Episode 53 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 53 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اسلام ایک فطری مذہب ہے اور جب کبھی انسان فکر صالح ہو جاتا ہے تو قرآن سے نا آشنا ہونے پر بھی وہ اسلام کے کسی نہ کسی پہلو کی صحت کا قائل ہو جاتا ہے اور اسلام کے نام سے نہیں تو کسی اور عنوان سے اس پر عامل ہو جاتا ہے۔
کفر و دین است در رہت پویاں
وحدہ لا شریک لہ گویاں
انسانی زندگی کی اصلاح کیلئے مختلف اقوام میں جو جدوجہد ہو رہی ہے،اس کا جائزہ لیجئے تو آپ کو نظر آ جائے گا کہ اصلاح کا ہر قدم حقیقت میں اسلام کی طرف اٹھتا ہے،خواہ اس کیلئے کوشاں مصلحین غیر مسلم ہی کیوں نہ کہلاتے ہوں۔
اقبال نے کارل مارکس کی آواز کو بھی اپنی ہی آواز بنا کر پیش کیا ہے:
کارل مارکس کی آواز
یہ علم و حکمت کی مہر بازی یہ بحث و تکرار کی نمائش
نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمائش
تری کتابوں میں اے حکیم معاش رکھا ہی کیا ہے آخر
خطوط خمدار کی نمائش! مریزو کجدار کی نمائش
جہاں مغرب کے بتکدوں میں کلیسیاؤں میں مدرسوں میں
ہوس کی خوں ریزیاں چھپاتی ہے عقل عیار کی نمائش
کارل مارکس بھی جہان پیر کی موت کا آرزو مند ہے اور اقبال بھی،لیکن جہان نور کی تعمیر اور اس کی اساس کے متعلق دونوں میں اختلاف ہے۔

(جاری ہے)

کارل مارکس نیا معاشی نظام قائم کرنا چاہتا ہے اور اس سے آگے بڑھ کر اس کا کچھ مقصود نہیں،کیوں کہ وہ عالم مادی سے باہر اور فائق کسی اور عالم کا قائل نہیں،اقبال کیلئے عادلانہ معاشی نظام مقصود آخری نہیں بلکہ انسان کے لامتناہی روحانی ارتقا کے راستے میں ایک منزل ہے۔
 ایک شخص نے زمانہ حال میں نبوت کا دعویٰ کیا اور اپنے مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد یہ بتایا کہ میں کلیسائی عیسائیت کا قلع قمع کرنے کیلئے مبعوث ہوا ہوں۔
اس کی تمام جدوجہد پادریوں سے مناظرہ کرنے تک محدود رہی اور صلیب کا کوئی کونہ نہ ٹوٹا نہ گھسا۔ ایسی نبوت سے تو کلیسائی عیسائیت کا کچھ نہ بگڑا،لیکن اقبال کہتا ہے کہ دیکھو قضائے الٰہی کی روش کیسی ہے کہ روس کی دہریت سے کسر چلیپا کا کام لیا گیا ہے،جو نہ کسی مومن سے ہوا اور نہ کسی متنبی سے،وہ کام کافروں نے کر ڈالا۔ کلیسا کا استبداد سب سے زیادہ روس میں تھا جو کرہ اراض کے پانچویں حصے کو گھیرے ہوئے ہے۔
وہیں پر مکمل بت شکنی ملحدوں نے کی ہے۔ مذہبی مصلحین کبھی یہ کام نہ کر سکتے:
روش قضائے الٰہی کی ہے عجیب و غریب
خبر نہیں کہ ضمیر جہاں میں ہے کیا بات
ہوئے ہیں کسر چلیپا کے واسطے مامور
وہی کہ حفظ چلیپا کو جانتے تھے نجات
یہ وحی دہریت روس پر ہوئی نازل
کہ توڑ ڈالے کلیسائیوں کے لات و منات
اقبال کے نزدیک اشتراکیت میں حق و باطل کی آمیزش ہے۔
اس میں جو دل کشی اور مفاد کا پہلو ہے،وہ حق کے عنصر کی وجہ سے ہے۔ دنیا میں رزق کی عادلانہ تقسیم عین دین ہے اور اس معاملے میں روس نے جو کوشش کی ہے وہ سراہنے کے لائق ہے۔ حضرت مسیح نے فرمایا کہ انسان کی زندگی فقط روٹی سے نہیں،اسے روحانی غذا کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان روح کے علاوہ جسم بھی رکھتا ہے اور نفس و بدن کا رابطہ کچھ اس قسم کا ہے کہ پیٹ میں روٹی نہ ہو تو انسان نہ حقوق اللہ ادا کر سکتا ہے اور نہ حقوق العباد۔
اسی لئے اسلام نے معاش و رزق کی عادلانہ تقسیم و تنظیم کو بھی جزو دین قرار دیا۔ عیسائی بھی اپنی دعا میں خدا سے روز کی روٹی مانگتے ہیں۔ سعدی نے سچ فرمایا کہ بھوکا حضور قلب سے نماز بھی نہیں پڑھ سکتا:
شب چو عقد نماز بر بندم
چہ خورد بامداد فرزند
خدا روزی بحق مشتغل
پراگندہ روزی پراگندہ دل
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زندگی کی بنیادی چیزوں کی محتاجی انسان کو کفر سے قریب لے آتی ہے،یہ فقر اضطراری ہے جس سے پناہ مانگنی چاہئے۔
فقر اختیاری دوسری چیز ہے،جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فخر کیا ہے اور جو اعلیٰ درجے کی روحانی زندگی کیلئے لازمی ہے۔ حضرت بابا فرید شکر گنج نے کیا خوب فرمایا کہ عام طور پر پانچ ارکان مشہور ہے لیکن در حقیقت چھ ہیں۔ مریدوں نے پوچھا کہ چھٹا رکن کون سا ہے؟ جواب دیا کہ روٹی اور یہ بہت اہم رکن ہے۔ اس رکن کے گر جانے سے باقی پانچ کی بھی خیریت نہیں،لیکن اس پر یہ بھی اضافہ کر سکتے ہیں کہ اگر طلب رزق میں زیادہ انہماک ہو جائے تو بھی اخلاقی اور روحانی زندگ معرض خطر میں پڑ جاتی ہے۔
اقبال اشتراکیت کی اس کوشش کو مستحسن خیال کرتا ہے کہ انسانوں کی مادی ضروریات کے پورا کرنے کا کوئی عادلانہ انتظام ہو لیکن انسانوں میں یہ عقیدہ رائج کر دینا غلط ہے کہ مادی ضروریات کے پورا کرنے سے زندگی کی تکمیل ہوجاتی ہے۔
 تمام جدوجہد کو اسی میں صرف کرنا کہ بہتر روٹی اور کپڑا ملے اور رہائش کیلئے اچھا مکان مل جائے،انسانی زندگی کی یہ غایت نہیں ہو سکتی۔
اکثر حیوانوں کو یہ چیزیں انسانوں سے بہتر میسر ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر انسان کی امتیازی خصوصیت اور مقصود حیات کیا ہے؟ مادی ضروریات کے حصول اور سامان حیات جسمانی کی مساویانہ تقسیم سے خاص انسانی زندگی کی کوئی غایت پوری نہیں ہوتی۔ یہ سعی مساوات دلوں میں تو کوئی اخوت اور محبت کا جذبہ پیدا نہیں کر سکتی۔ رزق کی فراوانی اور اس کی بہتر تقسیم کو مقصود حیات بنا لینا اور نفس انسانی کے لامتناہی ممکنات کو امکان سے وجود میں لانے کی کوشش نہ کرنا بہت بڑا گھاٹا ہے۔
از روئے قرآن ایمان اور عمل صالح کے بغیر انسان کی زندگی دولت کی فراوانی کے باوجود خسران ہی خسران ہے۔ روح انسانی کا جوہر عالم طبیعی و زمان و مکان سے ماوریٰ ہے انسان کی منزل مقصود حیات جسمانی نہیں،بلکہ خدا ہے! ”منزل ماکبریاست“ ”والی ربک المنتہی“
جاوید نامے میں اشتراکیت کے اندر جو حق اور باطل ہے،دونوں کو وضاحت سے پیش کیا گیا ہے۔
کارل مارکس کے قلب میں مومنوں والا جذبہ ہے کہ خلق خدا کے ساتھ انصاف ہونا چاہئے،لیکن حیات و کائنات کی ماہیت اور خلاق وجود سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے اس کا فکر کافرانہ ہے:
صاحب سرمایہ از نسل خلیل
یعنی آں پیغمبر بے جبرئیل
زانکہ حق در باطل او مضمر است
’قلب او مومن دماغش کافر است‘
غریباں گم کردہ اندہ افلاک را
در شکم جویند جان پاک را
رنگ و بو از تن نگیرد جان پاک
جز بہ تن کارے ندارد اشتراک
دین آں پیغمبر حق نا شناس
بر مساوات شکم دارد اساس
تا اخوت را مقام اندر دل است
بیخ او در دل نہ در آب و گل است

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط