اسلام ایک فطری مذہب ہے اور جب کبھی انسان فکر صالح ہو جاتا ہے تو قرآن سے نا آشنا ہونے پر بھی وہ اسلام کے کسی نہ کسی پہلو کی صحت کا قائل ہو جاتا ہے اور اسلام کے نام سے نہیں تو کسی اور عنوان سے اس پر عامل ہو جاتا ہے۔
کفر و دین است در رہت پویاں
وحدہ لا شریک لہ گویاں
انسانی زندگی کی اصلاح کیلئے مختلف اقوام میں جو جدوجہد ہو رہی ہے،اس کا جائزہ لیجئے تو آپ کو نظر آ جائے گا کہ اصلاح کا ہر قدم حقیقت میں اسلام کی طرف اٹھتا ہے،خواہ اس کیلئے کوشاں مصلحین غیر مسلم ہی کیوں نہ کہلاتے ہوں۔
اقبال نے کارل مارکس کی آواز کو بھی اپنی ہی آواز بنا کر پیش کیا ہے:
کارل مارکس کی آواز
یہ علم و حکمت کی مہر بازی یہ بحث و تکرار کی نمائش
نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمائش
تری کتابوں میں اے حکیم معاش رکھا ہی کیا ہے آخر
خطوط خمدار کی نمائش! مریزو کجدار کی نمائش
جہاں مغرب کے بتکدوں میں کلیسیاؤں میں مدرسوں میں
ہوس کی خوں ریزیاں چھپاتی ہے عقل عیار کی نمائش
کارل مارکس بھی جہان پیر کی موت کا آرزو مند ہے اور اقبال بھی،لیکن جہان نور کی تعمیر اور اس کی اساس کے متعلق دونوں میں اختلاف ہے۔
(جاری ہے)
کارل مارکس نیا معاشی نظام قائم کرنا چاہتا ہے اور اس سے آگے بڑھ کر اس کا کچھ مقصود نہیں،کیوں کہ وہ عالم مادی سے باہر اور فائق کسی اور عالم کا قائل نہیں،اقبال کیلئے عادلانہ معاشی نظام مقصود آخری نہیں بلکہ انسان کے لامتناہی روحانی ارتقا کے راستے میں ایک منزل ہے۔
ایک شخص نے زمانہ حال میں نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد یہ بتایا کہ میں کلیسائی عیسائیت کا قلع قمع کرنے کیلئے مبعوث ہوا ہوں۔
اس کی تمام جدوجہد پادریوں سے مناظرہ کرنے تک محدود رہی اور صلیب کا کوئی کونہ نہ ٹوٹا نہ گھسا۔ ایسی نبوت سے تو کلیسائی عیسائیت کا کچھ نہ بگڑا،لیکن اقبال کہتا ہے کہ دیکھو قضائے الٰہی کی روش کیسی ہے کہ روس کی دہریت سے کسر چلیپا کا کام لیا گیا ہے،جو نہ کسی مومن سے ہوا اور نہ کسی متنبی سے،وہ کام کافروں نے کر ڈالا۔ کلیسا کا استبداد سب سے زیادہ روس میں تھا جو کرہ اراض کے پانچویں حصے کو گھیرے ہوئے ہے۔
وہیں پر مکمل بت شکنی ملحدوں نے کی ہے۔ مذہبی مصلحین کبھی یہ کام نہ کر سکتے:
روش قضائے الٰہی کی ہے عجیب و غریب
خبر نہیں کہ ضمیر جہاں میں ہے کیا بات
ہوئے ہیں کسر چلیپا کے واسطے مامور
وہی کہ حفظ چلیپا کو جانتے تھے نجات
یہ وحی دہریت روس پر ہوئی نازل
کہ توڑ ڈالے کلیسائیوں کے لات و منات
اقبال کے نزدیک اشتراکیت میں حق و باطل کی آمیزش ہے۔
اس میں جو دل کشی اور مفاد کا پہلو ہے،وہ حق کے عنصر کی وجہ سے ہے۔ دنیا میں رزق کی عادلانہ تقسیم عین دین ہے اور اس معاملے میں روس نے جو کوشش کی ہے وہ سراہنے کے لائق ہے۔ حضرت مسیح نے فرمایا کہ انسان کی زندگی فقط روٹی سے نہیں،اسے روحانی غذا کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان روح کے علاوہ جسم بھی رکھتا ہے اور نفس و بدن کا رابطہ کچھ اس قسم کا ہے کہ پیٹ میں روٹی نہ ہو تو انسان نہ حقوق اللہ ادا کر سکتا ہے اور نہ حقوق العباد۔
اسی لئے اسلام نے معاش و رزق کی عادلانہ تقسیم و تنظیم کو بھی جزو دین قرار دیا۔ عیسائی بھی اپنی دعا میں خدا سے روز کی روٹی مانگتے ہیں۔ سعدی نے سچ فرمایا کہ بھوکا حضور قلب سے نماز بھی نہیں پڑھ سکتا:
شب چو عقد نماز بر بندم
چہ خورد بامداد فرزند
خدا روزی بحق مشتغل
پراگندہ روزی پراگندہ دل
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زندگی کی بنیادی چیزوں کی محتاجی انسان کو کفر سے قریب لے آتی ہے،یہ فقر اضطراری ہے جس سے پناہ مانگنی چاہئے۔
فقر اختیاری دوسری چیز ہے،جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فخر کیا ہے اور جو اعلیٰ درجے کی روحانی زندگی کیلئے لازمی ہے۔ حضرت بابا فرید شکر گنج نے کیا خوب فرمایا کہ عام طور پر پانچ ارکان مشہور ہے لیکن در حقیقت چھ ہیں۔ مریدوں نے پوچھا کہ چھٹا رکن کون سا ہے؟ جواب دیا کہ روٹی اور یہ بہت اہم رکن ہے۔ اس رکن کے گر جانے سے باقی پانچ کی بھی خیریت نہیں،لیکن اس پر یہ بھی اضافہ کر سکتے ہیں کہ اگر طلب رزق میں زیادہ انہماک ہو جائے تو بھی اخلاقی اور روحانی زندگ معرض خطر میں پڑ جاتی ہے۔
اقبال اشتراکیت کی اس کوشش کو مستحسن خیال کرتا ہے کہ انسانوں کی مادی ضروریات کے پورا کرنے کا کوئی عادلانہ انتظام ہو لیکن انسانوں میں یہ عقیدہ رائج کر دینا غلط ہے کہ مادی ضروریات کے پورا کرنے سے زندگی کی تکمیل ہوجاتی ہے۔
تمام جدوجہد کو اسی میں صرف کرنا کہ بہتر روٹی اور کپڑا ملے اور رہائش کیلئے اچھا مکان مل جائے،انسانی زندگی کی یہ غایت نہیں ہو سکتی۔
اکثر حیوانوں کو یہ چیزیں انسانوں سے بہتر میسر ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر انسان کی امتیازی خصوصیت اور مقصود حیات کیا ہے؟ مادی ضروریات کے حصول اور سامان حیات جسمانی کی مساویانہ تقسیم سے خاص انسانی زندگی کی کوئی غایت پوری نہیں ہوتی۔ یہ سعی مساوات دلوں میں تو کوئی اخوت اور محبت کا جذبہ پیدا نہیں کر سکتی۔ رزق کی فراوانی اور اس کی بہتر تقسیم کو مقصود حیات بنا لینا اور نفس انسانی کے لامتناہی ممکنات کو امکان سے وجود میں لانے کی کوشش نہ کرنا بہت بڑا گھاٹا ہے۔
از روئے قرآن ایمان اور عمل صالح کے بغیر انسان کی زندگی دولت کی فراوانی کے باوجود خسران ہی خسران ہے۔ روح انسانی کا جوہر عالم طبیعی و زمان و مکان سے ماوریٰ ہے انسان کی منزل مقصود حیات جسمانی نہیں،بلکہ خدا ہے! ”منزل ماکبریاست“ ”والی ربک المنتہی“
جاوید نامے میں اشتراکیت کے اندر جو حق اور باطل ہے،دونوں کو وضاحت سے پیش کیا گیا ہے۔
کارل مارکس کے قلب میں مومنوں والا جذبہ ہے کہ خلق خدا کے ساتھ انصاف ہونا چاہئے،لیکن حیات و کائنات کی ماہیت اور خلاق وجود سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے اس کا فکر کافرانہ ہے:
صاحب سرمایہ از نسل خلیل
یعنی آں پیغمبر بے جبرئیل
زانکہ حق در باطل او مضمر است
’قلب او مومن دماغش کافر است‘
غریباں گم کردہ اندہ افلاک را
در شکم جویند جان پاک را
رنگ و بو از تن نگیرد جان پاک
جز بہ تن کارے ندارد اشتراک
دین آں پیغمبر حق نا شناس
بر مساوات شکم دارد اساس
تا اخوت را مقام اندر دل است
بیخ او در دل نہ در آب و گل است