ مومن اپنے کمال میں خوف اور غم سے پاک ہو جاتا ہے،لیکن ہمارے ہاں غم کی مدح سرائی سے تمام شاعری بھی بھر گئی اور اُردو شاعری کے کمال میں مرثیہ پیدا ہوا۔
اکثر شاعروں کا تغزل بھی اپنی اپنی زندگی کا مرثیہ ہی ہے۔ غم روزگار نہیں تو غم عشق ہی سہی۔ تمام زندگی غم کدہ بن گئی۔ ایسے ماتم کدوں میں خودی کا کیا احساس باقی رہ سکتا ہے؟ ہماری شاعری میں اقبال سے قبل زیادہ تر یا غم ہے یا غلامی،خواہ امرا کی غلامی ہو اور خواہ ہوس کی غلامی اور عشاق ہیں کہ ”آوارہ و مجنو نے رسوا سر بازارے“ ہونا قابل فخر سمجھ رہے ہیں۔
کوئی مصلح ہو احیاے ملت کا خواہاں ہو اس کیلئے لازم ہو گیا کہ اس تمام حیات کس میلان کے خلاف شدید ردعمل پیدا کرے۔ اسی ردعمل نے اقبال کو خودی کا مبلغ بنا دیا۔ اس کی خودی میں نہ تکبر ہے اور نہ نخوت اور نہ ہی وہ محبت کے منافی ہے۔ اقبال کے ہاں خودی زندگی کا سرچشمہ ہے اور اس کی ماہیت وہ عشق ہے جو انسان کو رسوا نہیں کرتا بلکہ خود دار بناتا ہے اور اپنے نور و نار سے تمام زندگی کو حرارت اور فروغ بخشتا ہے۔
اقبال زندگی کی ہمہ سمتی جدوجہد کیلئے قوت کا طالب ہے مگر اس جدوجہد کا مقصود عشق کی فروانی ہے۔ عجمی شاعری کا اثر اُردو شاعری پر پڑا تو اس میں بھی وہی غلامانہ اور قنوطی تصورات پیدا ہو گئے،اسی لئے اقبال اس سے گریز کی تلقین کرتا ہے:
تاثیر غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم
اچھی نہیں اس قوم کے حق میں عجمی لے
مولانا شبلی نے شعر العجم کی چوتھی جامد میں لکھا ہے: ”عرب میں قوم کی باگ شعرا کے ہاتھ میں تھی،وہ قوم کو جدھر چاہتے تھے جھونک دیتے تھے،جدھر سے چاہتے تھے روک لیتے تھے۔
افسوس ہے کہ ایران نے کبھی یہ خواب نہیں دیکھا۔ یہاں کے شعرا ابتدا سے غلامی میں پلے اور ہمیشہ غلام رہے۔ وہ اپنے لئے نہیں بلکہ دوسروں کیلئے پیدا ہوئے تھے“۔
اقبال نے فارسی اور اُردو شاعری کا رخ بدل دیا اور اس سے وہی کام لیا جو عربی شاعر لیا کرتے تھے۔ اسی لئے وہ کہتا ہے کہ نغمہ ہند ہے تو کیا لے تو حجازی ہے مری۔
ایک دوسرا اعتراض اقبال پر یہ کیا گیا ہے کہ اس کا پیغام تمام بنی نوع انسان کیلئے نہیں بلکہ محض ملت اسلامیہ تک محدود ہے کہ وہ مغربی قومیت پر معترض ہے لیکن خود بھی ملت پرست ہے فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اسلامی قومیت کو جغرافیائی،لسانی اور نسلی حدود قیود میں مقید کرنا نہیں چاہتا۔
وہ دوسروں کو برطرف کرکے فقط اپنی قوت کو ابھارنا چاہتا ہے۔ بعض ہندوؤں اور بعض فرنگیوں نے اس پر یہی اعتراض کیا،لیکن یہ اعتراض بھی کوتاہ بینی پر مبنی ہے۔ اقبال تو خیر ایک مفکر اور صاحب بصیرت شاعر ہی ہے،اگر کوئی نبی بھی ہو تو اس کی براہ راست اور اولین مخاطب اس کی اپنی قوم ہی ہوتی ہے۔ وہ اپنی قوم کی اصلاح کو فرض اولین اس لئے قرار دیتا ہے کہ اس قوم سے اس کا گہرا نفسی رابطہ ہوتا ہے۔
وہ اس کے مزاج کو خوب سمجھتا ہے،اس کے جذبات سے آشنا ہوتا ہے،اس کے امراض کا داخلی علم رکھتا ہے۔ اس لئے ان کی حکیمانہ تشخیص کرکے ان کا محبوب علاج تجویز کر سکتا ہے۔ وہ ایک گروہ کوصالح بنا کر تمام انسانوں کیلئے اس کو نمونہ بنانے میں کوشاں ہوتا ہے۔ جو مصلح مسلمانوں کی جماعت میں پیدا ہوا ہے۔ اس کا فطری وظیفہ یہی ہو سکتا ہے کہ سب سے پہلے وہ مسلمانوں کی زندگی کو صالح بنانے کی کوشش کرے۔
”سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے“ فقط کہنے کی بات ہے ورنہ انسانی فطرت یہ ہے کہ ان افراد سے انسان کو جتنا قرب ہوتا ہے اسی نسبت سے اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ ہوتا ہے۔ ہر مصلح کی مخاطب پہلے اس کی اپنی قوم ہوتی ہے لیکن اس کی اصلاح میں عالمگیر عناصر ہوتے ہیں جو زمان و مکان اور حدود ملل سے ماوریٰ ہوتے ہیں۔ سقراط کو اخلاقی حکمت کا نبی کہتے ہیں مگر وہ ایشیا کا شہری تھا اس لئے تمام عمر اپنے شہر والوں کی عقلی اور اخلاقی اصلاح میں کوشاں رہا لیکن اصلاح کے جو اصول بیان کرتا تھا وہ انسان کی عام نفسیات پر حاوی تھے،اسی لئے آج تک فلسفہ اخلاق میں تمام دنیا اس کو امام سمجھتی ہے۔
وہ ایشیا سے باہر جانا نہ چاہتا تھا۔ جب خود غرض اقتدار پسندوں نے عوام کو بھڑکا کر اس کیلئے موت کا فتویٰ صادر کیا تو اس کے معتقدوں نے اس کو زندان سے بھاگ جانے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ہم نے انتظام کر لیا ہے کہ تم بے روک ٹوک کسی اور شہر میں جا سکو گے۔ اس نے فرار سے انکار کر دیا کہ میرا مشن اپنے شہر والوں سے وابستہ تھا میں غیر اقوام میں رہ کر کیا کروں گا؟
یہی حال اقبال کی تعلیم کا ہے۔
وہ توحید اور عشق اور خودی کی تعلیم اپنی قوم کو دیتا ہے اور اسے اپنے دین کی فراموش شدہ حقیقت یاد دلاتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ یہ قوم اصلاح یافتہ ہو کر تمام نوع انسان کو توحید اور عالمگیر اخوت کا سبق دے۔ وہ اپنی قوم کو دوسری اقوام کے خلاف ابھارتا نہیں،نہ ہی دوسروں سے نفرت برتنے کو کہتا ہے۔ وہ در حقیقت ایک نظریہ حیات کا مبلغ ہے۔ جو قوم اس پر جتنی کاربند ہے اتنا ہی وہ اسے اسلام سے قریب سمجھتا ہے۔
ایسے شخص کو کسی تنگ معنوں میں ملت پرست نہیں کہہ سکتے۔ جس ملت کے وہ راگ الاپتا ہے،وہ اس کو اس وقت تو کہیں نظر نہیں آتی۔ وہ نوع انسان کیلئے ایک نصب العین پیش کرتا ہے اور مسلمانوں سے توقع رکھتا ہے کہ آئندہ وہ اس کو اپنا لائحہ عمل بنا کر دنیا کے سامنے انسانیت کا اچھا نمونہ پیش کریں تاکہ اخوت و محبت کو عالمگیر بنا دیں۔ محض اسلام کے نام لیواؤں کی ملت اس کے نزدیک وہ نصب العینی ملت نہیں۔ اسلام ایک زاویہ نگاہ ہے،جس میں بھی وہ پیدا ہو جائے وہ مسلم ہے۔ ملتوں میں تفریق محض نظریہ حیات سے پیدا ہو سکتی ہے باقی تمام نفریقیں یوں ہی تفرقہ ہیں۔