Episode 45 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 45 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

اقبال کے زمانے میں بھی یورپ سے دو قسم کے ہندوستانی واپس لوٹتے تھے۔ ایک وہ جو پہلے سے مغلوب العزت تھے اور وہاں پہنچ کر اور زیادہ مرعوب ہو جاتے تھے۔ نشست و برخاست،رن سہن،طرز تفکر بلکہ یول چال میں بھی انگریزوں کی نقالی کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے تھے۔ لیکن کچھ نوجوان ایسے بھی تھے جو مغرب میں پہنچ کر مغربیت کے خلاف بغاوت کا جذبہ لے کر واپس آتے تھے۔
اس بغاوت کا سبب زیادہ تر اپنے ملک کی سیاسی غلامی تھی۔ دیکھتے تھے کہ مغرب کی ہر چھوٹی بڑی قوم آزاد ہے،اگرچہ مغربیوں میں کوئی ایسی خاص بات نہیں جو ہم میں نہیں یا جو ہم پیدا نہیں کر سکتے بشرطیکہ ہم کو بھی آزادی کے مواقع حاصل ہوں۔ اس کے علاوہ مغرب کو بہت قریب سے دیکھنے کی وجہ سے وہاں کی تہذیب کے تاریک پہلو بھی ان پر واضح ہو جائے تھے،وہ محسوس کرتے تھے کہ عیوب ہم میں بھی ہیں لیکن یہ کہاں کے بے عیب ہیں،کچھ باتیں ایسی ہیں جن میں یہ لوگ خاص تاریخی اسباب کی وجہ سے ہم سے آگے نکل گئے ہیں مگر بعض صفات ایسے ہیں جن میں ہم ان سے ہٹیے نہیں بلکہ انہیں ہم سے کچھ سیکھنا چاہئے۔

(جاری ہے)


مغرب کے خلاف بغاوت کے جتنے محرکات و عوامل ہو سکتے تھے وہ اقبال کی طبیعت میں بیک وقت جمع ہو گئے،انہوں نے مغرب کی تہذیب اور اس کے فکر و عمل کا پورا جائزہ لیا اور انہیں مغرب کی تعمیر میں جو خرابی کی صورتیں مضمر تھیں نظر آنے لگیں اور وہیں سے انہوں نے پکارنا شروع کر دیا:
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانے بنے گا ناپائیدار ہو گا
انہوں نے دیکھا کہ کمزور اقوام کو غلام بنانا اور لوٹنا اس تہذیب کاشیوہ ہے اور ان اقوام کی بہت سی دولت اسی لوٹ سے حاصل ہوئی ہے۔
ان کے تمام فلسفے پر عبور حاصل کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ سب مادی یا استدلالی عقل کا گورکھ دھندا ہے اور اس میں اس جوہر کا فقدان ہے جس کیلئے اقبال نے عشق کی اصلاح اختیار کی:
رہ عقل جز پیچ در پیچ نیست
بر عاشقاں جز خدا ہیچ نیست
مغرب نے اپنی تمام عقل عالم محسوسات پر تصرف حاصل کرنے میں صرف کی ہے لیکن دماغ کی ترقی کے ساتھ ساتھ دل بے نور ہوتا گیا ہے۔
یہ حسی تہذیب عالم روحانی کی منکر اور الحاد کی طرف مائل ہے۔ اس کی ظاہری ترقی آنکھوں کو خیر کرتی ہے لیکن اس میں حقیقی انسانیت کا جوہر ماند پڑ گیا ہے۔ جس عقلیت نے مغرب کے فکر و عمل میں یہ انداز پیدا کیا،اقبال مغرب ہی میں اس کا دشمن ہو گیا اور دل میں یہ ٹھان لی کہ ملت اسلامیہ کا احیاء مغرب کی اندھا دھند تقلید سے نہیں ہو سکتا،ملت میں اسلامی جذبے کو ابھارنا لازمی ہے تاکہ اپنے مخصوص جوہر کو ترقی دے سکے۔
مغرب کی تہذیب اور اس کا تمدن زوال آمادہ نظر آتا ہے اور خود مغرب کے اہل نظر کو اس کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ اس قسم کی تہذیب کی نقالی سے مشرق کو کیا فائدہ پہنچے گا جو ظاہر پرست ہے اور جس کے اندر باطن کی پرورش نہیں ہوتی۔
اقبال کی طبیعت میں مغرب کے خلاف غصے اور احتجاج کا دوسرا بڑا سبب نہ صرف اپنے ملک و ملت کی غلامی تھی جو مغرب کے غلبے سے طبائع پر ظاہر ہو گئی تھی بلکہ تمام عالم اسلامی غلبہ فرنگ کی زد میں آ گیا تھا۔
بیسویں صدی کے آغاز تک ترکوں کی حکومت تین براعظموں تک پھیلی ہوئی تھی،ترکی کی معاشی،سیاسی اور عسکری زندگی بے سکت ہو چکی تھی لیکن آزادی و مملکت کا خارجی ڈھانچہ بہت کچھ قائم تھا۔ انیسویں صدی میں دول یورپ نے قوت حاصل کرنے کے بعد سب سے زیادہ چھاپہ اسلامی ممالک پر مارا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومتوں کو انگریزوں نے ملیا میٹ کیا اور جن ریاستوں کو باقی رکھا ان کو بھی کوئی حقیقی اقتدار حاصل نہ تھا۔
بقول مرزا غالب انگریزوں نے دیسی راستوں کو ویسا ہی اختیار دے رکھا ہے جیسا خدا نے بندوں کو دیا ہے۔ صورت میں اختیار ہے اور حقیقت میں جبر۔ ایران کو روسیوں اور انگریزوں نے خفیہ معاہدوں سے تقسیم کر رکھا تھا:
ساز عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں میں سن
اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ
ایسی حالت میں شکستہ خاطر مسلمانوں کو اقبال تاریخی حوالے سے تسلی دیتا ہے کہ ایران مٹ جائے تو مٹ جائے لیکن اسلام تو نہیں مٹ سکتا،اسلام کو مٹانے والے تاتاریوں نے بہت جلد اسلام ہی کی حلقہ بگوشی اختیار کر لی تھی۔
تاریخ پھر اپنے آپ کو دہراسکتی ہے:
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورش تار تار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
لیکن ان تسلیوں کے باوجود اقبال کا دل غلبہ فرنگ سے مجروح تھا،وہ اس کی تہذیب کی کیا داد دیتا جس کی بدولت مسلمانوں کی رہی سہی آزادی اور ملت کی خوداری غارت ہو رہی تھی۔

اقبال دیکھتا تھا کہ اسلامی ملتوں کی مغلوبی اور بے بسی کے باوجود جس کا ذمہ دار غلبہ فرنگ تھا،جدید تعلیم یافتہ طبقے کو فرنگ کی تہذیب سے کوئی منافرت نہیں۔ اگر ان کو فرنگ کی طرف سے سیاسی آزادی بھی حاصل ہو جائے تو بھی ان کے قلوب فرنگ سے مغلوب و مرعوب ہی رہیں گے۔ اقبال اس ذہنی غلامی کو سیاسی غلامی سے بھی زیادہ مضر اور خطرناک سمجھتا تھا۔
اس کے دل میں یقین پیدا ہو چکا تھا کہ اگر مسلمان ذہنی طور پر آزاد ہو جائیں اور اپنے دلوں میں روح اسلام کی پرورش کریں تو وہ سیاسی اور معاشرتی غلامی سے بھی آزاد ہو جائیں گے۔ ایک قسم کی تقلید وہ تھی جس نے دین داروں کو جامد کرکے مذہب کو بے معنی اور استخوان بے مغز بنا دیا تھا۔ دوسری طرف جدید تہذیب کے متوالوں کی تقلید شعاری تھی،جو ایک بند سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش میں ایک دوسری قسم کی قید و بند میں گرفتار ہو رہے تھے۔
ایسے لوگوں کو شکار کرنے کیلئے مغرب کو کوئی زیادہ کوشش درکار نہ تھی،ان میں خود نخچیر بننے کا ذوق موجود تھا:
خود اٹھا لاتے ہیں جو تیر خطا ہوتا ہے
#
ہمہ آہوان صحرا سر خود نہادہ برکف
بخیال ایں کہ روزے بشکار خواہی آمد
مغربی تہذیب مخصوص خوبیوں سے معرا نہ تھی۔ اس نے بہت کچھ پیدا کیا تھا جس کی ضرورت ملت اسلامیہ کو بھی تھی،لیکن مسلمانوں کی جو کیفیت تھی اس کو مدنظر رکھتے ہوئے مغرب کی خوبیوں اور اس کے کمالات کا راگ الاپنا ان کی ذہنی،معاشی اور تہذیبی زندگی کیلئے مفید نہ ہو سکتا تھا،علم و فن میں یورپ کے کمالات اقبال کی نظر سے اوجھل نہ تھے اور کبھی کبھی اس کی زبان سے اس کی بے اختیار داد بھی نکل جاتی تھی،لیکن قدر شناسی کا یہ پہلو اس کے کلام اور پیام میں ہی دبا ہی رہا۔
مغرب کے حاصل کردہ کمالات کچھ اسی نظریہ حیات کی بدولت تھے جسے اقبال اسلامی سمجھتا تھا لیکن دین سے بے تعلق ہونے کی وجہ سے مغرب ان قوتوں کا صحیح استعمال نہیں کر رہا تھا۔ اقبال چاہتا تھا کہ مغرب انسانیت کی تکمیل میں روحانیت کے عنصر کو بھی ترقی دے اور مسلمان مغرب کی کورانہ تقلید میں صورت پرست ہو کر روح حیات سے بیگانہ نہ ہو جائیں۔ بعض ناقدوں کا خیال ہے کہ مغرب کی تنقیص میں اقبال کی کیفیت کچھ جنونی سی معلوم ہوتی ہے،لیکن واقعہ یہ ہے کہ دیوانہ بکار خویش ہشیار۔
اس کا جنون بے مقصد نہ تھا،وہ اپنی قوم کو ایک قسم کی تقلید سے نکل کر دوسری قسم کی حیات کش تقلید میں مبتلا ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا اور ملی خودی کو استوار کرنے کیلئے یہ لازم تھا کہ ملت کو اپنے مخصوص زاویہ نگاہ کی طرف راغب کیا جائے تاکہ اغیار کی ستایش گری ان کو اندھے مقلد نہ بنا دے۔
اقبال کی خواہش یہ تھی کہ علم و فن یورپ سے حاصل کرو لیکن روحانیت اور اخلاقیات کا جو سرمایہ تم کو اسلام نے عطا کیا ہے اس بیش بہار وراثت کی قدر کرو،تاکہ شرق و غرب دونوں سے افضل اور مکمل تہذیب و تمدن پیدا کر سکو۔
مشرق و مغرب کے متعلق اپنے نظریات کو اپنے کلام میں منشتر کرنے کے علاوہ اقبال نے جاوید نامہ میں اس بارے میں اپنے مخصوص افکار کو ان اشعار میں جمع کر دیا ہے جو سعید حلیم پاشا نے مفکر و مصلح ترکی کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہے ہیں۔ 
سعید حلیم پاشا نے ترکوں کو جمود سے نکال کر شاہراہ ترقی پر گامزن کرانے کی کوشش کی لیکن سلطانی استبداد اور ملائی جمود نے اس کی کوششوں کو بارور نہ ہونے دیا۔
تُرک مشرقی یورپ کے ایک حصے پر عرصے سے حکمرانی کرتے تھے،دول یورپ نے قوت پکڑنے کے ساتھ ہی ان کے سیاسی اقتدار کو ختم کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ ایک ایک کرکے مشرقی یورپ کی اقوام کو ترکوں کے خلاف ابھارا اور اپنی امداد سے ان کو آزاد کرایا۔ ترکوں کے صاحب بصیرت افراد عرصے سے یہ دیکھ رہے تھے کہ ترک روز بروز کمزور ہوتے چلے جا رہے ہیں،ان کی کمزوری اور مملکت کے اختلال کے اور بھی بہت سے اسباب تھے لیکن ایک بڑا سبب یہ تھا کہ اس دور میں علم و حکمت اور صنعت کے بغیر کسی قوم میں محض ذاتی اور عسکری شجاعت کی بنا پر قوت پیدا نہ ہو سکتی تھی۔
 سعید حلیم پاشا نے اس مرض کی صحیح تشخیص کی اور مجرب علاج تجویز کیا۔ مگر ترکوں کی سلطانی سیاست بصیرت سے بالکل محروم تھی اور ملائیت میں اسلام کی کوئی زندہ صورت نہ تھی۔ مستبد سلطانی اور جامد فقہ نے مل کر سلطنت پر ایسی ضرب کاری لگائی کہ وہ اس سے جانبر نہ ہو سکی۔ سعید حلیم پاشا کی تلقین یہ تھی کہ اسلام کی روحانیت اور اخلاقیات میں کوئی خلل نہیں اور نہ ہی اس کے نظریہ معیشت و معاشرت میں کوئی خامی اور کوتاہی ہے،ترکوں کے زوال کا اصلی سبب یہ ہے کہ جب مغرب جدید علوم و فنون پیدا کر رہا تھا،ترک یورپ کا ہمسایہ ہونے کے باوجود اس جدید دور کی اہمیت اور قوت آفرینی سے غافل رہے۔
مسلمانوں کو یورپ سے علوم و فنون حاصل کرنے کی ضرورت ہے جن کے ساتھ مل کر اسلام کی شریعت ایک صحت مندانہ معاشرت اور سیاست پیدا کر سکتی ہے۔ حقیقی ترقی کی تعمیر اسلام کی بنیادوں پر ہی ہو سکتی ہے مگر اسلام اور اس کی شریعت کوئی جامد چیز نہیں تغیر حالات کے ساتھ وہ عروج کی نئی راہیں سمجھا سکتی ہے۔

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط