Episode 9 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 9 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

 فارسی نظموں میں اقبال نے عقل و خرد کی بہت تذلیل و تحقیر کی ہے اور جیسا کہ ایک نقّاد نے کہا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال عقل کے پیچھے لٹھ لئے پھرتا ہے کہ جب بھی موقع ملے ایک ضرب رسید کر دے،لیکن اس اُردو نظم میں بڑا اعتدال اور نہایت منصفانہ توازن ہے۔ عقل نے اپنی فضیلت اور کار گزاری میں جو کچھ کہا وہ سچ ہے،اس کے دل نے اس کی تردید نہیں کی،دل نے صرف اس کے حدود و قیود کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اپنی غرض و غایت کے لحاظ سے تو حق بجانب ہے لیکن ہستی حقیقی یا وجود مطلق صرف اتنا ہی نہیں جتنا کہ تجھ کو ادراک ہوتا ہے۔
عقل کی رسائی میں کس کو شک ہے؟ وہ زمین کے جماد و نبات ہی نہیں بلکہ فلکیات کی بھی محاسب ہے،خدا چونکہ عاقل ہے اس لئے عقل کا یہ دعویٰ کہ میں مظہر شان کبریا ہوں بجا اور درست لیکن سمجھنے اور دیکھنے میں فرق ہے،عین الیقین کا درجہ علم الیقین سے بڑھا ہوا ہے،عقل کا کام علم الیقین تک پہنچانا ہے،اس کی رہبری یہاں پہنچ کر ختم ہو جاتی ہے:
عقل گو آستان سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
حکمت،سائنس یا فلسفے کا کام مظاہر فطرت کا مطالعہ ہے تاکہ یہ کثرت،آئین کی وحدت میں پروئی جائے لیکن کنہ وجود تک اس کی رسائی نہیں،عقل کی بینائی مظاہر کی سطح تک خوب کام کرتی ہے لیکن عین وجود میں غوطہ زنی اس کا کام نہیں۔

(جاری ہے)

عقلی ادراک ہمیشہ بالواسطہ ہوتا ہے،استدلال کی کئی کڑیاں ایک نتیجے پر منتج ہوتی ہیں۔ اگر استدلال کے زینے میں سے کوئی ایک پایہ ٹوٹ جائے تو نتیجے تک پہنچنا محال ہو جائے۔عقل میں شک اور گمان کا شائبہ ہمیشہ باقی رہتا ہے لیکن براہ راست مشاہدے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی:
راز ہستی کو تو سمجھتی ہے
اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں
عقل و دل کا یہ مکالمہ بو علی سینا اور ابو سعید ابوالخیر کی ملاقات میں بھی ملتا ہے۔
حضرت ابو سعید کے سوانح حیات میں یہ لکھا ہے کہ حکیم بو علی سینا سے ان کی ملاقات ہوئی اور عالم روحانی کی بابت بوعلی نے نہایت عمدہ استدلال سے اس عالم کی کیفیات کا اثبات کیا اور کہا کہ از روے حکمت انسان ان نتائج پر پہنچتا ہے۔ حضرب ابو سعید نے یہ سب کچھ سن کر فقط یہ فرمایا کہ ”رچہ می دانی من می بینم“ جو کچھ تو جانتا ہے میں اس کو چشم دل یا دیدہ باطن سے دیکھتا ہوں۔
استد لال اور مشاہدے یا دانش و بینش کا فرق ہے۔ حقیقت رسی کے معاملے میں علم کا تذبذب کبھی ختم نہیں ہوتا۔ عقل اپنے نتائج حسی ادراک کے مواد سے اخذ کرتی ہے اور تمام حِسی مظاہر زمان و مکان کے سانچوں میں ڈھل کر عقل کیلئے قابل ادراک ہوتے ہیں،اس لئے جو حقیقت نہ زمانی ہے نہ مکانی،وہ عقل کی گرفت سے لازماً باہر رہے گی۔
 صوفیہ کشف و وجدان سے اس حقیقت پر پہنچے کہ دل کے مشاہدات اور احوال زمانی اور مکانی نہیں ہوتے اور یورپ کا سب سے بڑا فلسفی کانٹ بڑے طویل اور دقیق استد لال سے اس نتیجے پر پہنچا کہ زمان و مکان کوئی مستقل اور لامحدود حقائق وجود نہیں بلکہ عقل و ادراک کے سانچے میں خدا اور روح کی حقیقت ان سے ماوریٰ ہے،عقل کا وظیفہ مطالعہ مظاہر اور علت و معلول کے روابط تلاش کرنا ہے،ہستی کی حقیقت تک اس کی رسائی ناممکن ہے،عقل بے کار چیز نہیں لیکن جب وہ اپنی حد سے باہر قدم رکھنا چاہتی ہے تو سوخت ہو جاتی ہے:
اگر یک سر موے برتر پرم 
فروغ تجلی بسوزد پرم
اسی دور کی نظموں میں ایک نظم دل کے عنوان سے دل کی ردیف میں لکھی ہے،اس نظم میں بھی خودی اور عشق کے مضامین دلکش انداز میں بیان کئے ہیں،دل کی لامتناہی صلاحیتوں کا ذکر ہے:
قصہ دار و رسن بازی طفلانہٴ دل
التجائے ارنی سرخی افسانہٴ دل
یا رب اس ساغر لبریز کی مے کیا ہو گی
جادہ ملک بقا ہے خط پیمانہٴ دل
ابر رحمت تھا کہ تھی عشق کی بجلی یا رب
جل گئی مزرع ہستی تو اگا دانہ دل
حسن کا گنج گرانمایہ تجھے مل جاتا
تو نے فرہاد نہ کھودا کبھی ویرانہ دل
مقطع میں کہتے ہیں:
عقل کے دام میں پھنس کر یہ رہا ہوتا ہے
برق گرتی ہے تو یہ نخل ہرا ہوتا ہے
اقبال کی شاعری آخر میں دل کی حقیقت کی شاعری بن گئی،اسی دل کی حقیقت شناسی نے عقل کا راگ الاپا،اسی نے خودی کے تحقیق اور استحکام کو شدومد کے ساتھ پیش کیا،اسی دل نے عقل پر تنقید کی،اسی نے مقصود حیات متعین کیا،اسی نے اپنے اندر سے خدا کی طرف جانے کا دروازہ کھولا،اسی نے انسان کی موجودہ بے بسی پر آنسو بہائے،اسی نے انسان کو محدود سے لامحدود ہونے کے طریقے سمجھائے۔
اقبال کے نزدیک دل ہی ہے جو لامتناہی قوتوں کا سر چشمہ اور لامحدود و بصیرت کا آئینہ ہے،جس نے اس کی حقیقت نہیں پہچانی وہ محض جسم ہے،مادہ ہے،غلام عقل حواس ہے اور بندہ حرص و ہوا ہے۔
شیخ عبد القادر مرحوم نے ایک بلند پایہ نقاد سخن اور ادب نواز و ادیب پرور ہونے کے علاوہ علامہ اقبال کے عمر بھر کے مخلص دوست بھی تھے،بانگ درا پہ دیباچہ لکھا،اس دیباچے کی ابتدا میں وہ غالب اور اقبال کی مماثلت پر رقمطراز ہیں:
”کسے خبر تھی کہ غالب مرحوم کے بعد ہندوستان میں پھر کوئی ایسا شخص پیدا ہو گا جو اُردو شاعری کے جسم میں ایک نئی روح پھونک دے گا اور جس کی بدولت غالب کا بے نظیر تخیل اور نرالا انداز بیان پھر وجود میں آئیں گے اور ادب اُردو کے فروغ کا باعث ہوں گے مگر زبان اُردو کی خوش اقبالی دیکھئے کہ اس زمانے میں اقبال سا شاعر اسے نصیب ہوا جس کے کلام کا سکہ ہندوستان بھر کی اُردو داں دنیا کے دلوں پر بیٹھا ہے اور جس کی شہرت روم و ایران بلکہ فرنگستان تک پہنچ گئی ہے۔
غالب اور اقبال میں بہت سی باتیں مشترک ہیں،اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا کہ مرزا اسد اللہ خاں غالب کو اُردو اور فارسی کی شاعری سے جو عشق تھا اس نے ان کی روح کو عدم میں جا کر بھی چین نہ لینے دیا اور مجبور کیا کہ وہ پھر کسی جسد خاکی میں جلوہ افروز ہو کر شاعری کے چمن کی آبیاری کرے اور اس نے پنجاب کے ایک گوشے میں جسے سیالکوٹ کہتے ہیں،دوبارہ جنم لیا اور محمد اقبال نام پایا۔
ایک مختصر دیباچے میں اس خیال کے ثبوت میں شیخ صاحب دونوں کے کلام کے نمونہ پیش نہ کر سکتے تھے جن سے یہ مماثلت واضح ہو جاتی۔ اس کتاب میں بھی زیادہ تفصیلی موازنے اور مقابلے کی گنجائش نہیں لیکن شیخ صاحب کے خیال کی وضاحت کیلئے کچھ نہ کچھ لکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ اگر کوئی شاعر کسی دوسرے شاعر کا صمیم قلب سے جوش و خروش کے ساتھ مداح ہو تو از روئے نفسیات یہ لازم آتا ہے کہ مادح اور ممدوح میں کوئی گہری مشابہت ضروی ہے۔
ہر انسان اپنے ممدوح کی غیر شعوری طور پر تقلید بھی کرتا ہے اور انداز نگاہ و طرز کلام میں خود بخود کم و بیش مماثلت پیدا ہو جاتی ہے۔ اقبال کے ابتدائی کلام میں مرزا غالب پر ایک مستقل نظم ملتی ہے جس کا پہلا بند ہے:
فکر انسان پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا
ہے پر مرغ تخیل کی رسائی تا کجا
تہا سراپا روح تو، بزم سخن پیکر ترا
زیب محفل بھی رہا، محفل سے پنہاں بھی رہا
دید تیری آنکھ کو اس حسن کی منظور ہے
بن کے سوز زندگی ہر شے میں جو مستور ہے

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط