Episode 6 - Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 6 - فکرِ اقبال - ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

ان چند غزلیات میں بھی جو بانگ درا میں درج ہیں ارتقائے فن کی رفتار خاصی تیز معلوم ہوتی ہے،بعض غزلوں میں فکر کی گہرائی اور فن کی پختگی نمایاں ہے۔ ان میں کچھ عشق مجازی کی آمیزش ہے،کچھ روایتی متصوفانہ مضامین ہیں لیکن ان کے ساتھ ملے جلے حکیمانہ اشعار بھی ہیں۔ انداز بیان میں انوکھا پن ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شاعر روایتی تغزل سے رفتہ رفتہ الگ ہو رہا ہے:
کیا کہوں اپنے چمن سے جدا کیوں ہوا
اور اسیر حلقہ دام ہوا کیوں کر ہوا
جاے حیرت ہے برا سارے زمانے کا ہوں میں
مجھ کو یہ خلعت شرافت کا عطا کیوں کر ہوا
کچھ دکھانے دیکھنے کا تھا تقاضا طور پر
کیا خبر ہے تجھ کو اے دل فیصلہ کیوں کر ہوا
ہے طلب بے مدعا ہونے کی بھی اک مدعا
مرغ دل دام تمنا سے رہا کیوں کر ہوا
موسیٰ و طور کے قصے کا مندرجہ بالا شعر دیکھئے اور پھر آخر میں پیغمبر خودی اقبال کا یہ شعر پڑھئے:
کب تلک طور پہ دریوزہ گری مثلِ کلیم
اپنی ہستی سے عیاں شعلہ سینائی کر
تو اس کا کچھ اندازہ ہوگا کہ اقبال اپنے ارتقائے فکر میں رفتہ رفتہ کہاں سے کہاں پہنچا ہے:
وہی اقبال جو آخر میں نفس انسان کی بقا کا قائل اور شدت سے آرزو مند ہے ،تصوف کے روایتی نظریہ فنا کے زیر اثر ابتدائی دور میں یہ کہہ جاتا ہے:
نہیں بیگانگی اچھی رفیق راہ منزل سے
ٹھہر جا اے شرر ہم بھی تو آخر مٹنے والے ہیں
وہی اقبال جو بعد میں یہ تلقین کرنے لگا کہ آفاق اور اس کے مظاہر کو آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہئے کیونکہ خدا کا جلوہ جیسا بطون میں ہے ویسا شہود میں بھی ہے، ”ھوالظاہر ھوالباطن“ وہ شروع میں یہ کہہ رہا تھا:
ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئی
متصوفین کے فلسفہ فنا کا یہ ایک مسلمہ مضمون تھا کہ نفس کی انفرادیت ایک دھوکا ہے،نمود حق کے بعد یہ فریب ادراک مٹ جاتا ہے اور اس کے بعد پھر جوہی ازلی حقیقت، ”لاموجود الا اللّٰہ“ رہ جاتی ہے۔

(جاری ہے)

غالب کے ہاں یہ متصوفانہ افکار بہت ملتے ہیں:
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
اقبال بھی تصوف کے زیر اثر فرماتے ہیں:
میں جبھی تک تھا کہ تیری جلوہ پیرائی نہ تھی
جو نمود حق سے مٹ جاتا ہے وہ باطل ہوں میں
یا ایک دوسری غزل میں کہتے ہیں:
میری ہستی ہی تھی خود میری نظر کا پردہ
اٹھ گیا بزم سے میں پردہ محفل ہو کر
اقبال نے اپنے ترقی یافتہ دور میں اسی فلسفہ فنا کے خلاف زور شور سے جہاد کیا ،تاہم اپنی غزلوں میں تحقیق کا شائق اور تقلید سے گریز کرنے والا اقبال بھی دکھائی دیتا ہے:
تقلید کی روش سے تو بہت ہے خودکشی رستہ بھی ڈھونڈ خضر کا سودا بھی چھوڑ دے
مانند خامہ تیری زباں پر ہے حرف غیر بیگانہ شے پہ نارش بے جا بھی چھوڑ دے
اسی غزل میں ایک اور شعر بھی تھا جو انتخاب کرتے ہوئے اقبال نے نکال دیا:
مینار دل پہ اپنے خدا کا نزول دیکھ
یہ انتظار مہدی و عیسیٰ بھی چھوڑ دے
یہ شعر غالباً اس لئے نکال دیا کہ مہدی و عیسیٰ کے متعلق مسلمانوں کے عام عقاء کو اس سے ٹھیس لگتی تھی،خواہ مخواہ ہدف تکفیر بننے سے فائدہ؟ لیکن آخر تک اقبال کا عقیدہ یہی تھا کہ کسی نجات دہندہ کا انتظار شکست خوردہ قوموں کا عقیدہ ہے؟ ہر مسلمان کی نجات اور ملت اسلامیہ کی نجات وفلاح عرفان نفس اور خودی کے استحکام میں ہے۔
۱۹۰۵ء تک اقبال ایک اعلی الاطلاق شاعر ہے،زندگی اور فطرت کے جس منظر اور جن حوادث سے متاثر ہوتا ہے ان کو اپنے حسن بیان کا جامہ پہنا دیتا ہے،تقلیدی اور روایتی شاعری سے اس نے بہت جلد چھٹکارا حاصل کر لیا،جہاں تک فن کا تعلق ہے اس نے کمال پیدا کر لیا،کہیں داغ سے فیض یاب ہے اور کہیں غالب کے تخیل کا قدردان:
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
فن کے لحاظ سے اقبال ہر استاد سے کچھ نہ کچھ لیتے گئے ،یہاں تک کہ فرماتے تھے کہ میں نے ناسخ سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے۔

آزاد، حالی اور شبلی کے ہاں اُردو شاعری اگر قدیم ڈگر سے ہٹنا شروع ہوئی تو یہ مغربی افکار کا نتیجہ تھا۔ اس کا احساس غالب کو بھی ہو گیا تھا کہ جدید تہذیب اور علوم و فنون، انگریزوں کے ساتھ مغرب سے آئے ہیں،ان کی بدولت زندگی کے اقدار اور انسان کا زاویہ نگاہ بدل گیا ہے یا بدل جانا چاہئے۔ چنانچہ سید احمد خاں نے جب ”آئین اکبری“ کا تصحیح کردہ ایڈیشن شائع کیا اور غالب کے پاس تقریظ کیلئے بھیجا تو غالب نے اپنے دوست سید احمد کا کچھ لحاظ نہ کیا اور سخت مخالفانہ تنقید اس پر کی جو غالب کے ”کلیات فارسی“ میں شامل ہے جس کالب لباب یہ ہے کہ قابل غور اب صرف نئے آئین و قوانین ہیں،تہذیب و تمدن کی ترقی نے پرانے قاعدوں کو منسوخ کر دیا ہے،اب ان پر دماغ سوزی کرنا محض مردہ پرستی ہے جو سید جیسے مصلحین قوم کے شایان شان نہیں۔
 
لیکن غالب کی شاعری پر اس جدت پسندی کا کچھ اثر نہ پڑا اس لئے کہ جب اس کو یہ احساس پیدا ہوا، اس وقت وہ اپنی شاعری ختم کر چکا تھا اور وہ اپنے فن کے عمر بھر کے تیار کردہ اور پختہ سانچوں کو توڑ کر نئے سانچے تیار نہ کر سکتا تھا ،پیری،ناداری اور بیماری نے اس کی قوتوں کو مضمحل کر دیا تھا ورنہ وہ آخر ایام میں سید احمد خاں اور ان کے رفقا سے کم تجدید کا تمنائی نہ تھا۔
حالی کو فطری اور قومی شاعری کی طرف سید احمد خاں لائے۔ حالی انگریزی داں نہ تھے اور نہ ہی سید احمد خاں انگریزی داں تھے،اگرچہ اکبر نے سید صاحب کے متعلق بہت خوب کہا ہے کہ تم انگریزی داں ہو وہ انگریز داں تھا۔ علی گڑھ میں انگریزی تعلیم کا چرچا ہو گیا تھا،مغربی علوم و فنون کا مواد تعلیم میں داخل تھا،انگریز اور انگریزی داں ہندوستانی علی گڑھ میں جمع تھے۔
سید صاحب اور ان کے رفقا ان سے ہر طرح معلومات حاصل کرتے تھے اور ان کے زیر اثر اپنے افکار میں ثروت پیدا کرتے تھے یا ان کا رخ بدلتے تھے۔ 
غدر کے بعد محمد حسین آزاد ہجرت کرکے لاہور آ گئے تھے اور گورنمنٹ کالج میں پروفیسر ہو گئے تھے،وہ بھی انگریزی داں نہ تھے،علی گڑھ کی تحریک سے انہوں نے بھی مغربی انداز کی جدید شاعری شروع کر دی اور گل و بلبل کی شاعری کو خیر باد کہا۔
اقبال کی گورنمنٹ کالج کی طالب علمی کے زمانے میں یہ نمونے موجود تھے اور جدید اثرات کام کر رہے تھے،سید صاحب ہوں یا حالی یا شبلییا مولانا نذیر احمد،افکار کماحقہ ان کی گرفت سے باہر تھے اور وہ اس کی کمی کو تاسف کے ساتھ محسوس کرتے تھے۔ آزاد نے نیرنگ خیال میں یہ پیش گوئی کی کہ آئندہ بلند درجے کا ادب وہی لوگ پیدا کر سکیں گے جن کے ہاتھوں میں مغرب اور مشرق دونوں کے خزینہ افکا کی کنجیاں ہوں گی۔
یہ سب زبردست عالم اور ادیب تھے اور انگریزی دانوں کی اعانت سے بعض اوقات ایسی چیزیں لکھ جاتے تھے جو اب تک مستند شمار ہوتی ہیں،چنانچہ مولوی نذیر احمد کا انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ تعزیرات ہند جدید قانون میں اصلاح سازی کا ایک شاہکار ہے،یہ کام کسی خالی انگریزی داں سے سرانجام نہ پا سکتا۔ اسی طرح دہلی کالج کے سلسلے میں مولوی ذکاء اللہ نے درجنوں علوم و فنون جدیدہ کی کتابوں کو اُردو کتابوں میں منتقل کر دیا۔
اپنے غیر معمولی کمال کے باوجود یہ سب بزرگ جس کمی کو محسوس کر رہے تھے وہ کمی اقبال نے پوری کی، اقبال جتنی قدرت اُردو اور فارسی پر رکھتے تھے اتنی ہی دسترس ان کو انگریزی زبان پر بھی حاصل تھی،مغربی افکار کا تمام سرمایہ اقبال کو براہ راست ہاتھ آیا اور مشرق و مغرب کا قران السعدین اقبال ہی میں ظہور پذیر ہوا،آزاد# کی تمنا اقبال میں مجسم ہو گئی۔
بطور نمونہ موجود تھی،اعلیٰ جذبات تو درکنار ادنیٰ شہوات کا انداز بھی غیر فطری ہو گیا تھا،زن و اُردو زبان مسلمانوں کے دور انحطاط کی پیداوار ہے۔ اُردو شاعری کے سامنے جو نمونہ تھا وہ متاخرین کی فارسی شاعری تھی،قصیدہ گوئی اور ہوس پرستی کے تغزل،دور از کار تخیل اور مضمون آفرینی نے اس کو خلوص اور حقیقت سے کوسوں دور کر دیا تھا اور جذبات عالیہ کا اس میں فقدان تھا،دیرینہ تقلید سے وہ اپنی خامیوں میں پختہ ہو گئی تھی،کوئی داخلی محرکات اصلاح و تجدید کے اس کے اندر سے پیدا نہ ہو سکتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی تہذیب و تمدن اور مغربی سیاسی غلبے نے مشرق کی آنکھیں کھول دیں اور اس کو اپنے احتساب پر مجبور کیا۔

Chapters / Baab of Fikr E Iqbal By Dr Khalifa Abdul Hakeem

قسط نمبر 25

قسط نمبر 26

قسط نمبر 27

قسط نمبر 28

قسط نمبر 29

قسط نمبر 30

قسط نمبر 31

قسط نمبر 32

قسط نمبر 33

قسط نمبر 34

قسط نمبر 35

قسط نمبر 36

قسط نمبر 37

قسط نمبر 38

قسط نمبر 39

قسط نمبر 40

قسط نمبر 41

قسط نمبر 42

قسط نمبر 43

قسط نمبر 44

قسط نمبر 45

قسط نمبر 46

قسط نمبر 47

قسط نمبر 48

قسط نمبر 49

قسط نمبر 50

قسط نمبر 51

قسط نمبر 52

قسط نمبر 53

قسط نمبر 54

قسط نمبر 55

قسط نمبر 56

قسط نمبر 57

قسط نمبر 58

قسط نمبر 59

قسط نمبر 60

قسط نمبر 61

قسط نمبر 62

قسط نمبر 63

قسط نمبر 64

قسط نمبر 65

قسط نمبر 66

قسط نمبر 67

قسط نمبر 68

قسط نمبر 69

قسط نمبر 70

قسط نمبر 71

قسط نمبر 72

قسط نمبر 73

قسط نمبر 74

قسط نمبر 75

قسط نمبر 76

قسط نمبر 77

قسط نمبر 78

قسط نمبر 79

قسط نمبر 80

قسط نمبر 81

قسط نمبر 82

قسط نمبر 83

قسط نمبر 84

قسط نمبر 85

قسط نمبر 86

قسط نمبر 87

قسط نمبر 88

قسط نمبر 89

قسط نمبر 90

قسط نمبر 91

قسط نمبر 92

قسط نمبر 93

قسط نمبر 94

قسط نمبر 95

قسط نمبر 96

قسط نمبر 97

قسط نمبر 98

قسط نمبر 99

قسط نمبر 100

قسط نمبر 101

قسط نمبر 102

قسط نمبر 103

قسط نمبر 104

قسط نمبر 105

قسط نمبر 106

قسط نمبر 107

قسط نمبر 108

قسط نمبر 109

قسط نمبر 110

قسط نمبر 111

قسط نمبر 112

قسط نمبر 113

قسط نمبر 114

قسط نمبر 115

قسط نمبر 116

قسط نمبر 117

قسط نمبر 118

قسط نمبر 119

قسط نمبر 120

قسط نمبر 121

قسط نمبر 122

قسط نمبر 123

قسط نمبر 124

قسط نمبر 125

قسط نمبر 126

قسط نمبر 127

قسط نمبر 128

قسط نمبر 129

قسط نمبر 130

قسط نمبر 131

قسط نمبر 132

قسط نمبر 133

قسط نمبر 134

قسط نمبر 135

قسط نمبر 136

قسط نمبر 137

قسط نمبر 138

قسط نمبر 139

قسط نمبر 140

قسط نمبر 141

قسط نمبر 142

قسط نمبر 143

قسط نمبر 144

قسط نمبر 145

قسط نمبر 146

قسط نمبر 147

قسط نمبر 148

قسط نمبر 149

قسط نمبر 150

قسط نمبر 151

قسط نمبر 152

قسط نمبر 153

قسط نمبر 154

قسط نمبر 155

آخری قسط