Episode 66 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 66 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

 قدیم اور جدید فلاسفہ میں بڑے بڑے مفکرین ایسے گزرے ہیں جنہوں نے نظریہ علم میں یہی کام کیا کہ عقل استدلالی اور زمان و مکان اور علت و معلول کے حدود کے اندر عمل کرنے والی خرد کی محدودیت کو ثابت کیا جائے۔ زمانہ حال میں تنقید عمل نظری کا عظیم الشان کام جرمنی کے امام فلسفہ کانٹ نے شروع کیا۔ اس کے بعد اکابر حکمائے مغرب میں بہت کم ایسے ہیں جنہوں نے محض طبیعی عقلیت کو اسرار حیات و کائنات کا کاشف قرار دیا ہو۔
ہیگل کی منطق بھی ارسطو کی سی جامد منطق نہیں،اس کے ہاں فکرو حیات میں ہم آہنگی ہے،دونوں کے اندر مسلسل تضادات پیدا ہوتے اور ایک اعلیٰ تر ترکیب کے اندر رفع ہوتے ہیں۔ گویا فکر بھی ایک مسلسل تخلیقی حرکت ہے۔ جماد و نبات و حیوان و انسان سب کی تعمیر میں ایک خرابی کی صورت پیدا ہوتی ہے جس کو رفع کرکے اضداد میں وحدت ترکیبی پیدا کرنا روش حیات و کائنات ہے۔

(جاری ہے)

مغرب میں خدا کے قائل فلسفیوں نے اس منطق سے موافق توحید نتائج اخذ کئے،اگرچہ اس کے بعض پیرو مذہب سے دور ہو گئے۔
 المانوی فلاسفہ میں نشٹے کا نظریہ حیات اقبال کے نظریہ حیات کے بہت مماثل ہے چنانچہ اسرار خودی کے بعض اشعار میں خودی کی بابت نشٹے کا استدلال دلنشیں اشعار میں منتقل ہو گیا ہے۔ نشٹے نفس الٰہی اور نفس انسانی کو از روئے ماہیت خلاق اور ارتقا کوش سمجھتا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ ہستی خود ورزش تکمیل خودی کیلئے مزاحمتیں پیدا کرتی ہے تاکہ ان پر غلبہ حاصل کرکے وہ قوی تر ہو جائے۔ اقبال کے ہاں بھی شر اور شیطان کا یہی تصور ہے جس کی شان میں اس نے بہت کچھ لکھا ہے۔ اس کا یہ مقصود واضح کرنا ہے کہ اگر شر یا اس کے مشخص تصور شیطان کا وجود نہ ہوتا تو ہستی جامد اور بے حرکت ہو کر رہ جاتی۔ عقل طبیعی کا سب سے بڑا نقاد فلسفی برگساں ہے جس سے بہتر کبھی کسی حکیم نے عقل اور وجدان کا موازنہ اور مقابلہ نہیں کیا اور وجدان حیات کو جو طبیعی اور استدلالی نہیں ہے وہ بھی اقبال کی طرح عشق خلاق ہی قرار دیتا ہے۔
 امریکہ کا مشہور ماہر نفسیات اور فلسفی ولیم جیمز بھی طبیعی اور استدلالی عقل کو ہستی کے لامتناہی پہلوؤں کو مدرک نہیں سمجھتا۔ زمانہ حال میں جدید طبیعیات کے ماہرین میں سے اڈنگٹناور جیمز جیسے فلاسفہ پیدا ہو گئے جو طبیعیات کی ریاضیاتی عقل کو ایک ثانوی چیز قرار دیتے ہیں اور زندگی کو جو اپنا براہ راست وجدان حاصل ہے ان کے نزدیک وہ حقیقت حیات و کائنات سے زیادہ قریب ہے۔
ان تمام فلاسفہ میں کوئی نبی یا ولی نہیں،خود عقل کے وسیع تر اطلاق نے اور خود عقل کے تجزیے نے ان کو ان حقائق کا قائل کر دیا جو عقل اور محسوسات اور زمان و مکان سے ماوریٰ اور نفس انسانی کی ماہیت سے قریب تر ہیں۔ جس حد تک اقبال عقل کا نقاد ہے وہ بھی ان حکما کی صف میں داخل ہے اور بعض اشعار میں اس نے انہی حکما کے افکار کو اپنے شعریت کے خم میں ڈبو کر رنگین کر دیا ہے۔
 ان نظریات کو اقبال نے ایسے جوش اور ولولے کے ساتھ اور ایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ خود ان حکما کا استدلال طبیعت پر ایسا گہرا اثر نہیں چھوڑتا جتنا کہ اقبال کے شعر سے پیدا ہوتا ہے۔ اقبال خود فلسفی بھی ہے اور شاعر بھی،اس کی طبیعت میں بوعلی اور رازی کا انداز بھی ہے اور رومی کا سوز و ساز بھی۔ اسی آمیزش نے اس کے کلام کو الہامی بنا دیا ہے۔
اقبال فلسفے اور شعر کے فرق سے خوب واقف تھا لیکن اقبال کے اندر یہ تضاد قائم نہیں رہتا اور فلسفہ شعر بن کر دل رس ہو جاتا ہے۔ کیا خواب کہا ہے:
حق اگر سوزئے ندارد حکمت است
شعر می گردد چو سوز از دل گرفت
بوعلی اندر غبار ناقہ گم
دست رومی پردہ محمل گرفت
عقل کے بھی کئی مدارج ہیں۔ بعض حکما نے ان مدارج کو مادے سے شروع کرکے خدا تک پہنچایا ہے۔
یہ تدریج بھی یونانیوں نے پیدا کی تھی،ان کے ہاں ہیولیٰ ہستی بے صورت کا تصور تھا جو عدم کے مترادف ہے۔ ہستی اسفل ترین مدارج میں وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے یہ ہیولیٰ یا عدم کسی تصور کے تحقق سے کوئی صورت اختیار کرتا ہے۔ یہ تصور عالم عقلی ہی کا عکس ہوتا ہے جو عدم پر پڑ کر اس کو وجود بخشتا ہے۔ غرضیکہ عقل کا ظہور جمادات سے شروع ہوتا ہے،نبات میں کچھ ترقی یافتہ ہے اور حیوانات میں کچھ اور آگے بڑھ گیا ہے۔
انسان میں پہنچ کر عقل کی ترقی انفس و آفاق پر محیط ہو جاتی ہے لیکن ہر درجے میں عقل کے ساتھ مادے کی کچھ نہ کچھ آمیزش باقی رہتی ہے۔ سوا خدا کے جو عقل محض ہے،اس میں مادے کی کوئی آمیزش نہیں اور نہ مادے سے ملوث کوئی وجود اس کے علم کا معروض ہے۔ وہاں پہنچ کر عالم و معلوم کی تمیز مٹ جاتی ہے۔ خدا محض اپنا ہی عالم ہے ماسویٰ کا وجود چونکہ حقیقی نہیں اس لئے خدا کو اس کا علم بھی نہیں،کیوں کہ اگر علم کا معروض غیر حقیقی ہو تو وہ علم علم ہی نہ رہے گا۔
ارسطو کے نظریہ علم کا لب لباب یہی ہے۔
اکثر حکما عقل طبیعی اور عقل استدلالی پر آکر رک گئے اور اس عقیدے کی تلقین کرنے لگے کہ تمام عالم عقلی ہے اور اس کا ادراک بھی عقل کے سوا اور کسی ذریعے سے نہیں ہو سکتا۔ لیکن امام غزالی جیسے حکما صوفیہ نے عقل جزوی اور عقل کلی میں فرق پیدا کیا ہے اور حکما طبیعین کی عقل کو وہ عقل جزوی کہتے ہیں،جس سے عقل کلی ہونے کا مغالطہ پیدا ہو گیا ہے۔
امام غزالی فرماتے ہیں کہ عقل کے مدارج عام انسانوں بلکہ حکما تک بھی ختم نہیں ہوتے۔ اس سے برتر بھی عقل کا ایک درجہ ہے جسے غزالی عقل نبوی کہتے ہیں اور رومی نے کہیں کہیں اسے عقل ایمانی کہا ہے۔ اقبال نے اپنے انگریزی خطبات میں رومانی وجدان کی بابت لکھا ہے کہ وہ بھی محض تاثر یا جذبہ نہیں،بلکہ حقائق حیات کی بابت اس میں وسیع تر علم اور عمیق تر بصیرت پائی جاتی ہے۔
یہاں بھی وجدان و عشق و سوز و گداز کے ساتھ ساتھ عقل و علم کی وسعتیں موجود ہیں۔
 اقبال بار بار اس پر زور دیتا ہے کہ استدلالی اور طبیعی عقل ہی کو عقل نہ سمجھ لو اور چونکہ لوگوں نے اسی کو عقل سمجھ رکھا ہے جو اکثر حیوانی جذبات کی غلامی کرتی اور زندگی کے متعلق انسان کی نظر میں تنگی پیدا کرتی ہے اس لئے وہ عقل کے مدارج کی توضیح کئے بغیر اس کی کوتاہی اور حقیقت نارسی ہی کا زور و شور سے اعلان کرتا ہے،جس سے عام پڑھنے والوں کو مغالطہ ہوتا ہے کہ وہ علی الاطلاق ہر قسم کی عقل کو بیکار چیز سمجھتا ہے اور لوگوں کو اس سے بے زار کرکے بے سمجھے بوجھے ایمان لانے اور جذبہ عشق پیدا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
عقل جزوی وہ ہے جو خود اپنی نقاد اور اپنے حدود و مقام کی شناسا نہیں بن سکی۔ اس کو وہ کبھی الحاد آفریں کہتا ہے اور کبھی بہانہ جواور فسوں گر،مگر اعلیٰ درجے کے حکما اس فسوں گری کا شکار نہیں اور خود فلسفیانہ استدلال ہی سے انہوں نے غیر استدلالی حقائق کا ثبوت پیش کیا ہے۔ خود اقبال نے اپنے انگریزی خطبات میں ایسا ہی کیا ہے،ان خطبات میں جو کچھ ہے وہ بھی فلسفہ ہی ہے،جسے اقبال نے الٰہیات کی معاونت میں استعمال کیا ہے۔
باقی رہے عقل جزوی یا عقل محدود کے فلسفے جو عقل ایمانی یا عقل نبوی کے قائل نہیں ان کی بابت اقبال مخالفانہ تنقید سے نہیں تھکتا،کیوں کہ ایسے فلسفے انسان کو حقیقت حیات،خدا اور خودی سب سے بیگانہ کر دیتے ہیں:
چہ کنم کہ عقل بہانہ جو گرہے بروئے گرہ زند
نظریے! کہ گردش چشم تو شکند طلسم مجاز من
نرسد فسوں گری خرد بہ تپیدن دل زندہ
ز کنشت فلسفیاں درآ بحریم سوز و گداز من
عقل کی تنقید ان دو چار مخصوص مضامین میں سے ہے جو اقبال کی خاص تبلیغ اور نظریہ حیات کے محور ہیں۔
جو اشعار منتخب کرکے پیش کئے گئے ہیں ان کے علاوہ بھی اور بہت سا کلام اسی موضوع پر مشتمل ہے۔ اس تنقید کو ختم کرتے ہوئے ہم پیام مشرق میں مندرجہ نظم محاورہ علم و عشق قارئین کی لطف اندوزی اور بصیرت افروزی کیلئے پیش کرتے ہیں۔ اس کا لب لباب وہی ہے جو اس موضوع کے دوسرے اشعار میں موجود ہے لیکن اقبال کے انداز شعریت میں ہمیشہ جلوہ تازہ بتازہ اور نو بنو ہوتا ہے۔
موضوع خواہ ایک ہی ہو لیکن انداز بیان کی بو قلمونی میں فرض نہیں آتا:
علم
نگاہم راز دار ہفت و چار است
گرفتار کمندم روزگار است
جہاں بینم بایں سو باز کردند
مرا با آنسوے گردوں چہ کاراست
چکد صد نغمہ از سازے کہ دارم
بازار افگنم رازے کہ دارم
عشق
ز افسون توت دریا شعلہ زار است
ہوا آتش گذار و زہر دار است
چو بامن یار بودی، نور بودی
بریدی از من و نور تو نار است
بخلوت خانہ لاہوت زادی
و لیکن در نخ شیطاں فتادی
بیا ایں خاک داں را گلستاں ساز
جہان پیر را دیگر جواں ساز
بیا یک ذرہ از درد دلم گیر
تہ گردوں بہشت جاوداں ساز
ز روز آفرینش ہمدمم استیم
ہماں یک نغمہ را زیر و بم استیم

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط