Episode 23 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 23 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

فارسی میں بھی غالب کا ایک نہایت حکیمانہ شعر اس کے رجائی نقطہ نظر کو واضح کرتا ہے۔ جہاں زندگی ہے۔ خواہ نباتی ہو یا حیوانی،وہاں اس کے ساتھ روزگار کے آئین کے مطابق کبھی کبھی جادہ صحت و توازن سے ہٹ کر مرض کا ظہور بھی ہوتا ہے۔ دنیا میں رنج و درد کے مظاہر کو دیکھ کر بعض لوگ خداے حکیم و رحیم کی ہستی ہی کے منکر ہو جاتے ہیں۔ غالب کہتا ہے کہ حکیم مطلق کی رحمت کا اس سے اندازہ کرو کہ بیماریوں کے تمام علاج جمادات میں ملتے ہیں اور انہیں کے عناصر سے دوائیں بنتی ہیں،لیکن مخلوقات کی تدریجی تکوین میں جماد و نبات پہلے نمودار ہوئے ہیں اور حیوانات،جو امراض کا شکار ہو سکتے ہیں،بعد میں پیدا ہوئے ہیں۔
رنج و مرض کے وجود سے پہلے فطرت نے علاج کے سامان مہیا کر رکھے تھے:
چارہ در سنگ و گیاہ و رنج با جاندار بود
پیش ازیں کید در رسد آن را مہیا ساختی
اقبال کا فلسفہ حیات بھی شدت کے ساتھ رجائی ہے،وہ دنیا والوں کیلئے امید کا پیغام رساں ہے جیسا کہ ہر اولوالعزم نبی بھی ”لاتقنطوامن رحمتہ اللّٰہ“ ہی کی بشارت انسانوں تک پہنچانے کیلئے آتا ہے۔

(جاری ہے)

اس نظم میں یاس انگیزی جب ایک خاص حد تک پہنچ جاتی ہے تو اقبال یک بیک چونک اٹھتا ہے کہ ہیں یہ میں نے اپنے اوپر کیا غلط جذبہ طاری کر لیا ہے۔ فنا تو زندگی کی ماہیت نہیں ہو سکتی،قدیم اقوام کے زوال پر نظر ڈالتے ہوئے ملت مسلمہ کی طرف آ ئے تو یہ شعر لکھنے کے بعد کہ:
آہ! مسلم بھی زمانے سے یونہی رخصت ہوا
آسماں سے ابر آزادی اٹھا برسا گیا
یک دم فطرت کی حیات انگیزی کی طرف مڑ کر دیکھتا ہے تو کہیں فنائے محض نظر نہیں آتی،رگ گل میں شبنم کے موتی پروئے ہوئے ہیں،سینہ دریا شعاعوں کا گہوارہ ہے،پرندوں کی رنگیں نوائی پھولوں کی رنگینی کا جواب ہے،ہر جگہ عشق سے حسن اور حسن سے عشق پیدا ہو رہا ہے،موت میں بھی زندگی کی تڑپ محسوس ہو رہی ہے،تمام فطرت نشاط آباد دکھائی دیتی ہے،لیکن پھر ہوک سینے میں اٹھتی ہے کہ فطرت کی نشاط انگیزی اس غم کا غلاج تو نہیں ہو سکتی جو زوال ملت سے طبیعت کو غم کدہ بنا رہا ہے:
اس نشاط آباد میں گو عیش بے اندازہ ہے
ایک غم یعنی غم ملت ہمیشہ تازہ ہے
دو چار اشعار میں پھر یہ غم نشاط فطرت پر غالب آ جاتا ہے،لیکن آخری مرحلے میں یاس و حسرت امید کو جنم دیتے ہیں:
دہر کو دیتے ہیں موتی دیدہ گریاں کے ہم
آخری بادل ہیں اک گزرے ہوئے طوفان کے ہم
ہیں ابھی صدہا گہر اس ابر کی آغوش میں
برق ابھی باقی ہے اس کے سینہ خاموش میں
وادی گل خاک صحرا کو بنا سکتا ہے یہ
خواب سے امید دھقان کو جگا سکتا ہے یہ
اسلامی تاریخ میں فتوحات ملکی کا دور گزر گیا ہے،جاہ و جلال والی سلطنتیں شاید دوبارہ قائم نہ ہو سکیں،لیکن زندگی میں جلال کے علاوہ جمال بھی ہے اور ممکن ہے کہ جلال فی نفسہ مقصود نہ ہو بلکہ جمال آفرینی کیلئے محض ایک شرط مقدم ہو،اخلاقی اور روحانی،علمی اور فنی مقاصد کا حصول عظیم سلطنتوں کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔

 سلاطین کا دور دورہ ختم ہو گیا،کیا ضروری ہے کہ اس کے ساتھ باطنی کمالات کا ظہور بھی ختم ہو جائے۔ اسلامی زندگی کے مقاصد لامتناہی ہیں اور چونکہ اسلام ابدی حقائق کی تحقیق کا نام ہے اس لئے یہ دین کبھی فرسودہ نہیں ہو سکتا اور ملت اسلامیہ جو اس کی علم بردار ہے اس کیلئے ماضی کی عظمت رفتہ اور حال کی تباہ حالی کے بعد ایک درخشاں مستقبل بھی ہے،ناامیدی کفر ہے:
ہو چکا گو قوم کی شان جلالی کا ظہور
ہے مگر باقی ابھی شان جمالی کا ظہور
اس آخری شعر میں اس خیال کا اظہار ہے کہ قوت،اقتدار اور حکمرانی کی شان و شوکت اور دبدبہ شاید اب واپس نہیں آ سکتا،لیکن بعد میں اسرار خودی کو پیش کرنے والا اقبال پھر جلال کی طرف واپس آئے گا:
لاکھ حکیم سربجیب ایک کلیم سر بکف
اور یہ تلقین شروع کرے گا کہ خالی باطن کی تنویر بھی بغیر شمشیر کوئی اہم نتیجہ پیدا نہیں کر سکتی،مادی قوت اور زبردست خود مختار حکومت کا ہونا بھی لازمی ہے۔
ملوکیت تو واپس نہیں آ سکتی اور نہ ارتقائے حیات اجتماعی میں اس کا دوبارہ آنا مفید ہے،لیکن سیاسی اور معاشی قوت اور علوم و فنون سے پیدا کردہ تسخیر فطرت کا ملکہ روحانیت اور استحکام خودی کیلئے لازمی ہیں۔ نوع انسان کے آئندہ ارتقاء میں جلال و جمال کا ایک دل کش مرکب تیار ہونا چاہئے۔ اسلام اسی نظریہ حیات کو پیش کرنے والا دین تھا،اس لئے اس نظریہٴ حیات کے مطابق حیات ملی کو ڈھالنا ملت اسلامیہ ہی کا حق اور اسی کا فرض اولین ہے۔
۱۹۰۸ء سے لے کر عالم جاودانی کو سدھارنے تک اقبال کی شاعری میں کم از کم تین چوتھائی حصہ اسلامی اور ملی شاعری کا ہے،اس میں بے شمار فلسفیانہ افکار اور حکیمانہ جواہر ریزے بھی ملتے ہیں لیکن سب کا محور تعلیمات اسلامی اور جذبہ احیاے ملت ہے۔ جو لوگ اقبال کو محض شاعر جانتے تھے اور اس کے سخن کی لطافتوں،نادر ترکیبوں اور دل آویزیوں کے شیدائی تھے ان کو اقبال کی شاعری کا یہ انقلاب ایک رجعت قہقری محسوس ہوا اور بعض نقادوں نے کہنا شروع کیا کہ اقبال پہلے اچھا شاعر تھا،حسن و عشق اور مناظر فطرت پر نظمیں لکھتا تھا،صبح و شام کے مناظر کو دل کش انداز میں پیش کرتا تھا اور اگر انسانوں کے متعلق کوئی بات کہتا تھا تو اس کی مخاطب تمام نوع انسانی ہوتی تھی،اب وہ محدود محصور ہو کر فقط مسلمانوں کا شاعر رہ گیا ہے،اب وہ مبلغ ہو گیا ہے،واعظ ہو گیا ہے۔
اسلام اور مسلمانوں کا پروپیگنڈا کرتا ہے،اس کے غیر مسلم قدر دانوں نے مایوس ہو کر اس سے شکایت کرنی شروع کی کہ اب ہم لوگ آپ کے مخاطب نہیں رہے،وطن پرستوں نے کہا ہم تو اقبال کی پرستش اس لئے کرتے تھے کہ وطن پرست تھا،خاک وطن کا ہر ذرہ اس کو دیوتا دکھائی دیتا تھا،وہ مذاہب کی باہمی پکار و پُرخاش کو مٹانا چاہتا تھا،آوارہ اذان کو ناقوس میں چھپانے اور تسبیح کے دانوں کو رشتہ زنار میں پرونے کا آرزو مند تھا،لیکن اب وہ اسلام کے سوا کسی دین کو سچا نہیں سمجھتا،اب یہ پروانہ فقط چراغ حرم کا طواف کرتا ہے اور چراغ دیر کو قابل اعتبار نہیں سمجھتا،بھلا مصلحانہ شاعری بھی کوئی شاعری ہوتی ہے؟
 فن لطیف کا کام براہ راست وعظ کرنا تو نہیں،تبلیغ سے تو فن لطیف آلودہ اور کثیف ہو جاتا ہے۔
مسلمانوں میں بھی فن براے فن کے دلدادہ کہنے لگے کہ کیا افسوس ہے کہ اقبال جیسے صاحب کمال کو زوال کیا ہے۔ ایک مرتبہ لاہور کی ایک نمائش میں جوش ملیح آبادی اور ساغر مجھ سے کہنے لگے کہ بھائی اقبال سے تمہارے دیرینہ تعلقات ہیں اور تم خود ذوق سخن بھی رکھتے ہو،ذرا یہ بتاؤ اقبال اب جو شاعری کرتا ہے یہ کوئی شاعری ہے؟ ذرا اس کو کہو کہ وہ اس روش کو چھوڑ دے اور اپنے کمال کو اس بیہودہ کوشش میں ضائع نہ کرے۔
میں ان کو کیا جواب دیتا،مسکرا کر خاموش ہو گیا،اس بارے میں بحث بالکل بے نتیجہ ہوتی۔ ساغر صاحب فن برائے فن والے شاعر تھے اور اقبال کے نزدیک یہ انحطاط اور بے روحی کی علامت تھی۔
 جوش صاحب کا مضمون خاص رندی اور خمریات تھا جس میں ان کی صناعی اکثر نوجوانوں سے تحسین حاصل کرتی تھی،لوگ انہیں شاعر انقلاب کہنے لگے تھے اس لئے کہ وہ انگریزوں کی حکومت کے علاوہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت سے بغاوت کا اظہار کرتے تھے اور الحاد کو خوشگوار بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔
ایسے لوگوں کیلئے اقبال یا تو ناقابل فہم تھا جو کچھ وہ کہتا تھا اس کو سمجھنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ یہ باتیں بے کار ہیں۔ اسلام کسی زمانے میں کچھ کام آیا ہو گا اب:
این دفتر بے معنی غرب مے ناب اولیٰ
ملت اسلامیہ کے احیا کا خواب اب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا:
آن قدح بشکست و آن ساقی نماند
اب یا وطنیت کے راگ گانے چاہیے یا روسی اشتراکیت کے،جو الحاد کی بنیاد پر ایک نئی عالمگیر برادری پیدا کر رہی ہے،ان کے نزدیک اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ مذہب غلامانہ اخلاق کی تلقین کرتا ہے اور دیر و حرم میں یہ افیون لوگوں کو اس لئے دی جاتی ہے کہ وہ ہر قسم کے استبداد کو مشیت ایزدی سمجھ کر برضا و رغبت قبول کرلیں۔
مسلمان پہلے ہی استبداد کے افیون خوردہ تھے،اب حضرت اقبال بھی ان کو یہی افیون اپنی شاعری میں گھول کر پیش کر رہے ہیں۔
 یہ کہا گیا کہ اقبال مسلمانوں کے خون کو گرما کر ان کو دوسری ملتوں سے برسر پیکار کرنے میں کوشاں ہے۔ ان اعتراضات کا تفصیلی جواب اقبال کی تعلیمات کو پیش کرتے ہوئے دیا جائے گا،یہاں اس وقت فقط یہ بتانا مقصود ہے کہ اقبال نے جب شاعری کا رخ بدلا تو بعض طبائع پر اس کا کیا ردعمل ہوا۔
اسرار خودی کے شائع ہونے کے بعد بعض لوگوں میں ایک دوسری قسم کی مایوسی پیدا ہوئی ان میں کچھ ایسے تھے جو اقبال سے یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ اپنی ثروت افکار اور پرواز تخیل سے اُردو زبان کو سرمایہ افتخار بنائے گا۔ غالب کے متعلق خود اقبال کہہ چکا تھا:
گیسوے اُردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دلسوزی پروانہ ہے

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط