عشق ہر قوم کی شاعری کا محور اور مرکز ہے،لیکن جس شاعر میں حکیمانہ نگاہ کی کمی ہوتی ہے اور تاثر کی زیادتی،وہ اپنی شاعری میں اپنے عشق کی کیفیات اور معاملات کو بیان کر دیتا ہے اور اس کے متعلق کوئی نظریہ پیش نہیں کرتا۔ لیکن کہیں کہیں عشق مجازی یا عشق حقیقی سے بہرہ اندوز شاعر ایسے بھی پیدا ہو جاتے ہیں جن کی طبیعت میں فکر و تاثر کی آمیزش ہوتی ہے۔
وہ اپنی کیفیات اور نفسیات بھی بیان کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی عام زندگی میں عشق یا محبت کا جو مقام ہے اس کے تعین کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ رومی کی طرح کے بعض صوفی شعراء ایسے بھی گزرے ہیں جن میں عشق مجازی کا کوئی شائبہ نظر نہیں آتا،اگرچہ وہ زبان عشق مجازی ہی کی استعمال کرتے ہیں کیوں کہ جس قسم کے عشق کو وہ محسوس کرتے ہیں،اس کو بیان کرنے کیلئے کوئی زبان وضع نہیں ہوتی۔
(جاری ہے)
عارف رومی بڑی حسرت کے ساتھ کہتا ہے:
کاشکے ہستی زبانے داشتے
تا ز مستاں پردہ ہا برداشتے
اے خدا بنما تو جاں را آں مقام
کاندراں بے حرف می روید کلام
اور مرزا غالب اس بے بسی کو یوں بیان کرتے ہیں کہ:
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
جہاں فکر و اندیشہ کا دخل نہیں وہاں زبان کہاں سے آئے گی کیوں کہ انسان کے اندر فکر و زبان ایک ہی چیز کے دو پہلو ہیں اور بعض ماہرین نفسیات کا یہ عقیدہ ہے کہ انسان کے اندر کوئی خیال زبان کا جامہ پہنے بغیر ذہن میں آ ہی نہیں سکتا۔
اسی لئے مرزا صاحب یہ نصیحت فرماتے ہیں کہ:
حق را ز دل خالی از اندیشہ طلب کن
از شیشہٴ بے مے مے بے شیشہ طلب کن
اکثر صوفیہ و حکماء کی طرح اقبال کی زندگی میں بھی عشق مجازی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ان کی عالم شباب کی شاعری میں کہیں کہیں اس کا ثبوت ملتا ہے،مگر یہ آتی جاتی کیفیت دکھائی دیتی ہے۔ ان کا یہ شبابی عشق مصری کی مکھی کی طرح ہے،شہد کی مکھی نہیں جس کے پاؤں اس میں دھنس کر رہ جائیں۔
بقول غالب:
من بجا ماندم و رقیب بدر زد
نیمہ لبش انگبیں و نیمہ طبرزد
اصل حقیقت وہی ہے جسے انہوں نے بعد میں ایک مصرعے میں ادا کر دیا کہ ”دل بکسے نہ باختہ“۔ کسی فرد کے عشق میں اقبال کبھی آہیں بھرتا یا شب فراق میں اختر شماری کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ مگر بانگ درا کی شبابی نظموں کے ساتھ ساتھ ہی اس کے عشق کے متعلق بھی نظمیں ملتی ہیں جسے عشق حقیقی کہئے یا عشق الٰہی یا عالم گیر حیات و کائنات کے متعلق ایک گہرا اور وسیع مگر مبہم جذبہ۔
بانگ درا میں درد عشق کے عنوان سے ایک نظم ہے۔ یہ وہ درد ہے جو روح اور فطرت کی گہرائی میں پایا جاتا ہے اور جسے پنہاں رکھنا اس کی پرورش کرنا ہے۔ یہاں مجاز سے حقیقت کی طرف گریز ہے۔ ظاہر پرست جسے عشق کہتے ہیں اور جس کی بابت مولانا روم
ایں نہ عشق است ایں کہ در مردم بود
ایں فساد از خوردن گندم بود
یہ عشق نہیں بلکہ جسمانیت کی پیدا کردہ ہوس ہے۔
اقبال کہتا ہے کہ ایسوں سے عشق کی بات نہ کرنا،وہ اسے اپنی قسم کا عشق سمجھ لیں گے:
اے درد عشق! ہے گہر آبدار تو
نامحرموں میں دیکھ نہ ہو آشکار تو
پنہاں تہ نقاب تری جلوہ گاہ ہے
ظاہر پرست محفل نو کی نگاہ ہے
پنہاں درون سینہ کہیں راز ہو ترا
اشک جگر گداز نہ غماز ہو ترا
گویا زبان شاعر رنگیں بیاں نہ ہو
آواز نے میں شکوہٴ فرقت نہاں نہ ہو
یہ دور نکتہ چیں ہے کہیں چھپ کے بیٹھ رہ
جس دل میں تو مکیں ہے وہیں چھپ کے بیٹھ رہ
اسی نظم کے آخری اشعار میں اقبال نے اپنا وہ نظریہ بھی بیان کر دی ہے جس میں وہ رومی جیسے صوفیہ کا ہم آہنگ ہے کہ علم و عقل جو حیرت پیدا کرتی ہے،وہ اس سے الگ چیز ہے اور خالی حکمت کی رسائی اس عشق پنہاں تک نہیں ہو سکتی:
غافل ہے تجھ سے حیرت علم آفریدہ دیکھ!
جویا نہیں تری نگہ نا رسیدہ دیکھ
رہنے دے جستجو میں خیال بلند کو
حیرت میں چھوڑ دیدہ حکمت پسند کو
یہ انجمن ہے گشتہٴ نظارہ مجاز
مقصد تری نگاہ کا خلوت سرائے راز
اقبال کے اس دور میں ضمیر فطرت کا یہ پنہاں جذبہ،خلوت سے جلوت میں آنے پر مائل معلوم نہیں ہوتا۔
ابھی وہ فعال و خلاق و انقلاب آفرین نہیں بنا۔ اس کے عشق میں یہ ارتقا رفتہ رفتہ ہو گا اور انجام کار اس کا رنگ اور آہنگ ایسا ہو جائے گا جو اس کو خلوت نشیں،حیات گریز،محض خدا مست صوفیوں سے الگ کر دے گا۔ ”زمانہ با تو نسازد تو با زمانہ ستیز“ کا جذبہ،ابھی اس میں نظر نہیں آتا۔
ٹینی سن کی ایک نظم کا آزاد ترجمہ بھی بانگ درا میں ملتا ہے۔
اس کا موضوع یہ ہے کہ عشق کے فرشتے سے موت کے فرشتے کی ملاقات ہو گئی۔ ملک العشق کے سوال کرنے پر ملک الموت نے جواب دیا کہ میرا کام رخت ہستی کے پرزے اڑا دینا ہے،لیکن ایک چیز ہے جو میری فنا کوشی کی گرفت میں نہیں آتی اور میں اس کے مقابل میں آؤں تو خود اس طرح اڑ جاتا ہوں جس طرح آگ سے پارہ ہوا ہو جائے۔ یہ آگ جو انسان کے دل میں شرر بن کر پنہاں رہتی ہے،وہ نار بھی ہے اور نور بھی۔
یہی شرر نور مطلق کی آنکھوں کا تارا ہے،ملک العشق کے لبوں پر ایک تبسم کی لہر آئی جو بجلی بن کر اجل پر گری اور عشق کے سامنے قضا کو خود موت آگئی۔ موت کہتی ہے:
اڑاتی ہوں میں رخت ہستی کے پرزے
بجھاتی ہوں میں زندگی کا شرارا
مگر ایک ہستی ہے دنیا میں ایسی
وہ آتش ہے، میں سامنے اس کے پارا
شرر بن کے رہتی ہے انسان کے دل میں
وہ ہے نور مطلق کی آنکھوں کا تارا
#
سنی عشق نے گفتگو جب قضا کی
ہنسی اس کے لب پر ہوئی آشکارا
گری اس تبسم کی بجلی اجل پر
اندھیرے کا ہو نور میں کیا گزارا
بقا کو جو دیکھا فنا ہو گئی وہ
قضا تھی، شکار قضا ہو گئی وہ
جسمانی زندگی میں حیات و موت عناصر مادی کی ترکیب و تحلیل کا نام ہے،لیکن جوہر روح اس عالم کون و فسادکی چیز نہیں۔
اس کی حقیقت نہ مادی ہے اور نہ زمانی و مکانی۔ اس جوہر روح کی بقا کا ضامن عشق ہے،جس کی بدولت انسان ابد پیوند ہو جاتا ہے۔ محض حکمت موت پر غالب نہیں آ سکتی ”چوں قضا آید طبیب ابلہ شود“ بقا فقط عشق سے حاصل ہو سکتی ہے کیوں کہ عشق حقیقی ماخذ حیات بھی ہے اور مقصود حیات بھی۔ وہ جادہ حیات بھی ہے اور منزل حیات بھی:
ہے ابد کے نسخہ دیرینہ کی تمہید عشق
عقل انسانی ہے فانی زندہٴ جاوید عشق